تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-05-2014

عوام انقلاب چاہتے ہیں؟

ہمارا خیال تھا کہ پاکستان میں پانچواں موسم سیلاب کا ہے مگر اب اپنی خام خیالی پر ہنسی آتی ہے۔ پانچواں اور سب سے مستحکم و پائیدار موسم سیلاب نہیں، احتجاج کا ہے۔ اِدھر حکومت بنی اور اُدھر احتجاج شروع۔ 
عمران خان نے طرح کا مصرع دیا تو ڈاکٹر طاہرالقادری نے اُس پر آمَنّا و صدقنا کہتے ہوئے گرہ لگائی۔ یوں جمہوری سیاست کے احتجاجی مشاعرے کی تیاریاں زور پکڑ گئیں۔ طاہرالقادری کو داد دینا پڑے گی کہ کینیڈا کے یخ بستہ ماحول میں رہ کر بھی اُن کے جذبے سَرد نہیں پڑے۔ وہاں کی پُرسکون زندگی میں چونکہ احتجاج وغیرہ کی گنجائش ہی نہیں اِس لیے وطن واپس آنا پڑتا ہے۔ وطن اور اہلِ وطن کی فراخ دِلی دیکھیے کہ جب بھی وہ آتے ہیں، دیدہ و دِل فرشِ راہ ہوئے جاتے ہیں۔ 11 مئی سے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوا چاہتی ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری نے لنگوٹیں کَس لی ہیں۔ عمران خان ایک سال سے انتخابی دھاندلیوں کا رونا رو رہے ہیں۔ طاہرالقادری نے گزشتہ برس کے عام انتخابات کا یہ کہتے ہوئے بائیکاٹ کردیا تھا کہ اِس کے بطن سے دھاندلی ہی ہویدا ہوگی۔ اور اُن کی بات بہت حد تک درست بھی ثابت ہوئی۔ 11 مئی 2013 کے انتخابات نے صوبائیت کا کھونٹا مزید مضبوط کردیا۔ 
تازہ ترین عام انتخابات کو یاروں نے جمہوریت کے یومِ وفات میں تبدیل کرنے کا پختہ ارادہ کر رکھا ہے۔ یہ بھی عجیب تماشا ہے۔ خدا خدا کرکے جمہوریت کی ٹرین پٹری پر آئی ہے مگر اُسے پھر ڈی ریل کرنے کی تیاریاں ہیں۔ ایک ہی برس میں سب کچھ تبدیل ہوتا ہوا دیکھنے کے خواہش مند نِری سادگی یا حماقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اداروں میں تصادم اب کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔ میڈیا نے سب کچھ طشت از بام کردیا ہے اور خود بھی متحارب ادارے کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ قوم حواس باختہ ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل نہ صرف یہ کہ حل نہیں ہوئے ہیں بلکہ مزید شِدّت اختیار کرگئے ہیں۔ 
جو کچھ اہلِ سیاست کر رہے ہیں اُسے دیکھ کر اہلِ وطن حیران کم ہیں اور پریشان زیادہ۔ جن کے ہاتھوں میں اختیار ہے اُنہوں نے ملک کے وسائل کو آپس میں تقسیم کرلیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے حال ہی میں ایک سمری کی منظوری دی ہے جس کے تحت جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کا جام نوش کرنے والے پولیس اہلکاروں کے ورثاء کو ایک کروڑ روپے ملا کریں گے۔ اچھی بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ عوام کو کیا ملے گا؟ جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کا پہلا نشانہ تو عوام ہیں۔ جب کوئی عام آدمی مرتا ہے تو حکومت ورثاء کے لیے 2 سے 5 لاکھ روپے تک کا اعلان کرتی ہے۔ یہ عوام کے لیے واضح پیغام ہے کہ اُن کی جان کی اوقات اِتنی ہی ہے۔ یہ پیغام دینے کا موسم ہے۔ وزیر اعظم فوج کو پیغام دے رہے ہیں، فوج میڈیا کو پیغام دے رہی ہے، میڈیا حکمرانوں کو پیغام دے رہا ہے، حکمران اپوزیشن کو پیغام دے رہے ہیں۔ اور عوام کے لیے پیغام یہ ہے کہ اُن کے حالات بدلنے کی فکر میں کوئی بھی غلطاں نہیں۔ 
ملک چُوں چُوں کا مُربّہ ہوکر رہ گیا ہے۔ قومی مفادات کے نام پر اداروں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ عوام کا چونکہ کوئی ادارہ نہیں اِس لیے وہ سیاسی یتیم سے زیادہ کچھ نہیں۔ کوئی اُن کا پُرسانِ حال نہیں۔ عوام کے لیے تو کوئی میدان میں نہیں آتا؟ عوام کے مفاد میں کسی جماعت یا ادارے کا ''مفاد‘‘ مضمر ہو تو ضرور میدان میں آنے کی زحمت گوارا کرے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں کہیں سے کہیں جا پہنچی ہیں، کسی سیاسی جماعت نے سڑکوں پر آکر فیصلہ کن اور نتیجہ خیز احتجاج نہیں کیا۔ قومی سلامتی کے لیے میدان میں آنا اچھی بات ہے مگر یہ راگ اُسی وقت الاپا جاسکتا ہے جب قوم مہنگائی کے ہاتھوں ذبح ہونے سے محفوظ رہے! 
جمہوریت کی گاڑی ہزار کوشش اور دعاؤں سے دوبارہ درست ڈگر پر آئی ہے۔ صرف ایک سال میں اُسے بے راہ کرنے کی کوشش کیوں؟ جو بگاڑ عشروں کی پیداوار ہے وہ ایک پانچ سالہ مدت میں کیسے دور ہوسکتا ہے؟ اور وہ بھی نیم دِلانہ کوششوں سے؟ تمام اہم ادارے بے لگامی کی حالت میں ہیں۔ سب کو اپنے اپنے stakes کی پڑی ہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز نے قومی وسائل کی بندر بانٹ کے ذریعے خود کوسٹاک ہولڈرز میں تبدیل کرلیا ہے! ہر طرف یہی شور ہے کہ اداروں میں تصادم نہیں ہونا چاہیے۔ کیا یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ادارے آپس میں نہ لڑیں، مل جل کر عوام کو بھنبھوڑیں؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ انفرادی مفادات نے تمام اہم اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہے۔ کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ہر ادارے نے طے کرلیا ہے کہ قومی وسائل کا ایک مخصوص حصہ اُسے ملنا ہی چاہیے۔ عوام کا کیا ہے؟ وہ تو روتے آئے ہیں، روتے رہیں گے۔
احتجاج کا میلہ لگ رہا ہے۔ ایک بار پھر مداری میدان میں ہوں گے اور لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈالیں گے۔ طاہرالقادری کے لیے ایک بار پھر سُنہرا موقع ہے۔ اب اللہ ہی جانے کہ یہ موقع پیدا ہوا ہے یا پیدا کیا گیا ہے۔ طاہرالقادری بھرپور موڈ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ انقلاب سے کم کوئی بھی بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ڈیڑھ سال قبل بھی وہ ایسے ہی بھرپور موڈ میں دکھائی دیئے تھے۔ اِس مرتبہ ایجنڈا کیا ہے؟ انقلاب؟ 
اگر واقعی انقلاب لانے کی تیاری ہے تو کون سا انقلاب؟ 
کسی کی مرضی کا ‘کس کی ضرورت کو پورا کرنے والا انقلاب؟ 
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انقلاب کس کے لیے؟ عوام کے لیے؟ چلیے، مان لیتے ہیں کہ طاہرالقادری عوام کی مرضی کا انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ مگر پہلے عوام سے پوچھ لیجیے۔ اُنہیں انقلاب کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟ 
کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملہ پھر وہی ہو یعنی کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے! ڈیڑھ سال پہلے بھی تو انقلاب لانے کے دعوے کئے گئے تھے، نظام کو بدلنے بلکہ پلٹ دینے کی باتیں ہوئی تھیں۔ مگر پھر کیا ہوا؟ ٹائیں ٹائیں فِش! یعنی وہی ہوا جو ہونا تھا۔ 
لوگ بُنیادی اشیاء و خدمات کے حصول سے بڑھ کر کچھ نہیں چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انقلاب کے نام پر اُن کے جذبات سے کِھلواڑ بند کی جائے، جمہوریت کو جیسے تیسے چلنے دیا جائے۔ بقول عدیمؔ ہاشمی 
ساتھ دینا ہے تو دے، چھوڑ کے جانا ہے تو جا 
تو اضافہ تو نہ کر میری پریشانی میں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved