تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     07-05-2014

نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت

جی نہیں ، کاروبارِ حکومت اس طرح نہیں چلتا۔ جی نہیں ، ملک کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے ۔ دنگے فساد سے نہیں ، غور و فکر سے، مشاورت سے ''وامرھم شوریٰ بینھم‘‘۔ 
''راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتاہے‘‘ عارف نے کہا تھا۔ 
رہنمائی جنہیں درکار ہو ، وہ اہلِ علم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے ، جس نے کائنات ، آدمی اور حیات کو پیدا کیا۔ ہنگامی موضوعات نے کہ فساد ہر طرف برپا ہے ، اس اہم عنوان پر بات کرنے کا موقعہ نہ دیا کہ ریاست کس طرح استحکام پا سکتی ہے۔ مدّتوں پہلے آدمی نے یہ جان لیا تھا کہ ریاست کی اہمیت اور افادیت کیا ہے ۔ جہاں نہ سمجھا، اب بھی وہاں قبائلی نظام میں جکڑا ہے ۔ پسماندہ ہے اور پسماندہ رہے گا۔ 
قبائل ہیں اور باقی پاکستان بھی ایک نیم قبائلی سماج ہے ۔ تقریبا تمام تر بلوچستان ، دیہی سندھ ، سرائیکی پٹی ، پختون خوا کے اکثر علاقے ۔حتیٰ کہ کراچی اور لاہور ایسے شہروں میں لسانی بنیاد اور برادریوں کی بنا پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں ۔ کیا اکیسویں صدی میں یہ ایک شرمناک بات نہیں ؟ ایک تاریخی عمل میں قبائلی معاشرہ جدید سماج میں ڈھلتا ہے ۔ نو آزاد مملکت میں اس عمل کا ڈھنگ سے کبھی آغاز ہی نہ ہو سکا۔ 1951ء تک پختون خوا کے کچھ قبائلی علاقے شہری (Settled)بنانے کا عمل جاری رہا ۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد تاریخ کا پہیہ وہیں تھم گیا۔ سب جانتے ہیں کہ بالادستی دستور کی ہونی چاہیے۔ حال ہی میں جنرل راحیل شریف نے کہا اور میاں محمد نواز شریف نے با آوازبلند تائید کی۔ عملی طور پر مگر اس کا مفہوم کیا ہے۔ 
عمر فاروقِ اعظمؓ کے بارے میں کہا جا تاہے کہ وہ ایک مثبت خیال کو منصوبہ اور منصوبے کو ادارہ بنا دیتے ۔ ان کی شہادت پر جناب عبد اللہ بن مسعودؓ نے شاید اسی لیے کہا تھا : آج علم کے دس میں سے نو حصے اٹھ گئے ۔ امام غزالیؒ نے یہ جملہ نقل کیا ہے۔ ان کبار اہلِ علم میں سے ایک ، سب سے زیادہ زور جو اس نکتے پر دیتے رہے کہ زندگی میں سب سے اہم چیز حسنِ نیت ہے ۔ حسنِ نیت اگر نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔ تجزیہ ہی درست نہ ہوگا تو ترجیحات کیونکر؟ 
کیا ہمارے حکمران واقعی آرزومند ہیں کہ ملک کو مضبوط اور مستحکم کریں ؟ افتادگانِ خاک کے زخموں پہ مرہم رکھیں؟ اگر اقتدار کا انبساط ہی ان کی واحد ترجیح نہیں تو سامنے کے کچھ نکات ہیں ۔ امن و امان اوّلین شرط ہے ۔ملک کا ملک عدمِ تحفظ میںمبتلا ہے ، جس میں شخصیت انتشار کا شکار ہوتی اور انسانی صلاحیت کند ہو جاتی ہے ۔ جدید خطوط پر ایسی پولیس فورس استوار کیے بغیر، جس سے انصاف کی امید کی جا سکے ، امن اور استحکام کا حصول ممکن ہی نہیں ، دہشت گردی کا خاتمہ بھی ۔ جب تک ہر تھانہ اپنی حدود میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرے ۔ ایک ایک گھر پہ اس کی نظر نہ ہو‘ جرائم کا سدّباب ہی نہیں ، بلکہ انٹیلی جنس کا بھی وہ ذمہ نہ دار ہو‘ جب تک جرائم کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے پیش بندی نہ کر سکے‘ کامیابی ممکن نہیں۔ کیا مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے اس سمت میں کوئی مثبت قدم اٹھایا ہے؟ ایک حد تک اس سوال کا جواب اثبات میں ہے ۔ آئی جی کے لیے ڈاکٹر عبد المالک نے نیک شہرت کے افسروں میں سے ایک کا انتخاب کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اغوا برائے تاوان میں 80فیصد تک کمی آئی۔ یہ الگ بات کہ ان کا صوبہ دہشت گردی کی زد میں ہے۔ 
پختون خوا بھی‘ جہاں ناصر درّانی آئی جی بنائے گئے ۔ پارٹی لیڈروں کو کپتان نے کہا کہ پولیس میں وہ مداخلت نہ کریں۔ کچھ نہ کچھ بہتری یقینا آئی ہے ۔ سندھ میں وزیراعظم اور وزیرِ داخلہ کے ایما پر یہ فیصلہ ہوا کہ کراچی میں اعلیٰ پولیس افسروں کا تقرر آئی جی ایف سی ، چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے اتفاقِ رائے سے ہوگا۔ اس پر عمل ہوتا رہا ؛چنانچہ بھتّہ خوری بہت کم ہوگئی مگر وہ حسنِ نیت؟ فوج اور رینجرز کے حکّام پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور ایم کیو ایم سے نالاں ہیں۔ رینجرز کے ایک اعلیٰ افسر نے اس اخبار نویس سے یہ کہا : فساد پھیل گیا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے وزرا اپنی گاڑیوں میں اسلحہ اور مجرم لاد کر لے جائیں گے ۔ اس کا کہنا یہ بھی تھا کہ ایم کیو ایم کے جن کارکنوں کا قتل ہوا ، وہ پارٹی کی اندرونی چپقلش کا نتیجہ ہے ۔ فرض کیجیے ، یہ بدگمانی ہے ۔ فرض کیجیے ، یہ نادرست ہے ، تب بھی اس فضا میں امن کیسے قائم ہو ؟ 
باقی تین صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں صورتِ حال بہتر رہی مگر اب حال بدتر ہے ۔ شیخ رشید چیخ رہے ہیں کہ صوبے میں اغوا برائے تاوان کے 17000مقدمات ہیں ۔ سرکار دربار میں سے کوئی جواب نہیں دیتا۔ 
پولیس کبھی ٹھیک ہو سکتی ہی نہیں ، جب تک سیاسی رسوخ سے نجات نہ پائے۔ اس کا تمام تر دارومدار حکمرانوں پہ ہے ۔ اندرونِ سندھ پولیس افسروں کے تبادلے اس قدر سرعت سے ہوتے ہیں کہ خدا کی پناہ ۔ ڈاکٹر عبد المالک انکار کر دیتے ہیں اور عمران خان سنتے ہی نہیں ۔ پنجاب میں ہر چیز شاہی خاندان کے اختیار میں ہے۔ 2008ء میں ایک آئی جی کا تقرر اس طرح ہوا۔ وردی پہنے وہ رائے ونڈ حاضر ہوا اور اس نے یہ کہا : جب تک میں جیتا ہوں ، شریف خاندان کا وفادار رہوں گا۔ 
عدالتوں میں زیرِ سماعت تقریباً 70فیصد مقدمات کا تعلق پٹوار اور پولیس سے ہے۔ ہر تین ماہ بعد شہباز شریف اعلان کرتے ہیں کہ تھانہ کلچر بدل دیا جائے گا۔ ایک قدم بھی مگر اٹھاتے نہیں۔ جو لوگ ان سے اختلاف کی جسارت کرتے ہیں ، بھاڑے کے ٹٹو ان کی جان کو آتے ہیں ۔ تحریکِ انصاف نے پٹوار کا مسئلہ تقریباً مکمل طور پر حل کر دیا ہے ۔ دہشت گردی اگر نہ ہوتی تو شاید پولیس بھی کچھ سدھر جاتی۔ حالانکہ ٹیم ان کی ناقص اور ناتجربہ کار ہے۔ 
برصغیر کے لوگ بنیادی طور پر مقدمہ باز ہیں ۔پیچیدہ اور ناقص عدالتی نظام ،عادی مقدمہ بازوں کی حوصلہ شکنی بالکل نہیں کرتا۔ تیزی سے مقدمات نمٹانے کا منصوبہ کبھی بنایا ہی نہ گیا۔ یہ کیوں ممکن نہیں کہ منصوبہ بندی کے بعد پنچایتی نظام پورے ملک میں نافذ کر دیا جائے ۔ ہر یونین کونسل کی سطح پر ایک مجسٹریٹ مقرر ہو ، زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے اندر فیصلہ کرنا جس پر لازم ہو۔ اگر ایسا ہو سکے تو آدھے مقدمات وہیں طے ہو جائیں۔ 
ٹیکس وصولی پہ کاروبارِ حکومت کا انحصار ہے۔ نتیجہ ہے کہ زرداری عہد میں قومی قرض 6ہزار ارب روپے سے بڑھ کر چودہ ہزار تک جا پہنچا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ شریف حکومت 9ماہ میں تقریباً گیارہ سو ارب روپے کے قرضے لے چکی اور اگلے پانچ برس کے دوران عالمی بینک مزید گیارہ سو ارب دے گا۔ وفاقی بجٹ کا ایک تہائی قرضوں اور سود لوٹانے پر صرف ہوتاہے ۔ چالیس لاکھ شہری ہیں ، جن کے بچے مہنگے سکولوں میں پڑھتے اور جو قیمتی گھروں میں رہتے ہیں ۔ ان کی بیگمات زیوروں سے لدی رہتی ہیں ۔ تفریح کے لیے وہ بیرونِ ملک جاتے ہیں مگر ٹیکس ادا نہیں کرتے ۔ امسال ان میں سے ایک ہزار سے ٹیکس وصول کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ 
سول سروس ؟ قانون کے دائرۂ کار میں کام کرنے کی آزادی اسے میّسر نہیں ۔ حکمرانوں کے اشارہ ٔآبرو کو وہ دیکھتے رہتے ہیں۔ جو جرّی ہیں ،گاہے وہ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں ۔ عدالت مگرکس کس چیز کا بوجھ اٹھائے ؟ پسندیدہ جونیئر افسر اہم مناصب پر براجمان اور ناپسندیدہ سینئر خوار و زبوں۔ ایوانِ وزیراعظم میں ایک افسر کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ فلاں میڈیا گروپ کے سربراہ کی فرمائشیں پوری کیا کرے ۔ 
ریاست اپنے اداروں کے بل پر بروئے کار آتی ہے ۔ انتظامیہ ، پارلیمان ، عدلیہ اور میڈیا۔ سب کے سب اپنی حدود میں۔ کوئی نہیں ہے ۔ اوّل حکومت ہی غالب رہا کرتی مگر قانون نہیں ، قوت کے بل پر۔ بیچ میںفوج کود پڑتی ہے ۔ حل ہونے کی بجائے مسائل اس طرح اور الجھ جاتے ہیں ۔ کبھی عدالت اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے اور کبھی ذرائع ابلاغ ۔ 
جی نہیں ، کاروبارِ حکومت اس طرح نہیں چلتا۔ جی نہیں ، ملک کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے ۔ دنگے فساد سے نہیں ، غور و فکر سے، مشاورت سے ''وامرھم شوریٰ بینھم‘‘۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved