بھارت میں انتخابات کا عمل اب آخری مرحلے میں ہے۔ ابھی دومرحلوں کی پولنگ باقی ہے اور 16مئی کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ جہاں ایک طرف سیکولرپارٹیاں بشمول کانگریس بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کا خوف دلاکر اقلیتوں اور سیکولر ووٹوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے جتن کررہی ہیں، وہیں مودی اور اس کے حواری اس تاثر کو زائل کرنے کی از حد کوششیں کر رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان واقعی مودی سے خوف زدہ ہیں؟نامور معاشیات دان اور نوبل انعام یافتہ امریتا سین نے اپنے ایک حالیہ بیان سے اس بحث کو ہوا دی ہے ۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ 'مسلمان مودی سے خوف زدہ ہیں اور ان کے اس خوف کی پشت پر کئی اسباب ہیں ،اس کے جواب میں بی جے پی کے صف اول کے رہنما مرلی منوہر جوشی نے مشورہ دیا کہ مسلمانوں کو بی جے پی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ موقر مسلم جماعتوں اور قائدین نے اس کے بعد پوری صراحت کے ساتھ یہ و ضاحت کی کہ مسلم فرقہ کی بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی مخالفت کا غلط مطلب نکالا گیاہے، کیونکہ مسلمانوں کے عقیدہ کا ایک جزو لاینفک ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں،کسی انسان سے نہیں چاہے وہ کتنا ہی جابر اور قاہر کیوں نہ ہو۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ سیکولر جماعتوں اور رہنمائوں نے مودی کی پیش قدمی کو نظریاتی بنیاد پر روکنے کی کوشش کرنے کے بجائے خود ہی خوف کی نفسیات کا حربہ استعمال کرنا شروع کردیا۔ ایک مسلم قائد نے اس پوری صورت حال کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ مودی اور بی جے پی دونوں کی مخالفت ملک کے وسیع
تر مفاد کے مدنظر کی جارہی ہے کیونکہ وہ ایک کثیر مذہبی ، کثیر لسانی اور کثیر تہذیبی ملک پر حکمرانی کے لئے مناسب نہیں ہے۔ دراصل دونوں آر ایس ایس کے تنگ خیال نظریہ میں جکڑے ہوئے ہیں جس میں پیدائشی طور پراعلیٰ ذات کے ہندو طبقات کے علاوہ کسی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس رہنما نے یہ دلیل پیش کی کہ مودی گجرات جیسی ایک چھوٹی ریاست پر گزشتہ بارہ سال سے آہنی ہاتھوں سے حکومت کرنے کے باوجود وہاں کی چھوٹی سی مسلم آبادی کو ختم نہیں کرپائے تو وہ بقیہ ملک میں جو ایک برا عظم سے کم نہیں ہے ، کیسے تمام مسلمانوں کو ختم کرپائیں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ مودی کے بارے میں اسی طرح کے خدشات کا اظہار ملک کے وزیراعظم نے بھی کیے مگر اس حوالے سے صرف مسلمانوں کو کیوں نشان زد کیا جاتا ہے ؟ خیال رہے ،وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے علی الاعلان یہ بات کہی تھی کہ مودی کا بر سر اقتدار آنا ملک کے لیے تباہ کن ہوگا ،جنہوں نے احمد آباد کی سڑکوں اور کوچوں میں معصوموں کے قتل عام کی سر پرستی کی تھی ۔ کیا وزیر اعظم بھی مودی سے خوف زدہ ہیں ؟
ممتاز کنڑا ادیب اور گیان پتھ ایوارڈیافتہ انندمورتی نے مودی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ بر سر اقتدار آتے ہیں تو ملک نسل کش فسادات اور تشدد کی لپیٹ میں آجائے گا۔ امریکہ اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں کے 75سے زائد پروفیسر صاحبان نے جن میں بیشتر غیر مسلم ہیں، ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ بی جے پی نے جس شخص کو بطور وزیر اعظم پیش کیا ہے ،وہ آر ایس ایس اور اس کی ہندو قوم پرست تحریک کی پیداوار ہے ، جس کی تاریخ مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ مسلمانانِ ہند کی سب سے بڑی اور منظم تنظیم جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جماعت فسطائی طاقتوں کی سخت مخالف ہے لیکن اس نے کبھی مودی کا نام لے کر خوف کی نفسیات پید اکرنے کی کوشش نہیں کی ۔ ان کے بقول جماعت کے پیش نظر ملک کا مفاد ہمیشہ سے مقدم رہا ہے ،بی جے پی کی مخالفت کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ایک دوسری جماعت جمعیت علماء ہند( محمود گروپ) کے ترجمان مولانا عبدالحمید نعمانی نے کہا کہ مسلمان بی جے پی اور دیگر فرقہ پرست قوتوں کو اس لیے پسند نہیں کرتا کہ یہ جماعت ملک کے سیکولر تانے بانے کو بکھیر دے گی، جس سے ملک کی وحدت اور یکجہتی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے لسانی اقلیتوں کے کمشنر پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر انسان کو خدا سے ڈرنا چاہیے۔
اگر مسلمان مودی کے آنے سے خوفزدہ نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ مودی کے آنے سے کسے خوف زدہ ہونا چاہیے؟ اوّل،ان تمام بی جے پی رہنمائوں کو ،جو مودی سے آنکھیں چار نہیں کرتے ، مودی سے ڈرنا چاہیے۔ وہ سب مودی کے آمرانہ طرزعمل سے واقف ہیں جنہوں نے گجرات میں اپنے تمام طاقتور مخالفین کو حاشیہ پر کردیا یا ٹھکانے لگا دیا ، ان میں کیشوبھائی پٹیل، کانشی رام رانا، ہرین پاٹھک ، ہرین پانڈیا، سنجے جوشی ، سریش مہتہ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ جب وہ قومی سطح پر نمودار ہوئے تو مودی نے اپنے مربی اور محافظ ایل کے ایڈوانی ، جسونت سنگھ ، اور دیگر کو راستہ سے ہٹا دیا اورانہیں عملًا بے حیثیت کرکے رکھ دیا۔ انہوں نے اپنی آبائی ریاست میں پارٹی کی براہمن قیادت کو بھی پوری طرح سے بے اثر کرکے رکھ دیااور سنجے جوشی کو باہر کا راستہ دکھایا ۔یہاں تک کہ ان کی کابینہ میں ایک بھی برہمن وزیر نہیں ہے۔ اسی طرح بی جے پی نے ایک قدآور رہنما اورپارٹی کے سابق صدر مرلی منوہر جوشی کو بنارس کی اپنی روایتی پارلیمانی نشست سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا ،جہاں سے انہوں نے گزشتہ الیکشن میں کامیابی حا صل کی تھی ۔اب انہیں کانپور سے الیکشن لڑنا پڑ رہا ہے ،جبکہ مودی خود بنارس سے بھی انتخاب لڑ رہے ہیں۔یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اگر مودی وزیر اعظم بنتے ہیں تو پارٹی کے سینئر رہنمائوں کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟
دوئم ،وہ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے قائدین ہیں جو سماجی انصاف کی سیاست کرتے ہیں ۔انہیں مودی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ ان میں ملائم سنگھ یادو، شرد یادو ، لالو پرساد یادو، نتیش کمار، بینی پرساد ورما وغیرہ شامل ہیں۔ چونکہ مودی کا تعلق بھی پسماندہ طبقہ سے ہے ،اس لیے وہ پسماندہ طبقات کے واحد قائد کے طور پر ابھر سکتے ہیں ۔اس طرح شمالی ہند کے پس ماندہ رہنما پس منظر میں چلے جائیں گے ۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اسی خوف سے بی جے پی سے رشتہ منقطع کیا تھا۔ ان کی این ڈی اے سے قطع تعلق کی دلیل میں کوئی وزن نہیں ہے ۔ صرف مودی کے امیدوار بن جانے سے بی جے پی کا ''سیکولرازم‘‘ ختم نہیں ہوجاتا۔ گجرات کے نسل کش فسادت کے باوجود وہ این ڈی اے حکومت سے مضبوطی سے چپکے رہے ،یہاں تک کہ ریلوے وزیر ہونے کی حیثیت سے نتیش کمار نے گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس ٹرین میں آتشزدگی کے حادثہ کی محکمہ جاتی جانچ کا حکم نہیں دیا ، جسے عذر بناکر مودی نے گجرات کو ملک کے بدترین مسلم کش فسادات میں جھونک دیا تھا ۔ اس طرح انہوں نے اس وقت مودی کی مدد کی تھی۔ سوئم ، ان کروڑوں غریبوں اور بے بس عوام کو مودی کی آمد سے ڈرنا چاہیے ،جن کے ترقیاتی ماڈل میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، کیونکہ ان کا ماڈل صرف چند مخصوص اور ان کے پسندیدہ سرمایہ داروں اور کارپوریٹ گھرانوں کے لیے ہے ۔ غرض یہ کہ مسلمان بی جے پی یا مودی سے خوف زدہ نہیں ہیں ۔ ان کے نام پر مودی کا ہوّا کھڑا کیا جارہا ہے ۔ در اصل یہ سنگھ پریوار کی وسیع تر سیاسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی خوف کی نفسیات کا فائدہ اٹھا کر مودی کے ہندو انتہا پسند حلقہ اثر کو مستحکم اور مضبوط کرنا ہے ۔