تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     05-05-2014

لیڈر

کیا عمران خان ایک عظیم قومی لیڈر بن کے ابھر سکتے ہیں ؟ ایماندا رہیں مگر ادھورے سے آدمی۔ بہادر ہیں مگر ادنیٰ لوگوں میں گھرے ہوئے ۔ ٹیپو کے غدّاروں سے بدتر غدّاروں میں ۔اللہ ان کی مدد کرے‘ اللہ ان کی رہنمائی فرمائے۔
جیسا کہ وعدہ تھا، اس پہ تو ابھی بات کرتے ہیں کہ ریاست کیا ہوتی ہے ۔ کس طرح اپنے وجود کو مستحکم کر سکتی اور اپنے باشندوں کو آبرومندانہ زندگی عطا کر سکتی ہے مگر اس سے قبل ایک اور نکتہ !
کون سی وہ بنیاد ہے ، جس نے تاریخ کے جلیل القدر لیڈروں کو جنم دیا۔ کیا چیز ہوتی ہے، جو انہیں مافوق الفطرت سا بنا دیتی ہے ۔ان کے ایک اشارے پر لوگ حرکت میں آتے اور زندگیاں نذر کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ 
تین کردار ہم سامنے رکھتے ہیں ۔ ایڈولف ہٹلر ، قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور ذوالفقار علی بھٹو ۔ اپنے خیرہ کن عروج پر بھی بھٹو 37فیصد رائے دہندگان کی حمایت ہی حاصل کر سکے مگر اس میں کیا کلام کہ آج بھی ان سے محبت کی جاتی ہے ۔ گرفتار ہوئے اور پھانسی کا حکم صادر ہوا تو ان کے نام پہ لوگ جل مرے تھے۔آمادہ کرنے والے پرویز رشید آج نون لیگ کے ''رہنما ‘‘ہیں ۔ 
ایک راز بھٹو نے پا لیا تھا ۔ لیڈر وہ شخص ہوتاہے ، جو کسی قوم کی عمیق ترین ، سب سے بنیادی اور سب سے بڑی آرزو کو پوری طرح پہچان لے اور خود کو اس سے مکمل طور پر ہم آہنگ کرے۔ جنگِ ستمبر تک، وہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے درباری تھے ۔ کبھی اسے صلاح الدین ایوبی قرار دیتے اور کبھی ایشیا کا ڈیگال۔ جنگِ ستمبر میں پہلی بار دلو ں میں یہ امید جاگی کہ کشمیر پہ بھارت کا تسلّط تمام ہو سکتاہے ۔بھٹو نے اس نجیب آرزوکو پہچانا اور اس کامظہر بن گئے ۔ اقوامِ متحدہ میں جاری مباحث کے د وران، جن کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھا اور سنا جایا کرتا، بھٹو نے بھارت کے ''میسنے‘‘وزیر ِ خارجہ سردار سورن سنگھ کو مخاطب کر کے کہا : لڑنا پڑا تو کشمیر کے لیے ایک ہزار برس تک بھی ہم لڑیں گے ۔ یہی نہیں ، پورے ہی معاملے کو سمجھ لیا۔ مفلسوں اور محتاجوں کی درماندگی کو ، صدیوں سے چلے آتے بہیمانہ مظالم کے زخموں کو ۔ افتادگانِ خاک کی حسرتوں اور امنگوں کو ۔ وہ ہیرو بن کر ابھرے ۔ ہاں ! مگر ان کا کوئی عقیدہ نہ تھا۔ قوم پرست وہ یقینا تھے اور بے شک انہوں نے پہلی بار Anti Establishmentپارٹی تشکیل دی مگر خود پسند، مگر اقتدار کے حریص اور نرگسیت کے مارے ۔ باقی تاریخ ہے ۔ 
ایڈولف ہٹلر شکست خوردہ جرمنی کے خس و خاشاک سے اٹھا ۔ بعض اعتبار سے دنیا کی بہترین اقوام میں سے ایک کہ صنعتی انقلاب فقط برطانیہ ہی نہیں ،متوازی طور پر برلن میں بھی نمودار ہوا تھا ۔ اب مگر وہ ایک بدترین گناہ میں برطانیہ اور فرانس کے رقیب تھے ۔ کمزور اقوام کو غلام بنانے کا عمل ۔ قرآنِ کریم کی ایک آیت یاد آتی ہے : مفہوم جس کا یہ ہے : اور اگر اللہ بعض کو بعض کے ذریعے دفع (تباہ ) نہ کر ڈالتا تو زمین میں وہ فساد کرتے ۔ پھر یہ بھی ارشاد کیا کہ اللہ اگر ایسا نہ کرتا تو زمین پر پھیلی ہوئی سب عبادت گاہیں ویران ہو جاتیں اور اللہ کے محکوم بندے جانوروں سے بدتر زندگیاں گزارتے ۔ پہلی عالمگیر جنگ میں شکست کے بعد توہین آمیز شرائط جرمنی سے منوائی گئیں ۔ ہٹلر نے کہ ایک معمولی فوجی 
عہدیدار تھا، جان لیا کہ اس کی با عزت قوم اس اذیت کا بوجھ اٹھا نہیں سکتی ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ، وہ ایک شعلہ بیان خطیب تھا۔ بھٹو سے کہیں بڑھ کر انتقام پسند کہ پاکستانی لیڈر تو گاہے ہوش مندی کا مظاہرہ بھی کرتا۔ دستور اس نے بنایا، ایٹمی پروگرام اس نے تشکیل دیا اور بھارت ہی نہیں ، انکل سام کو بھی ٹھکانے پر رکھنے کی کوشش کی۔ سفاک ، مگر سفاک! تاریخ کے دوام میں زندہ رہنے کا ولولہ مگر الیکشن آیا تو بلا مقابلہ ''منتخب ‘‘ہوا اور اس کے چاروں وزرائِ اعلیٰ بھی ۔ 
قائد اعظمؒ بالکل ہی مختلف تھے ۔ یکسر بے تعصب ، یکسر تعمیری انداز ِ فکر کے امین ۔ ابرہام لنکن کی طرح ۔تاریخ میں اس طرح کے لیڈر تب پیدا ہوتے ہیں ، جب اللہ کی صفتِ رحم اس کی صفتِ عدل پہ غالب آتی ہے ۔ قرآنِ کریم کے بقول ، جب وہ فراعین کے مقابلے میں کمزوروں کو اٹھانے کا ارادہ کرتاہے ۔ ''کن فیکون ‘‘ سے نہیں، جس کی بالکل ہی غلط تعبیر کی جاتی ہے ۔''کن فیکون ‘‘تو اس کی قدرتِ کاملہ کا بیان ہے ۔ اللہ کا طریق یہ ہے کہ ہر چیز ان قوانین کے تحت بروئے کار آتی ہے ، جو اس نے تخلیق کیے اور سب سے زیادہ اسی کو عزیز ہیں ۔ اس کا اہم ترین قانون یہ ہے کہ کامیابی خلوص کے ساتھ وابستہ ہے ۔ شکست خطا سے نہیں،کمزوری سے نہیں ہوتی بلکہ پروردگار کے قوانین کو فراموش اور نظر انداز کرنے سے ۔ مثال کے طور پر بدر کی تاریخ ساز کامرانی کے بعد احد کے دن پروردگارِ عالم کے ایک فرمان کو نظر انداز کیا گیا تو تاریخ کے بہترین لوگ تادیب سے گزرے ۔
محمد علی جناحؒ نے اپنی قوم کی اس آرزو کو دل و جان کی گہرائیوں سے پہچانا کہ وہ آزادی کے آرزومند ہیں ۔ اپنے عقائد اور اپنی ترجیحات کے مطابق باوقار زندگی ۔ معاشی ترقی اور غلامی سے نجات۔یہی نہیں ، قائد اعظم ؒنے پھر کامل خلوص سے پوری زندگی اس مقصد کی نذر کر دی۔ عقب میں عصرِ رواں کے علمی مجدّد اقبال ؔ کھڑے تھے ، تیس برس کی شعوری جدوجہد سے جنہوں نے مسلم برصغیر کا احساسِ کمتری نوچ پھینکا تھا۔ خودی کا ترانہ گایا اور کس والہانہ پن سے گایا: 
دیکھ آکر کوچۂ چاکِ گریباں میں کبھی 
راہ تو، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو، حاصل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا
نا خدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
بدقسمت ہیں وہ لوگ، جو اقبال ؔ کا موازنہ ٹیگور اور قائدا عظم کا گاندھی اور نہرو سے کرتے ہیں ۔ شاعری کی تاریخ میں اقبالؔ ایک استثنیٰ تھے اور جدید سیاست کی تاریخ میں محمد علی ۔ اپنی ذاتِ بے ہمتا پہ ایسا توکل پروردگار نے انہیں بخشا تھا کہ نگاہ اٹھا کر دیکھو تو تھک کے پلٹ آتی ہے ۔ عرب و عجم کے سب شیوخ اور مہدویت کے سب دعویدار دھرے کے دھرے رہ گئے اور اللہ نے اسمعیلی ، گجراتی گھرانے کے ایک فرزند کو اٹھا لیا۔ اس اللہ نے ، جو خلوص کا ایک ذرّہ بھی ضائع نہیں کرتا اور صاحبِ حکمت کو سرفرازی عطا فرماتا ہے ۔ محمد علی صاحبِ ایمان بھی سب سے بڑھ کر تھے اور صاحبِ حکمت بھی سب سے زیادہ ۔ نہیں ، کسی شخص کا کوئی ذاتی کارنامہ اور کوئی ذاتی وصف نہیں ہوتا۔ اللہ کی رحمت ان پر ٹوٹ ٹوٹ کے برسی کہ وہ سچ بولتے ، وعدہ وفا کرتے اور خیانت کا تصور تک نہ کر سکتے تھے ۔ فرمانِ رسولؐ کے مطابق ، ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں ، جن کا شمار رحمتہ اللعالمینؐ سے محبت کرنے والوں میں کیا جاتاہے ۔ کبھی کسی نے غور کیا ہوتا ، کبھی کسی نے تحقیق کی ہوتی کہ محمد علی کو سرکارؐ سے انس بہت تھا۔ بی بی سی کے فتنہ انگیز اخبار نویس کو انٹرویو دیتے ہوئے، ارشاد کیا تھا: اس فرقے سے میرا تعلق ہے ، جس سے عالی مرتبتؐ کا تھا ۔ عبادات؟ ہاں ان کا شمار عابدوں میں نہیں۔ عالمِ دین ؟ ظاہر ہے کہ بالکل نہیں ۔ روحانیت؟ اس سوال پر پروفیسر احمد رفیق اختر کو بات کرنی چاہیے ، مجھ ناچیز کو نہیں ۔ اقبالؔ نے انہیں پہچا ن لیا تھا ۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور سب جانتے ہیں کہ مولانا محمد علی جوہر نے بھی ۔ علمائِ کرام نہ پہچان سکے کہ گاہے علم حجابِ اکبر ہو جاتاہے ۔ لیجیے ، گفتگو پھر بیچ میں رہ گئی ۔ ریاست کی تشکیل اور اس کا استحکام ؟ بات ادھوری رہ جاتی ہے ۔ 
کیا عمران خان ایک عظیم قومی لیڈر بن کے ابھر سکتے ہیں ؟ ایماندا رہیں مگر ادھورے سیاستدان۔ بہادر ہیں مگر ادنیٰ لوگوں میں گھرے ہوئے ۔ ٹیپو کے غدّاروں سے بدتر غدّاروں میں ۔اللہ ان کی مدد کرے، اللہ ان کی رہنمائی فرمائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved