بھارتی فلمی صنعت کے معروف میوزک ڈائریکٹر نوشاد جن کو موسیقار اعظم بھی کہا جاتا ہے ،بہت متحمل مزاج تھے ۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے انتہائی کامیاب اور اہم فلموں کے ہدایتکار محبوب خاں سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ نوشاد کا کہنا تھا کہ وہ محبوب خاں کی فلم کے لیے ایک گیت کی ریکارڈنگ سے پہلے ریہرسل میں مصروف تھے کہ وہاں محبوب خاں تشریف لائے اور انہوں نے ریہرسل میں آہستہ آہستہ دخل دینا شروع کردیا۔ ایک روز تو نوشاد نے یہ سوچ کربرداشت کرلیا کہ شاید آئندہ ایسا نہ ہو تا،تاہم پھر سے جب ایسا ہوا تو نوشاد نے محبوب خاں سے تو کچھ نہ کہا مگر اگلے روز فلم کی شوٹنگ پر پہنچ گئے۔ جب محبوب خاں فلم بندی میں مصروف ہوئے تو نوشاد آگے بڑھے اور انہوں نے فلم بندی کے عمل میں مداخلت کرتے ہوئے خود ہی الٹی سیدھی ہدایات دینا شروع کردیں۔اس طرح فلم کے ہدایتکار محبوب خاں کو پیغام دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ محبوب خاں نے آئندہ کبھی نوشاد کے کام میں مداخلت نہ کی۔
کہنے کو یہ عام سا واقعہ ہے ،تاہم اگر ہم اس کو پھیلا کر دیکھیں تو یہ بات سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ اداروں کے احترام سے کیا مراد ہوتی ہے۔ ہر ادارے کے اپنے فرائض کی نوعیت کے حوالے سے اسے ایک طرح کی خود مختاری حاصل ہوتی ہے جس میں کسی دوسرے کو ، بھلے وہ کتنا بڑا اور اہم ہو ، مداخلت کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی ادارہ اپنی خود مختاری میں مداخلت کی اجازت دے دے تو وہ انتہائی کمزور ہوجاتا ہے اور اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے۔
اس ضمن میں پاکستان میں عدلیہ کے ادارے کی تاریخ بتاتی ہے کہ کم از کم سابق چیف جسٹس منیر کے زمانے میں اس ادارے نے اپنی خود مختاری کی حفاظت نہ کی اور اس ادارے کی کمزوری سے فوجی حکومتوں نے فائدہ اٹھایا۔تاہم ایک فوجی حکومت کے دور ہی میں جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے عدلیہ کی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا تو جنرل مشرف جیسے مضبوط حکمران کے لیے عدلیہ کو دبانا ممکن نہ رہا، حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ یہی افتخار محمد چودھری جج کی حیثیت سے جنرل مشرف کے مارشل لاء کو جائز قرار دے چکے تھے۔اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر اب آپ ملک میں مسلح افواج کے ادارے کی تاریخ دیکھیں۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس ادارے نے شروع ہی سے اپنی خود مختاری کی حفاظت کی ہے۔ ملک میں فوج کی طرف سے مارشل لاء نافذ کیے جانے کی بحث میرا موضوع نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اگرچہ فوجی حکومتوں کے ادوار پر کھل کرتنقید کی جاتی ہے لیکن آج تک اس بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی کہ فوجی حکومتوں کے ان ادوار کی جگہ اگر سول حکومتیں ہوتیں تو صورتحال کتنی مختلف ہوتی۔ لہٰذا یہ بحث الگ رکھیں اور فوج نے بحیثیت ادارہ جو اپنی شناخت اور ساکھ بنائی ،اس کو پیش نظر رکھیں۔
میری نظر میں فوج کو سب سے بڑا امتحان اس کے اپنے ہی کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں پیش آیا۔ 71ء میں ملک دولخت ہوا تو مگر فوج بھی دل شکستہ ہوگئی ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مغربی پاکستان کے مفتوحہ علاقے بھارت نے واپس کیے ،جنگی قیدی واپس آئے اور پھر اس ادارے نے چند برسوں میں ہی اپنے آپ کو سنبھال لیا اور ایک طاقتور ادارے کے طور پر 1977ء میں مارشل لاء نافذ کردیا۔یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر 1977ء میں عدلیہ کے ادارے نے اپنی خود مختاری قائم کرلی ہوتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ ضیاالحق اقتدار پر بآسانی قبضہ کرلیتے؟ بہرحال موضوع کی طرف واپس آتے ہیں اور یہ جائزہ لیتے ہیں کہ فوج کے ادارے کو ضیا الحق کے دور میں جہاد افغانستان کے حوالے سے جو چیلنج درپیش رہا ،اس سے یہ ادارہ کیسے نبرد آزما ہوا۔ ضیا الحق کی تو کوشش تھی کہ پاکستان میں فوج کا ادارہ کٹر مذہبی رجحان رکھنے والا ادارہ بن جائے مگریہ ادارے کی اندرونی مضبوطی تھی کہ یہ کافی حد تک اعتدال پر قائم رہا اور ضیا حکومت کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی میں واپس اپنے اصل حال میں آگیا ،جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ جنرل مشرف جیسا آزاد خیال شخص اس کا سربراہ بن گیا۔
میاں نوازشریف کی قیادت میں ہماری آج کی حکومت کے بارے میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شاید فوج کے ادارے کی اندرونی مضبوطی کو پھر ایک امتحان سے گزرنا پڑے۔ اگر ایسا ہوا تو بدقسمتی کی بات ہوگی۔وہ بھی ایک فوجی حکومت کے دور میں ہی سیاست میں لائے گئے تھے۔ فوج کے ادارے کی اندرونی مضبوطی سے ان کو پوری طرح واقف ہونا چاہیے اور آج کل تو عدلیہ جس طرح ایک مضبوط ادارے کے طور پر کھڑی ہے اس کا بھی حکومت وقت کو مکمل احساس ہونا چاہیے۔ آج ادارے اپنے وقار کے تحفظ کی بات کرتے ہیں تو حکومت کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ ایسی بات کرنے کی نوبت کیوں آئی ۔ لندن میں میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ سب کو مل کرچلنا چاہیے، اسی طرح ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور یہ کہ کوئی ایک ادارہ تمام مسائل حل نہیں کرسکتا۔ اپنے اسی قول پر عمل کرتے ہوئے وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ سب اداروں کی اندرونی خود مختاری کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے باہمی احترام کی ایسی فضا قائم کریں کہ کسی ادارے کو اپنے وقار کے تحفظ کی بات نہ کہنی پڑے۔
اگر حکومت یہ سوچے کہ دیگر سب ادارے اس کے ماتحت ہیں اور ان پر حکومت کا دبائو رہنا چاہیے تو پھر اس سوچ کا ردعمل ہوسکتا ہے ۔ اگر حکومت ججوں کی تعیناتی کا اختیار رکھتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ عدلیہ کا ادارہ خود مختار نہیں ہے۔ اسی طرح اگر حکومت چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کا اختیار رکھتی ہے تو اس سے کسی طور پر بھی مسلح افواج کے ادارے کی خود مختاری کم نہیں ہوتی۔
میں نے شروع میں بھارتی ہدایتکار محبوب خاں اور موسیقار نوشاد کے باہمی تعلق کی مثال دی ہے جس میں محبوب خاں نے خود ہی نوشاد کو اپنی فلم کی موسیقی دینے پر مامور کیا مگر بعدازاں نوشاد کے کام میں مداخلت کرکے غلطی کے مرتکب ہونے اور پھر عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نوشاد کی موسیقی کے میدان میں خود مختاری کو دل سے تسلیم بھی کرلیا۔ہمارے ہاں حکومتیں اداروں کو دبائو میں رکھنے کی کوشش کرتی ہیں تو پھر اس دبائو کا ردعمل بھی ہوتا ہے۔ اگر حکومتیں یہ پالیسی ترک کردیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں اداروں کی خود مختاری کا خلوص دل سے احترام کریں تو پھر ردعمل کا سوال ہی پیدا نہیںہوگا۔