تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     05-05-2014

وقت کم ہے

ظہر اور عصر کے درمیان پاک فوج کا نوجوان افسر اپنے سپاہیوں کو لیے ہیلی کاپٹر پر جنوبی وزیرستان میں معمول کے مطابق نچلی پرواز کرتے ہوئے علاقے کا جائزہ لے رہا تھا کہ ایک پہاڑی درے سے اس نے ایک شخص کو آتے دیکھااور پائلٹ کو فضا میں ہیلی کاپٹرمعلق کرنے کی ہدایت کردی کہ اگر آنے والا دوست ہوا تو ٹھیک ، دشمن نکلا تو اس کے ساتھ گولیوں کی زبان میں بات کی جائے گی ۔ درے سے آنے والے شخص نے ہیلی کاپٹرکو یوں دیکھا جیسے کوئی معمول کی بات ہو اور پھر اسے نظر انداز کرتے ہوئے کندھے پر رکھی چادر ایک چھجا نما چٹان کے نیچے بچھائی اور اس پر قبلہ رو ہوکر نماز پڑھنے لگا۔ نوجوان افسر نے اس کو سجدے میںجاتے دیکھا تو اسے اطمینان ہوگیا کہ یہ اگر دوست نہیں تو دشمن بھی نہیں۔ اتنی دیر میں ریڈیو پر پیغام ملا کہ وہ فوری طور قریب کی ایک اور وادی میں پہنچے۔ حسب ہدایت ہیلی کاپٹر فضا میں بلند ہونا شروع ہوا تو اس نے چار فوجیوں کو اسی درے سے آتے دیکھا جس سے تھوڑی دیر پہلے آنے والا شخص نماز میں مصروف تھا۔ فضا میں بلند ہوتے ہوئے اس نے دیکھا کہ چارو ں سپاہی ایک دوسرے سے الگ ہوکر نماز پڑھتے ہوئے شخص کو گھیرے میں لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ سپاہیوں کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی نماز پڑھنے والے نے اپنے لباس سے کلاشنکوف نکالی اور سپاہیوں پرگولیوں کی بوچھاڑکردی، تربیت یافتہ سپاہیوں نے خود کوبچا لیا، 
البتہ گولیوں سے ان کاایک ساتھی زخمی ہوگیا۔ ہیلی کاپٹر پر سوارنوجوان افسر نے اپنے سپاہیوں پر حملہ ہوتے دیکھا توفوراً بندوق سیدھی کی اور تاک کر نمازی کا روپ دھارے ہوئے دہشت گرد کا قصہ تمام کرڈالا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مارا جانے والا شخص کچھ دیر پہلے تھوڑی دورہونے والے معرکے میں زندہ بچنے والا واحد دہشت گرد تھا اور چاروں فوجی اس کا تعاقب کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے۔اگر ہیلی کاپٹر سے بروقت فائر نہ ہوتا توممکن ہے یہ معاملہ کچھ طویل ہوجاتا۔ 
نوجوان افسر یہ واقعہ سناتے ہوئے افسوس کا اظہارکررہا تھا کہ اگر وہ اس دہشت گرد کی نماز سے دھوکہ نہ کھاتا تواپنے ساتھی کو زخمی ہونے سے بچا سکتا تھا۔ یہ واقعہ ان درجنوں واقعات میں سے ایک ہے جو فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکارفوجیوں کے لیے معمول بن چکے ہیں۔ کہیںکوئی قرآنی آیات سے مرصع خط لکھ کر فوجیوںکو ان جدید ' مجاہدینِ اسلام ‘ کو محفوظ راستہ دینے کے بدلے جنت کی بشارت دیتا ہے اور کوئی تبلیغ کے بہانے اپنے ساتھ لایا ہوا بارود ان فوجیوں پر آزمانا چاہتا ہے۔ اسلام اور شعائر اسلام کی آڑ میں تخریب کاری کی اتنی کوششیں فاٹا میں مصرو ف فوجیوں کے سامنے آچکی ہیں کہ اب ان میں سے کوئی بھی جوان دہشت گردوں کی کم ازکم اس چال میں نہیں آتا۔ ان واقعات کی کثرت نے فوجی جوانوں کو یہ بات بخوبی سمجھا دی ہے کہ دہشت گرد صرف دہشت گرد ہوتا ہے،اس کے لیے اسلام کا نام صرف آڑ ہے جسے وہ بوقت ضرورت استعمال کرتا ہے ورنہ اس کی نظر صرف اپنے ہدف پر ہوتی ہے۔ دہشت گردوں کے نظریاتی پھندوں سے بچ نکلنے سے فوج کو طالبان کے بارے میں ایک نئے بیانیے کی تشکیل میں بھی مدد ملی جس کے مطابق دہشت گرد اپنا ہوتا ہے نہ مسلمان، چاہے وہ کتنی بار پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی بات کرے اور خودکوکتنا ہی اچھا مسلمان ثابت کرے۔
فکری مغالطے کے خاتمے سے وہ کامیابیاں ملیں جن کی بدولت ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آتی جارہی ہے۔گزشتہ برس طالبان نے مذاکرات پر آمادگی ظاہرکی ، تواس وقت خطرہ تھا کہ سردیاں ختم ہوتے ہی مذاکرات چھوڑکروہ پھر دہشت گردی شروع کر دیں گے۔ یہ خیال اتنا غلط بھی نہیں تھا لیکن یہ سوچنا بہرحال درست نہیں تھا کہ حکومت اور فوج کو اس کا ادراک نہیں۔ اس خطرے کے سدباب کے لیے جو کوششیں کی گئیں ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی سے فاٹا تک طالبان کی نقل وحرکت محدودہوکررہ گئی۔مستقبل کی کارروائیوں کے لیے جو تباہ کن سامان مختلف مقامات پرجمع کیا گیا تھا اس کا بڑا حصہ پکڑ لیا گیا یا تباہ کردیا گیا۔اس طرح جنگ بندی کا جو فائدہ طالبان نے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی وہ انہیں نہیں مل سکااوراس کے برعکس ہمارے ریاستی اداروں نے اس کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور زمین پر اپنی پوزیشن بہتر کر لی۔ یہی وجہ ہے کہ اب جنگ بندی حکومت سے زیادہ طالبان کی ضرورت بن چکی ہے ۔اس کامیابی کے ساتھ اسلام آباد اور راولپنڈی میں یہ خدشہ محسوس کیا جارہا ہے کہ بڑی محنت سے حاصل کی گئی یہ کامیابی کہیں مذاکرات کی میز پر لینے دینے کی حکمت عملی کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔ 
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ 'جنگ ایک جھولتے ہوئے ہنڈولے کی مانند کبھی ایک فریق کی طرف اورکبھی دوسرے فریق کی طرف ہو جاتی ہے‘۔ اس وقت جنگ کا ہنڈولا ریاستِ پاکستان کی طرف ہے، طالبان کے پاس بس اتنی گنجائش ہے کہ وہ اکا دکا کارروائیاں کرکے کچھ خوف و ہراس پیداکرسکیں جبکہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں یہ خیال جڑ پکڑ رہا ہے کہ طالبان کے خلاف حاصل کردہ کامیابیوں کو بنیاد بناکر ان پر جتنی جلدی ممکن ہو آخری ضرب لگا دی جائے کیونکہ اس طرح کی جُزوی برتری کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوتا، گھیرے میں ایک معمولی سا رخنہ بھی مخالف فریق کو نکل جانے میں مدد کے لیے کافی ہوتا ہے۔ میدان میں حکومتی پوزیشن کی بہتری کا فائدہ اٹھاکر چودھری نثارعلی خان نے پہلی بار مذاکرات میں طالبانی کمیٹی کے کردار پر سوالیہ نشان یہ کہہ کر لگا دیا ہے کہ 'مذاکرات کرنے والے ہر روز جلسوں سے خطاب کررہے ہیںاس لیے کھینچا تانی کے اس ماحول میں بات آگے نہیں بڑھ سکتی‘۔اگر طالبانی کمیٹی کے مولانا سمیع الحق، مولانا یوسف شاہ اور پروفیسر ابراہیم نے اب بھی سرعام گفتگومیں احتیاط سے کام لیتے ہوئے اپنے طرزعمل پر نظرثانی نہ کی تو پھر چودھری نثارکے اگلے بیان میں آپریشن کی تاریخ بھی آسکتی ہے۔اس وقت تو یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ کوئی 'حادثہ ‘ واقعات کے اس سلسلے کا سبب بن جائے جسے روکنے کے لیے مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے لیکن طالبان کے لیے اس کی رفتار بہت تیز ہوچکی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved