تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     06-05-2014

شاید کہ بلا ٹل جائے

دہشت گردی نے دو عالمی حریفوں امریکہ اور چین کو ‘ باہمی تعاون پر مجبور کر دیا ہے۔ امریکہ سمجھ رہاہے کہ القاعدہ کی دہشت گرد تنظیم‘ پوری طرح ختم نہیں ہو سکی۔ اس کے خفیہ سیل اپنی کمین گاہوں میں موجود ہیں۔ مرکزی نظام بھی فعال ہے۔ وہ یورپ اور امریکہ میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ امریکہ نے اب افغانستان اور پاکستان پر ساری توجہ اور وسائل مرکوز رکھنے کے بجائے‘ دہشت گردی کے خلاف اپنے اقدامات ‘کو تمام ایسے مقامات تک پھیلانے کا فیصلہ کیا ہے‘ جہاں بھی دہشت گردی کے خفیہ ٹھکانے موجود ہیں۔ 2000ء تک امریکہ اور چین کے درمیان‘ دہشت گردی کے خلاف قابل ذکر تعاون موجود تھا۔ خصوصاً خفیہ معلومات کے تبادلے۔ لیکن امریکہ کو مسلسل یہ شکایت رہی کہ چین اپنے ملک میں دہشت گردی سے متعلق‘ اسے پوری معلومات مہیا نہیں کر رہا۔ دونوں ملکوں میں دہشت گردی کی تعریف پر بھی اختلاف تھا۔ امریکہ میںدہشت گردی کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ (1)تشدد کی کارروائیوں میں ملوث ہونا اور انسانی زندگی سے کھیلنا۔ (2)کسی فرد کے طرزعمل سے یہ ظاہر ہونا کہ وہ دہشت گردی کا ارادہ رکھتا ہے۔ (3)شہری آبادی کو خوفزدہ اور ہراساں کرنا۔ (4)حکومتوں کو طاقت اور دھمکیوں کے ذریعے پالیسی بدلنے پر مجبور کرنا۔ (5)حکومت کے کاموں پر اجتماعی تباہی‘ قتل عام یا اغوا کاری کے ذریعے اثر انداز ہونا۔ 
دہشت گردی کی اس تعریف پر‘ امریکہ اور چین میں کامل اتفاق نہیں پایا جاتا۔ چین اور امریکہ دونوں ہی دہشت گردوں کے بارے میں‘ اپنی خصوصی تحقیقات کی رپورٹیں فراہم کرتے ہوئے‘ کافی کچھ چھپا لیتے ہیں۔ وسطی ایشیا ‘ خصوصاً ترکمانستان اسلامک موومنٹ کے بارے میں،30 اپریل کو امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے دہشت گردی کے بارے میں جوسالانہ رپورٹ جاری کی ہے، اس میںمشرقی ایشیا اور پیسیفک کے علاقوں میں تعاون کو ممکن قرار دیا گیا ہے ، لیکن چین کے مغربی پڑوسیوں کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ امریکہ کو شکایت ہے کہ چینی حکومت یغور دہشت گردوں کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم نہیں کرتی۔ مثلاً اس نے 2013ء میں‘ ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی تفصیل سے امریکہ کو آگاہ نہیں کیا۔ کون منگ ریلوے اسٹیشن اور پھن من اسکوائر کے واقعات پر‘ امریکہ کو پوری طرح اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ چین کی وزارت خارجہ نے ‘امریکی خدشات پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین خود دہشت گردی کا ہدف ہے اور تسلسل اور مضبوطی سے دہشت گردی کی مزاحمت کر رہا ہے۔ چین کے نزدیک دہشت گرد‘ نوع انسانی کے مشترکہ دشمن ہیں۔ عالمی برادری کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے چین‘ روس‘ بھارت اور انڈونیشیا میں دہشت گردی کے خلاف سرگرم حصہ لے رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ چین بیرونی دنیا میں‘ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کا دائرہ بڑھا رہا ہے، لیکن امریکہ کے ساتھ وہ‘ بہت سے معاملات میں ہچکچاہٹ اور نیم دلی سے کام لیتا ہے۔ اسے شبہ ہے کہ امریکہ‘ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ مقصد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ چین کی فراہم کردہ معلومات سے سٹریٹجک فوائد اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ دوطرفہ بدگمانی‘ ان طاقتوں کی مشترکہ کارروائیوں پر اثرانداز ہو رہی ہے، لیکن جیسے جیسے‘ افریقہ اور شرق اوسط میں دہشت گردوں کی طاقت بڑھ رہی ہے‘ دونوںکی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ نے جن ملکوں میں فوجی مقاصد کے لئے دلچسپی لی یا فوجیں اتاریں‘ وہاں بھی دہشت گردوں نے بہت فائدہ اٹھایا۔ لبیا‘ عراق‘ شام‘ افغانستان‘ پاکستان‘ یمن‘ صومالیہ اور دیگر کئی افریقی ملکوں میں‘ دہشت گردوں کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے۔ چین میںبھی طاقت کے بھرپور استعمال کے باوجود ‘دہشت گردوں کو غیرموثر نہیں کیا جا سکا۔ ان کی سرگرمیاں پہلے چند علاقوں تک محدود تھیں، لیکن اب وہ بیجنگ کے اندر بھی‘ کارروائیاں کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں۔ دونوں ملکوں کو دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی طاقت پر تشویش ہے اور ان میں مشاورت جاری ہے کہ باہمی وسائل کو کس طریقے سے یکجا کر کے‘ دہشت گردوں پر قابو پایا جائے اورسٹریٹجک معاملات میں دونوں کو جو تشویش ہے‘ اسے ختم کرنے پر توجہ دی جائے۔ 
پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز پر‘ دونوں کی بڑھتی ہوئی تشویش نے‘ انہیں قریبی تعاون پر مجبور کر دیا ہے۔ اس معاملے میں چین کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ امریکہ نے چین کی مغربی سرحدوں پر جو فوجیں‘ دہشت گردی کے خلاف مہم کی خاطر لگا رکھی ہیں‘ وہ موثر ثابت نہیں ہو رہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے اندر دہشت گردوں کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے۔ چین امید کرتا ہے کہ امریکی فوجوں کا غالب حصہ‘ وعدے کے مطابق افغانستان سے نکال لیا جائے گا۔ یہی چین کا پرانا مطالبہ ہے۔ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاکے بعد‘ اس خطے میں چین اور امریکہ‘ دہشت گردی کے خلاف مل کر کام کرنے میں آسانی محسوس کریں گے۔ یہاں میں ایک واقعے کی طرف اشارہ کروں گاکہ امریکہ کے ڈرون حملوں کے دوران‘ چین کے دو اہم دہشت گرد لیڈر ہلاک ہوئے تھے، جس پر چین نے اظہار اطمینان کیا۔ اگر امریکی افواج کے انخلا کے بعد‘ چین اور امریکہ کے مابین دہشت گردی کے خلاف متحدہ محاذ بنتا ہے‘ تو دہشت گردوں کے خلاف عالمی طاقتوں کی جنگ‘ ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گی۔ اس میں ڈرون حملوں کا استعمال زیادہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان نے مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کی خاطر‘ امریکہ سے خصوصی درخواست کی تھی کہ اگر وہ ڈرون حملے بند کر دے‘ تو پاکستان کو طالبان کے ساتھ بات چیت نتیجہ خیز بنانے میں مدد ملے گی۔ پاکستان نے طالبان کو جو مہلت لے کر دی تھی‘ وہ نہ تو اس کی اہمیت کا اندازہ کر سکے اور نہ اس کا فائدہ اٹھا پائے۔ یہ مذاکرات عملی طور پر بے معنی ثابت ہوئے۔ طالبان نے صرف اپنے دائو لگانے کی کوشش کی اور حکومت پاکستان کی کسی بھی تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ غیرذمہ دار اور نمائش پسند مذاکراتیوں کی‘ میڈیا پر آنے کی انتھک کوششوں کی وجہ سے‘ مذاکرات کا سنجیدہ ماحول پیدا نہ ہو سکا۔ یہاں تک کہ چوہدری نثار علی خان‘ جو مذاکرات کامیاب کرانے کے لئے خصوصی دلچسپی لے رہے تھے‘ وہ بھی مذاکراتیوں کی حرکتوں سے بیزار ہو گئے اور انہیں کہنا پڑا کہ کھینچاتانی کے ماحول میں مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
چین اور پاکستان کے درمیان بیشتر معاملات میں‘ سوفیصد اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے دفاع اور استحکام میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لئے جب حکومت پاکستان‘ مذاکراتی مخمصوں سے نکل کر‘ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائیوں میں مصروف ہوئی‘ تو اس کا بڑا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ چین کے ساتھ بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ پاکستان‘ قبائلی علاقوں میں‘ تربیت لے کر چین جانے والے دہشت گردوں پر‘ پوری طرح قابو نہیں پا سکا اور امریکہ کی تو ایک ہی شکایت ہے کہ پاکستان‘ دہشت گردوں کے معاملے میں‘ دوہری پالیسی سے کام لیتا ہے۔ ایک طرف وہ دہشت گردی کے خلاف ہمارا ساتھی ہے اور دوسری طرف پاکستان سے افغانستان میں جا کر دہشت گردی کرنے والوں کو تحفظ اور امداد بھی دیتا ہے۔ مذاکرات ختم ہونے کے بعد‘ پاکستان کو بھی ان موہوم امیدوں سے نجات مل جائے گی ‘ جو اس نے طالبان کے بعض گروہوں سے لگارکھی ہیں۔ افغان طالبان کو ہمارے ملک میںایک بیرونی سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے دیکھا جائے گا۔ افغانستان کے اندرونی امور میں عدم مداخلت کا نتیجہ‘ ہم نے صدارتی انتخابات کے دوران دیکھ لیا۔ جیسے جیسے افغانیوں کا اعتماد‘ ہماری عدم مداخلت پر بڑھتا گیا‘ باہمی تعلقات کی کشیدگی ختم ہونے لگے گی۔ اگر ان ساری تبدیلیوں کے بارے میں‘ میرے اندازے درست نکلے‘ تو ہم دیرپا اور مستحکم امن کی توقع کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ دہشت گردی کے خلاف پوری دنیا متفق ہے اور ایسا کامل اتفاق تو کسی بھی سوال پر نہیں پایا جاتا جتنا‘ دہشت گردی کے خلاف موجود ہے۔ ایسی صورت میں نہ صرف چین اور امریکہ ہمارے مددگار ہوں گے بلکہ دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھارت پر دبائو ڈالیں گی کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار پاکستان کے لئے پریشانی پیدا نہ کرے۔ خود بھارت کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ پاکستان‘ جنوبی ایشیا کے خطے میں دہشت گردوں کا زور توڑ دے۔ چین کی زمینی اور امریکہ کی الیکٹرانک انٹیلی جنس‘ ہمارے لئے انتہائی فائدہ مند ثابت ہو گی۔ اس کے علاوہ موجودہ جنگ میں استعمال ہونے والا‘ جدیدترین اسلحہ اور آلات بھی مل جائیں گے‘ جو ابھی تک پاکستانی فوج کو نہیں دیئے گئے۔ طالبان کے پاس ہم سے بہتر جدید ہتھیار موجود ہیں۔ عالمی توازن طاقت کے لئے‘ جس نئے خطے کا انتخاب کیا گیا ہے‘ پاکستان اور افغانستان اس میں شامل نہیں۔ اگر چین اور امریکہ کے درمیان‘ مقابلہ آرائی ہوئی‘ تو ان کا مرکز پیسیفک اور مشرقی ایشیا ہو گا۔ پاکستان‘ عالمی طاقتوں کی کشمکش میں‘ اپنے حصے سے زیادہ تباہی کا شکار ہو چکا ہے۔دعا کیجئے کہ ہماری بلا ٹل جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved