جب سے پاکستانیوں پر یہ پابندی لگی ہے کہ وہ اب پولیو کے قطرے پی کر ہی سفر کر سکتے ہیں‘ سوچ رہا ہوں کہ اس کے بعد اب باقی کیا رہ گیا ہے؟ جب بھی ہمارے سر پر کوئی نیا بم گرتا ہے تو ہر دفعہ ہم سمجھتے ہیں اس سے زیادہ اور کیا برا ہوگا ؟ پتہ چلتا ہے ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ مزید تباہی باقی ہے۔ پابندی سے ایک دن پہلے عالمی رینکنگ میں یہ انکشاف کیا گیا۔ پاکستانی پاسپورٹ کی ساکھ کا نمبر اب وہی ہوگیا ہے جو صومالیہ کا ہے۔ یوں تنزلی کا عمل جاری ہے اور لگتا ہے جاری رہے گا۔ ایک نیوکلیئر ریاست صومالیہ کے برابر جا پہنچی۔ یقینا بنگالیوں کو آج مزید تسلی ہوئی ہوگی کہ ان کے پاسپورٹ کی دنیا بھر میں ساکھ پاکستان سے زیادہ ہے۔ بھارتیوں کی بات رہنے دیتے ہیں کیونکہ اس کا حوالہ دینے سے ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے وگرنہ وہ بھی ہم سے کئی قدم آگے نکل گئے ہیں۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی کا ملک پولیو فری ہوگیا ہے جب کہ بیس کروڑ کی آبادی کے ملک پر پولیو وائرس کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے سفری پابندیاں لگ چکی ہیں۔ مہذب دنیا نے ایک طرح سے ہمیں اپنے آپ سے علیحدہ کر دیا ہے۔ انہوں نے پیغام بھیج دیا کہ آپ لوگ اس قابل نہیں رہ گئے کہ ہمارے ہاں آئیں ۔ پہلے ہمارے پاسپورٹ کی ساکھ ختم ہوئی اور پھر اب ہم خود اپنی ہی ساکھ کھو بیٹھے ہیں کہ جو بھی کسی پاکستانی کو دیکھے گا وہ دور بھاگے گا کہ اس کے اندر پولیو کا وائرس ہے۔ جب سے یہ پابندی لگی ہے میں باہر نکلنے سے ڈرنے لگا ہوں کہ کہیں لوگ مجھ سے خوفزدہ نہ ہوں کہ وہ دیکھو وائرس جارہا ہے ۔ ہو سکتا ہے ابھی یہ خبر دنیا میں پھیلنے میں کچھ دن لگیں۔ آپ دیکھیں گے کہ پہلے ہم پاکستانیوں کو دہشت گردی کی وجہ سے جانا جاتا تھا‘ اب پولیو وائرس سے جانا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ ملک اس حالت تک کیسے پہنچا ہے؟
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق 47 ہزار کے قریب والدین نے پولیو ٹیموں کو‘ اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کردیا اور ریاست اور اس کے اداروں نے والدین کے اس فیصلے کو مان لیا کہ ٹھیک ہے نہیں پلانا تو نہ پلائو‘ ہمیں کیا۔ بھلا ان والدین کو کیسے یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو معذور اور ہمیں دنیا میں اچھوت بنا دیں پھر بھی انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا؟ کیا یہ کام ریاست اور اس کے اداروں کا نہیں کہ جو والدین اپنے بچوں کو معذور بنا کر ایک بوجھ بنانا چاہتے ہیں‘ ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں اور ان کے بچوںکو اپنی تحویل میں لے کر انہیں قطرے پلائے جائیں۔ کیا کسی کو اس لیے خودکشی کی اجازت دے دینی چاہیے کہ وہ مرنا چاہتا ہے تو مر جائے؟ اسلام میں خودکشی حرام اور قابل گرفت جرم ہے‘ تو جو اپنے بچوں کو عمر بھر کے لیے معذور کرنا چاہتے ہیں کیا وہ خودکشی سے کم جرم ہے؟ انہیں کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ انہی والدین کی وجہ سے آج سفر پر پابندیاں لگ گئی ہیں لیکن انہیں کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہے۔ پولیو ورکرز ان کے گھر سے لوٹ گئے اور سب چپ رہے ہیں ۔ ہم کیسے شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر زندہ رہ رہے ہیں کہ ہزاروں والدین نے اپنے بچوں کو قطرے نہیں پلائے اور ہمارے نزدیک یہ کوئی بات ہی نہیں ہے۔ دوسری طرف جو ہمارے پولیو ورکرز کو قتل کررہے تھے‘ ان کے حق میں اخبارات میں لکھنے اور ٹی وی پر گن گانے کو بھی ریاست نے آزادی دے رکھی ہے اور عوام کی بڑی تعداد بھی ان کی شیدائی ہے۔ سبحان اللہ! کیا بے حس ریاست، ظالم حکمران اور سمجھدار قوم ہے؟ جنرل ضیاء نے جو زہریلے بیج بوئے تھے وہ آج پودے بن گئے ہیں ۔ جنرل ضیاء کے کہنے پر اپنی سرحدیں ہم نے افغانوں کے لیے کھول دیں ۔ انہیں اپنے ملک میں جائیدادیں خریدنے کی اجازت ملی۔ انہیں شناختی کارڈ ملے اور ہر دوسرے افغان نے پاکستانی پاسپورٹ بنوا لیا۔ ہم سب کچھ بیچنے کو تیار ہیں ۔ بس نوٹ دکھائو اور ہمارا موڈ بنائو۔ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا کہ نوے ہزار افغانیوںکو پاسپورٹ بنا کر دیئے گئے۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہو گیا بلکہ سابق دور میں دو ہزار سرکاری اور سفارتی پاسپورٹس ان کاروباری لوگوں کو جاری کر دیئے گئے جن کا دور دور تک حکومت سے تعلق نہیں تھا۔ دنیا کے 32 ممالک ایسے ہیں جہاں اگر آپ سرکاری پاسپورٹ پر جائیں تو ویزہ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کویت پہلا ملک تھا جس نے پاکستانیوں کو سرکاری پاسپورٹ پر اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا۔ اس سے بڑی ذلت کیا ہوگی۔ بیوروکریسی اور حکمران پھر بھی نہ سیکھے۔
کوئٹہ میں پنجابیوں اور سرائیکیوں کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی جائیدادیں بیچ کر نکل جائیں۔ اب ان سرائیکیوں اور پنجابیوں کی تمام جائیدادیں افغانوں نے خرید لی ہیں۔ اب پتہ چلا ہے کہ سرائیکی علاقوں میں افغان گھس گئے ہیں اور جائیدادیں خریدنے لگے ہیں۔ جن سرکاری افسران اور ملازمین نے افغانوںسے پیسے لے کر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کیے تھے، ان کی مہربانی سے آج پورا ملک افغانوں کی گرفت میں آگیا ہے۔ تباہی تب شروع ہوگی جب افغان اپنا اصل رنگ دکھائیں گے۔
ہم نماز روزے بھی پورے رکھتے ہیں اور بے ایمانی بھی دل کھول کر کرتے ہیں۔ ہر سال دو لاکھ لوگ حج اور لاکھوں عمرہ کرتے ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اسلام سے ہمارا کوئی تعلق ہے جس کے پیغمبر رحمت اللعالمینؐ ہیں۔ ہم دن رات ایک دوسرے کے ساتھ ناانصافیاں کرتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں۔ ہمیں کچھ اندازہ ہے کہ ہم نے اسلام کا حشر کیا کر دیا ہے؟
یہ پاکستان کی کہانی ہے۔ اب ذرا نائیجیریا کی داستان بھی سن لیں۔ ایک مسلم گروپ نے لڑکیوں کے سکول کے ہوسٹل پر حملہ کیا، دو سو مسلمان سوئی ہوئی لڑکیوں کو جگا کر‘ گاڑیوں میں ڈالا اور لے گئے۔ اب وہ انہیں بیچ دیں گے۔ ان لڑکیوںکا قصور یہ ہے کہ وہ تعلیم حاصل کررہی تھیں جب کہ یہ مسلم گروپ کہہ رہا تھا کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اسلام میں ان کی تعلیم کی اجازت نہیں۔ ان کا کہنا تھا وہ شادی کریں اور گھر بیٹھیں ۔ ہمارے ہاں طالبان نے لڑکیوں کے سکولوں کو بموں سے اڑا دیا اور نائیجیریا میں مسلم گروہوں نے لڑکیوں کو اغوا کر لیا جنہیں اب وہ لونڈیاں بنا کر بیچیں گے ۔ اس کے بعد دنیا مسلمانوں کے بارے میں کیا رائے دے گی؟
حضور پاکؐ کے دور میں جنگوں میں غیرمسلم قیدی پکڑے گئے تو اس شرط پر رہائی کی پیشکش کی گئی کہ وہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ ذہن میں رکھیں جو قیدی تھے وہ مسلمان نہیں تھے لیکن پھر بھی انہیں مسلمانوںکو پڑھانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ ہمارے رسول پاکؐ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی ہستی حضرت خدیجہؓ تھیں۔ آج انہی مسلمان بچیوں کو مسلمانوں نے ہی اغواء کر کے لونڈیاں بنا کر بیچنے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ کیوں سکول جاتی ہیں ۔
پس تحریر : جن رحم دل انسانوں نے میرے کالم کے بعد بندو خان کے بے بس خاندان کی مدد کی یا مدد کی پیشکش کی، ان کے لیے میرے پاس شکریہ کے الفاظ تو نہیں البتہ قرآن پاک کی سورہ رحمن میں خدا کا اپنی مخلوق کے ساتھ چودہ سو برس پہلے کیا گیا یہ وعدہ ان کے لیے دہرا دیتا ہوں۔ بھلا احسان (نیکی) کا بدلہ بجز اللہ تعالیٰ کی مہربانی کے اور بھی کچھ ہو سکتاہے؟(60:55)
"The reward of goodness will be nothing except goodness".