تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     04-05-2014

آئین کی بے حرمتی

کوئی اہم ترین مسجد بھی اگر ناجائز طور پر قبضہ میں لی گئی جگہ پر تعمیر کی جائے تو اسے اﷲ اور اس کے رسولﷺ نے فوری طور پر بنیادوں سے گرا دینے کا حکم دیا ہے اور حضور پاک ﷺ کی حیات طیبہ میں ایک مسجد کو گرا کر آنے والے وقتوں کیلئے مثال بنایا گیا۔ آئینِ پاکستان کی رو سے پارلیمنٹ اس ملک کا سب سے مقدس ادارہ ہے۔ اگر اس ادارے کی بنیاد ناجائز ہو‘ اگر اس کا وجود ناجائز ہو تو کیا یہ پارلیمنٹ سب سے اعلیٰ اور مقدم ادارے کے طور پر کام کر سکتی ہے؟۔ اس ملک کا آئین‘ جس کے تحت ہم آج اپنے روز مرہ کے کام نمٹاتے ہیں‘ کسی کو غدار ٹھہراتے ہیں‘ کسی کو مجرم گردانتے ہیں‘ اسے ایک پارلیمنٹ نے بنایا۔ اس آئین میں وقتاََ فوقتاََ جو بھی ترامیم کی گئیںوہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہوئیں اور اگر یہ پارلیمنٹ ہی ناجائز ہو تو کیا اس کا بنایا ہوا کوئی قانون قابل عمل ہو سکتا ہے؟۔ اور اگر پاکستان کے آئین کے تحت ہونے والے انتخابات میں فراڈ کیا گیا ہو‘ دھاندلی کی گئی ہو‘ لوگوں سے دھوکہ کیا گیا ہو‘ لوگوں کے حق رائے دہی کو لوٹا گیا ہو‘ تو کیا ایسا کرنے والا فرد یا افراد آئین کی بے حرمتی کے مرتکب نہیں ہوئے؟ کیا اس طرح کا قبیح جرم کرنے والے کسی بھی قسم کی معافی کے حق دار ہو سکتے ہیں؟۔ آئین کی بے حرمتی کرنے والوں کو ڈھونڈنے کیلئے زیا دہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اس کا آغاز اگر نومبر 1988ء یا 24 اکتوبر1990ء یا 6 اکتوبر1993ء یا پھر3 فروری1997ء اور 2008ء اور11 مئی2013ء کو ہونے والے انتخابات سے کرلیں تو آئین شکن ہمارے سامنے دندناتے پھرتے ہیں اور ان جھوٹے انتخابات کے ذریعے اس ملک کی قسمت سے کھیلنے والے دوسروں کو غدار بنا کر خود سب کے سامنے پارسا بنے بیٹھے ہیں لیکن کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں‘ کوئی ان سے جواب طلبی کرنے والا نہیں۔
35 پنکچروں کی بات تو اس ملک کے ماتھے پر ایک سیاہ دھبے سے کم نہیں لیکن کس قدر ستم ظریفی ہے کہ اس کے ذمہ دار دانشوری کا لبادہ اوڑھے قومی اقدار کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ روزانہ کسی نہ کسی چینل سے سننے میںآتا ہے کہ آج ملک میں ادارے آزاد ہیں۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے اور اس قوم کی عزت اور وقار کو پنکچروں کے ذریعے داغدار اور ناکارہ کرنے والے معززین کی فہرسست میں اس طرح اونچی مسند پر بیٹھے ہیں جیسے انہوں نے کوئی بہت ہی قابل فخر کارنامہ سر انجام دیا ہو۔ گیارہ مئی کو اس ملک کے آئین کو کانٹوں پر گھسیٹ کر جگہ جگہ اس میں چھید کیے گئے اور ان چھیدوں پر یہ کہتے ہوئے پردہ ڈالا گیا کہ ہم نے تو صرف پنکچر ہی لگائے ہیں‘ حالانکہ جس ٹیوب میں دس کے قریب پنکچر لگ جائیں لوگ اسے اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں‘ لیکن غضب خدا کا‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ کو اکٹھے35 پنکچر لگانے کے بعد بھی قوم کو اس ٹیوب پر مسائل کا دریا پار کرانے کی باتیں کی جا رہی ہیں؟۔ کہا جا رہا ہے کہ اب اس ملک میں ہمیشہ آئین کی حکمرانی ہو گی‘ اب مارشل لاء لگانے کا زمانہ گذر گیا‘ آپ کا کہنا سر آنکھوں پر‘ آئین اور قانون کی حکمرانی سے
کسے انکار ہو سکتا ہے لیکن جناب والا یہ بھی تو بتا دیں کہ اگر آج مارشل لاء کا زمانہ نہیں تو کیا اب پاکستان میں پنکچروں کا زمانہ آ گیا ہے؟۔گیارہ مئی کی صبح پاکستان بھر کے شہروں، قصبوں اور دیہات کے کروڑوں لوگ جن میں بوڑھے‘ جوان، مرد اور خواتین اپنے ننھے منے بچے گود میں لیے لمبی لمبی قطاریں بنائے گھنٹوں اس انتظار میں کھڑے رہے کہ ووٹ کی امانت اس کے حق دار کے سپرد کر سکیں۔ اب اگر کوئی ان کی امانت میں خیانت کر لے‘ ان کا حق دھوکے اور فریب دہی سے ہتھیا لے‘ تو کیا اس کا یہ فعل آئین پاکستان سے صریحاََ غداری نہیں؟ کیا ہمارے آئین اور قانون کے ماہرین یہ بتا سکتے ہیں کہ اگر ووٹ کا حق چھین لیا جائے‘ اگر ووٹروں کی امانت میں خیانت کو وتیرہ بنا لیا جائے تو پھر لوگ کس طرف دیکھیں گے؟ اور جب آئین اور قانون کا مذاق اس طرح اڑانا شروع کر دیا جائے جیسے اٹھارہ اپریل کو اڑا دیا گیا تو پھر لوگوں کا جمہوریت پر اعتبار کیسے بر قرار رکھا جا سکتا ہے؟
آج اس ملک میں وہ کچھ کیا جا رہا ہے جس کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ سب کچھ عدلیہ کی آزادی کے دور میں کیا جا رہا ہے۔ 18 اپریل کو لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ122 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ147 کے ووٹوں کے انگوٹھوں کی تصدیق اور پھر ان کی گنتی کے لیے جب درخواست دہندگان کے وکیل پہنچے تو وہاں آئین پاکستان کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ایک عجیب کھیل کھیلا جا چکا تھا۔ متعلقہ فریقین کمرہ عدالت میں یہ جان کر حیران رہ گئے کہ متعلقہ حلقہ انتخاب کے ریٹرننگ آفیسر کا رات گئے بغیر کسی وجہ کے مفاد عامہ کے تحت تبادلہ کر دیا گیا ہے اور ابھی ان کی جگہ کسی اور کی تعیناتی بھی نہیں کی گئی۔ اس طرح ووٹوں کی گنتی کا کام جو ریٹرننگ آفیسر نے انجام دینا تھا‘ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ان دو حلقوں کی ووٹوں کی گنتی کا حکم کسی پٹواری نے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور الیکشن ٹربیونل نے دے رکھا ہے۔ لاہور کے ان دو حلقوں میں سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور دوسرے ان کے قومی حلقے کی صوبائی نشست سے شعیب صدیقی بالترتیب سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور میاں محسن لطیف کے خلاف درخواست گذار تھے۔ اب عمران خان کے پاس اس کے سوا شاید کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ وہ گیارہ مئی کو اس انتخابی دھاندلی کے خلاف میدان میں آئیں کیونکہ جب سارے دروازے بند کر دیئے جائیں اور مخالف کا گلا گھونٹ دیا جائے تو اپنی جان بچانے کیلئے اسے ہاتھ پائوں مارنے کا حق تو حاصل ہے۔
الیکشن ٹربیونل فیصل آباد نے حکم جاری کیا ہے کہ این اے173 کے بائیس پولنگ اسٹیشنوں کے پریزائیڈنگ افسران کو گرفتار کر کے ریکارڈ سمیت پیش کیا جائے۔ یہ پٹیشن ثنا ا ﷲ مستی خیل نے مسلم لیگ نواز کے ''کامیاب‘‘ ہونے والے رکن قومی اسمبلی عبد المجید خان کے خلاف مبینہ دھاندلی پر دائر کر رکھی ہے۔ ان بائیس پولنگ اسٹیشنوں کے پریزائیڈنگ افسران انتخابات مکمل ہونے کے اڑتالیس گھنٹے بعد نتائج جمع کرانے کیلئے ریٹرننگ افسر کے پاس پہنچے‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان بائیس پولنگ اسٹیشنوں کے عجیب و غریب نتائج کے مطا بق اس انتخابی حلقے کے 13224 ووٹ مسترد کر نے کے بعدمسلم لیگ نواز کے امیدوار کو اس حلقے سے اپنے مخالف امیدوارکے مقابلے میں6527 ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب قرار دے دیا گیا۔
سرگودھا سے جناب نواز شریف قومی اسمبلی کی جس نشست سے کامیاب ہوئے‘ اس کے ایک پولنگ بوتھ کا رزلٹ تو ہو سکتا ہے کہ عنقریب گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بن جائے کیونکہ اس پولنگ بوتھ پر کل رجسٹرڈ و وٹوں کی تعداد پندرہ سو کے قریب ہے لیکن جناب نواز شریف اس حلقے سے پندرہ ہزار ووٹ حاصل کرلیتے ہیں۔لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے128 کے ووٹوں کی گنتی کا حکم بھی چند دن ہوئے جاری کر دیا گیا ہے۔ دوران سماعت ہائیکورٹ کے معزز جج نے کہا کہ اس حلقہ انتخاب کے پولنگ اسٹیشن نمبر116 پر ایک پٹواری کو پریزائیڈنگ آفیسر مقرر کر دیا جو نا قابل یقین ہے کیونکہ میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی پٹواری کو پریزائیڈنگ آفیسر لگتے کبھی نہیں دیکھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved