گزشتہ ماہ شبانہ اعظمی چند روزکیلئے پاکستان تشریف لائیں تو انہوں نے ہمارے مختلف ٹی وی چینلز پر بھارت کی فراخ دلی اور سیکولر ازم کے ان گنت گیت گائے ۔جب وہ امن کی بھاشا کے گیت گا رہی تھیں تو ان کی آنکھیں اس بات کی چغلی کھا رہی تھیں کہ بھارت میں مذہبی آزادی کی جو کہانیاں وہ پاکستان کی سول سوسائٹی اور میڈیا کے سامنے ترنم سے گا رہی ہیں وہ سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں۔ایک ایسی ہی محفل میں جب میں نے انہیں ان کی زبانی کہی ہوئی کچھ باتیں یاد دلائیں تو وہ بے چارگی سے ادھر ادھر دیکھنے لگیں۔۔۔۔ 12ستمبر 2012 ء کی شام شبانہ اعظمی ایک بھارتی ٹی وی چینل پر میڈیا کے سامنے اس وقت پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں جب انہیں اور ان کے شوہر جاوید اختر جو بھارت کے مشہور ترین فلمی شاعر ہیں ،ممبئی کی پوش آبادی میں کسی ہائوسنگ سوسائٹی نے صرف اس لیے فلیٹ خریدنے یا کرایہ پر دینے کی اجازت نہیں دی کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔انہوں نے لاکھ کہا کہ ہم تو صرف نام کے مسلمان ہیں لیکن انہیں کہا گیا کہ چونکہ ان کے نام مسلمانوں جیسے ہیں اس لیے انہیں ان آبادیوں میں گھر حاصل کرنے کی اجازت نہیں۔اس ٹی وی انٹرویو کے بعد پورے بھارت کا انتہا پسند ہندو شبانہ اعظمی کے خلاف آگ اگلنا شروع ہو گیا اور تو اور ہالی وڈ سے متعلقہ شخصیات جن میں مشہورفلمساز اور ہدایت کار اشوک پنڈت اور ششی رانجن جیسے لوگ بھی شامل ہیں ،جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کے خلاف ابل پڑے ۔جواب میں شبانہ اعظمی نے بھارتی اخبارات کو اپنا دستخط شدہ آرٹیکل بھیجا جس کے آخر میں لکھا تھا '' میرا خیال تھا کہ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہی ہوا ہے لیکن یہ وبا تو پورے ہندوستان میں پھیلتی جا رہی ہے کہ نئی بننے والی کسی بھی آبادی میں مسلمانوں کو رہنے کیلئے کوئی جگہ نہیں دی جارہی اور میرے علا وہ سیف علی خان، زینت امان ، صوفی چوہدری اور عمران ہاشمی کو بھی اسی تعصب کا سامنا کرنا پڑا‘‘ ۔اگر شبانہ اعظمی ، جاوید اختر، سیف علی خان اور عمران ہاشمی جیسے لوگوں کو ممبئی کے پوش علا قوں میں گھر خریدنے کی اجازت نہیں تو ہندوستان بھر میں عام مسلمانوں کاکیا حال ہو گا؟۔۔شکر ہے کہ شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب انہیں پراپرٹی ڈیلروں کی طرف سے یہ انکار سننا پڑا کہ اس کالونی کے رہائشیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہاں کسی بھی مسلمان کو نہ تو کوئی گھر فروخت کیا جائے گا اور نہ ہی کرائے پر دیا جائے گا ۔خدا جانے ہمارے ترقی پسنددانشوروں کی آنکھیں کب کھلیں گی جو واہگہ بارڈر اور بھارت کے شہروں میں بھارتیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ناچتے اور گاتے ہیں؟1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز جب بر صغیر پر مکمل قابض ہو گئے تو پورے ہندوستان کے ہر بڑے صدر مقام پر انگریزی کلب بننے شروع ہو گئے اور ان کلبوں کے باہر بڑے بڑے بورڈ نصب کر دیئے گئے جہاں لکھا تھا کہ ''یہاںہندوستانیوں اور کتوں کا داخلہ منع ہے‘‘ اسی طرح اب ہندو آبادیوں میں کتے تو رہ سکتے ہیں لیکن مسلمان کو رہنے نہیں اجازت نہیں ہے ۔ بوہرہ فرقے کے علی اصغر زویری جو سکریپ میٹل ڈیلر ہیں ،نے بھون نگر سینی ٹوریم روڈ پر ایک بہت ہی پرانی حویلی نما کوٹھی خریدنے کے بعد جب اس کی مر مت اور رنگ و روغن کا ارادہ کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ساتھ کی کرشن نگر آبادی اور بھون نگر کے ہندوئوں نے کام کرنے والے مزدوروں کو مار پیٹ کر بھگا دیا۔ کئی دنوں سے اب اس پرانی حویلی کے سامنے بی جے پی، آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے کارکن پیتل کی تھالیاں اور گڑویاں لے کر بیٹھ گئے ہیں اور دن رات مختلف قسم کے ساز بجاتے رہتے ہیں ۔مودی کے نائب پراون گاڈیا نے چند دن ہوئے اس حویلی کے سامنے تقریر کرتے ہوئے ہندوئوں کو کہا کہ پتھر، ٹائر لے کر اس حویلی پر حملہ آور ہو جائو۔ کسی سے مت ڈرو اور کسی کو اندر مت گھسنے دو ۔ جب میڈیا کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہاں پر چار پولیس والے تعینات کر دیئے گئے لیکن یہ خبر میڈیا کے ذریعے عام ہونے پر ہندوئوں کا ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہو گیا اور اب زویری اور ان کی فیملی کو بحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا ہے لیکن بھون نگر کے لوگوں نے انہیں کہہ دیا ہے کہ مسلمان کو یہاں رہنے نہیں دیا جائے گا کیونکہ اگر ہم اپنا کوئی گھر کرائے پر یا بیچنا چاہیں تو جونہی کسی کو پتہ چلتا ہے کہ ادھر مسلم رہ رہا ہے تو ہماری جائداد کی قیمت گر جاتی ہے۔ 1947ء میں مسلمانوں نے ایک خونی جنگ لڑتے ہوئے انگریز اور ہندوئوں سے آزادی حاصل کی جس کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آ گیا ۔۔ بد قسمتی سے تحریک پاکستان کے دوران اور تکمیل پاکستان کے بعد آج تک ہزاروں کی تعداد میں ترقی پسند کہلانے والے دانشور، صحافی اور شاعر طعنے دیتے ہوئے وجود پاکستان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ہے تمہارا پاکستان جہاں کسی کو بولنے دیکھنے اور رہنے کی آزادی نہیں؟۔
لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ جھوٹ کا غبارہ ایک دن پھٹ کر رہتا ہے ۔وہی ہوا اور بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی اور ان کے شاعر شوہر جاوید اختر کو میڈیا کے سامنے روتے ہوئے بتانا پڑا کہ آزادی سے پہلے ہندوستان میں انگریزوں کے کلبوں میں ہندوستانیوں اور کتوں کا داخلہ منع تھا تو آج بھارت کے شہروں میں بننے والی جدید رہائشی کالونیوں میں مسلمانوں کا داخلہ منع ہے اور بھارت کے رجسٹرڈ رئیل اسٹیٹ کا کام کرنے والوں کو ہدایات ہیں کہ ان آبادیوں میں مسلمانوں کیلئے کوئی بھی گھر یا فلیٹ خریدنا یا کرایہ پر دینا منع ہے۔۔۔۔۔۔
احمد اور حلیمہ قاضی جو بھارت کی سیکولر اور جمہوریت کے گن گانے والوں میں سب سے پیش پیش رہتے تھے ،ممبئی کے وسطی علا قہ کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے ۔جب ان کے فیملی ممبران کی تعداد بڑھی تو انہوں نے ایک بڑا فلیٹ خریدنے کا سوچا۔وہ ممبئی کے گردو نواح میں کھلی جگہوں پر بننے والی بہت سی رہائشی سکیموں میں گئے لیکن انہیں ہر جگہ یہی جواب سننا پڑا کہ یہاں رہنے والے لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کے ہمسایہ میں کسی مسلمان کو گھر کرائے پر دینے یا بیچنے کی اجازت نہیں ؟بھارتی ٹی وی چینلز کا مشہور ایکٹر عامر علی جس کے متعلق پورا بھارت جانتا ہے کہ وہ صرف نام کا مسلمان ہے اور وہ حلال اور حرام میں بھی کوئی تمیز نہیں رکھتا،اسے جب پرانی آبادی کو چھوڑ کر نئی جگہ کرایہ پر گھر لینے کی ضرورت پڑی تواسے ہر جگہ صرف اس لیے مایوسی کا سامنا کرناپڑا کہ وہ مسلمان ہے ۔اس نے لاکھ کہا کہ وہ تو صرف نام کا مسلمان ہے تو اسے یہی کہا گیا کہ ہو تو مسلمان چاہے نام کے ہی مسلمان ہو؟ تنگ آکر عامر علی نے ممبئی ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر دی کہ رہائشی کالونیاں بنانے والوں کو حکم جاری کیا جائے کہ وہ مسلمانوں کو ممبئی میں گھر کرایہ پر لینے یا خریدنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں۔۔۔۔۔۔اس پر ممبئی ہائیکورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ کوآپریٹو سوسائٹی ایکٹ2002ء کے تحت رہائشی بلڈرز کو اختیار ہے کہ وہ جسے چاہیں گھر دیں ۔انہیں کسی مسلمان کو گھر بیچنے یا کرایہ پر دینے کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔۔وہ لوگ جو 66سالوں سے شور مچا رہے ہیں کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ،بھارت میں ہر طرف مذہبی آزادی ہے، انہیں کہیں کہ وہ پورا بھارت تو ایک طرف، صر ف ممبئی کے مشہور ٹی وی سٹار عامر علی، بھارت کی بالی وڈ کی مشہور اداکارہ شبانہ اعظمی اور ان کے شوہر جاوید اختر جیسے بھارتی مسلمانوں کی مثال سامنے رکھیں جنہیں کوئی بھی ہندو اپنے ساتھ والا گھر خریدنے اور کرائے پر دینے کی اجازت اس لیے نہیں دیتا کہ ان کے نام مسلمانوں جیسے ہیں...!