تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     08-05-2014

18کروڑ عوام‘ ایک مہینہ نظربند؟

پاکستانیوں پر بیرونی سفر کی پابندی لگنے کے بعد‘ ہر دردمند اور ضرورت مند پاکستانی پریشان ہوا۔ خصوصاً جو لاکھوں پاکستانی بیرون ملک رہتے ہیں‘ وطن سے رشتہ نہیں توڑتے۔ بیرون ملک مقیم ہر فرد جو وہاں جا کرگھر بنا یا بسا بیٹھا ہے‘ آباد ہوتے ہی اس کی پہلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ گھر سے اپنے پیاروں کو بلا کراپنی‘ کامیابی کے مناظر دکھا دے۔ خاندان میں ہر کسی کی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ کس کو زیادہ پیار کرتا ہے؟ عمومی مشاہدہ ہے کہ سب سے پہلے ماں یاد آتی ہے اور اللہ مزید توفیق دے‘ توباپ کا نمبر آتا ہے۔ سال بہ سال جو کچھ جمع ہوتا رہتا ہے‘ ساتھ ساتھ بھائیوں‘ بہنوں اور دوستوں کا نمبر آنے لگتا ہے۔ محبت کے یہ رشتے‘ دوریوں کو سمیٹنے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ بھولے بھالے محنت کش اور بھوک کے دھکے دے کر نکالے گئے‘ پاکستانی اچھی زندگی میں داخل ہوتے ہی‘ اپنی ساری تکلیفیں بھول جاتے ہیں۔ انہیں وہ سپاہی بھول جاتا ہے جس نے اسے موٹرسائیکل پر دیکھ کر ''ضابطے‘‘ کے مطابق روکا۔ پوچھ گچھ کی رسم پوری کی اور بے تابی سے پوچھا ''تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘ اسے اپنی جیب خالی ہونے کا جو دکھ ہوا‘ وہ اسے بھول جاتا ہے۔ نوکری پر حاضر ہونے کے لئے‘ جب وہ پی آئی اے‘ سکیورٹی‘ کسٹمز‘ ایف آئی اے اور نہ جانے کیسی کیسی بلائوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتا اور انہیں ماں کے جوڑے ہوئے پیسوں میں سے تھوڑی تھوڑی رقم دیتا ‘ جہاز میں سوار ہوتا ہے۔ اس کے دل میں غم و غصے کا جو لاوا پکتا ہے‘ وہ اسے بھی بھول جاتا ہے۔ سکھ کے چار دن گزرتے ہی‘ وہ اپنی تمام کیفیات نظرانداز کر دیتا ہے‘ جن کی وجہ سے اسے وطن چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایسے معصوم محنت کشوں پر اب کیا گزرے گی؟ ہر کسی کو اپنی ماں‘ باپ‘ بھائی یا دوست کو بلانے کے لئے‘ اخراجات کے علاوہ اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ وقت بھی نکالنا پڑتا ہے‘ جس میں وہ اپنے مہمانوں کی دیکھ بھال اور خدمت کر سکے۔ اسے عزت کا خیال ہوتا ہے کہ میرے پیارے یہاں سے واپس جا کر میری کوئی شکایت نہ کر سکیں۔ تصور کیجئے کہ سال بھر سے تیاری کر کے بیٹھے ہوئے‘ ایک محنت کش نے اپنی ماں یا کسی عزیز رشتے دار کو بلانے کا انتظام کر لیا۔ چھٹی منظور کرا لی۔ ٹکٹ بھجوا دیا اور اس نے جس کو بلایا ہے‘ اسے پولیو کے قطرے پینے کے 4ہفتے بعد تک بیرونی سفر کا انتظار کرنا پڑے گا۔ کیا ہو گی‘ اس خاندان کی کیفیت؟ مدعو کرنے والے شخص کی چھٹی گزر جائے گی۔ اس کے بعد وہ سال بھر کے لئے مزید چھٹی سے محروم ہو جائے گا یا نوکری چھوڑے گا۔ جس خاندان پر یہ گزرے گی‘ اس نے گناہ کیا کیا ہے؟ ہر قانون کی پابندی کی۔ پاکستان کی بے رحم بیورو کریسی بلکہ کرپٹوکریسی کا ہر ظلم برداشت کیا ۔ مشکل سے منزل پر جا کر‘ محنت مزدوری شروع کی۔ اس بیچارے کا خواب صرف اتنا ہوتا ہے کہ چار پیسے کمانے کے بعد‘ پہلے ماںپھر بہنوں‘ پھر بھائیوں اور دوستوں کو اپنی کامیابی کے ثمرات دکھائے۔ میزبانی کر کے خوش ہو۔ اسے تجسس رہے کہ یہ واپس جا کرمیری زندگی کے بارے میں کیا بتائیں گے؟ اس کے یہ سارے خواب کس نے چھینے؟ اس کا کوئی جرم؟ کوئی گناہ؟ کوئی غلطی؟ کوئی لاقانونیت؟ اس کی معصوم سی خوشیاں چھیننے کا جواز فراہم نہیں کرتیں۔ کیونکہ اس نے دیانتداری کی قیمت ادا کرتے ہوئے ‘تھوڑی سی خوشی حاصل کرنے کا انتظام کیا تھا۔ مگر پولیو کے قطرے؟
میری اور آپ کی زندگی میں تو پولیو کے یہ قطرے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ جو خاندان بھی بروقت اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا دیتا ہے‘ اس کے لئے بھی کوئی مشکل نہیں۔ تو پھر پورا ملک کس کی وجہ سے‘ دنیا بھر کا مجرم بن کر‘ پابندیوں کی سزا کا مستحق ٹھہرا؟ کیا حکومت کو مفت میں پولیو کی ویکسین سے بھرے ہوئے ڈرم نہیں ملتے؟کیا اس نیکی کو گھر گھر پہنچانے کا معاوضہ نہیں ملتا؟ پھر میرے اہل وطن کو بیرونی سفر کی آزادی سے کیوں محروم کیا گیا؟ ہمارے بہت سے سیاستدان‘ تحریکیں چلانے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ کیا انہیں نظر نہیں آ رہا کہ پاکستان کے 18کروڑ عوام‘ 4ہفتوں کے لئے‘ اپنی سرحدوں کے اندر قیدی بنا دیئے گئے ہیں؟ کیا اس سے بڑا ظلم کوئی ہو سکتا ہے؟ کیا دنیا میں آج تک کسی بھی ملک کی آبادی کو اتنی بڑی اجتماعی سزا دی گئی ہے۔ حکومت ہو یا سیاسی رہنما‘ کسی کی نظر بھی اس ظلم کی طرف نہیں جائے گی ‘ اب 18کروڑ عوام پر کیا گزرے گی؟وہ شرم سے ڈوب مریں ؟یکے بعد دیگر آنے والے ارباب اقتدار‘ جو پاکستانی قوم کی طرف بڑھتی ہوئی اس اجتماعی سزا کو روک نہ سکے۔ ان کی پھٹکار کریں؟عوام توپاکستان کے خلاف اس پابندی پر رودھو رہے ہوں گے۔ لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ کچھ گھروں میں خوشیاں بھی منائی جا رہی ہیں۔ 
ہماری حکومتوں کا کمال یہ ہے کہ جس منصوبے یا پروگرام میں‘بھینس کی طرح فوراً ہی دودھ دینے کی صلاحیت نہ ہو‘ وہ اس کی فائل اٹھا کر پھینک دیتے ہیں۔ اگلی کہانی آپ جانتے ہوں گے۔ کسی بیرونی ملک کی دلچسپی ہو تو فائل کو‘ راکٹ کی رفتار والے پہیے لگتے ہیں۔مقامی دلچسپی ہو‘ تو فائل کو ہوائی جہاز کے پہیے لگ جاتے ہیں اور اگر کوئی چھوٹاکاروباری ہو‘ تووہ مانگ تانگ کرسائیکل یا سکوٹر کا پہیہ لگا بھی دے‘ اس کا نمبر لاٹری کی طرح ہی آتا ہے۔ اب لاٹری نکلنے والی ہے۔ عالمی پابندیوں کا دھچکا لگتے ہی‘ مجبوراً ملک کے خارجی راستوں پر نگرانی کا انتظام کرنا لازم ہو گیا ہے۔ کیا آپ یقین کریں گے؟ کہ اس نئے نظام کو سنبھالنے والے کیا سوچ رہے ہیں؟75کروڑ روپے۔ ہر ایک کے ذہن کی سکرین پر باربار لکھا آ رہا ہو گا ۔ 75کروڑ روپے۔ 75کروڑ روپے۔ حکومتی خزانے سے نکالی گئی کوئی بھی رقم اصل مقصد پر خرچ نہیں ہوتی۔ مدت ہوئی اس کا رواج ختم ہو گیا۔ بڑی رقم ہو تو اس وقت منظوری ہوتی ہے‘ جب بانٹنے والے بھی بڑے ہوں۔ چھوٹی رقم ہو‘ تو جلدی سے منظور ہو جاتی ہے اور بانٹنے والے بھی جلدی سے کھانے کی تیاری کر لیتے ہیں۔ اب ہمارے ملک سے باہر نکلنے کے تمام مقامات پر‘ پولیو کے قطرے پلانے کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جائے گا۔ ساری کمائی سرٹیفکیٹ میں ہے۔ آپ نے بے شک پولیو کے قطرے پی لئے ہوں۔ آپ کے پاس اس کا سرٹیفکیٹ بھی ہو۔ اس پر تاریخ بھی لکھی ہو۔ ایئرپورٹ یا ملک سے باہر جانے کے کسی بھی ناکے پر کسی بھی محکمے کا‘ کوئی بھی اہلکار‘ آپ کو روک کر پوچھنے کا مجاز ہو گا کہ ''ثابت کرو‘ تم نے 4ہفتے پہلے پولیو کی ویکسین پی ہے۔‘‘ اگر تو بندہ سمجھ دار ہے‘ وہ جیب میں ہاتھ ڈال کے ثابت کر دے گا اور اگر سمجھ نہیں آئے گی‘ تو متعلقہ اہلکار خود ہی سمجھا دے گا۔رہ گئے 75 کروڑ‘ تو یہ تھوڑی سی رقم‘ اتنا بڑا انتظامی ڈھانچہ کھڑا کرنے کے لئے کسی کام نہیں آ سکتی۔ اتنی سی رقم تو انہی لوگوں میں ختم ہو جائے گی‘ جو اسے جاری اور وصول کریں گے۔ تو پھر پولیو کے قطرے پینے کا سرٹیفکیٹ کیسے اور کون دے گا؟ بہت آسان ہے۔ کچھ نہ کیجئے۔ جس دن کا ٹکٹ ہو‘ اس سے چار ہفتے پہلے کا سرٹیفکیٹ خرید لیجئے اور سفرکے مزے اڑائیے۔ حکومت کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہو گا۔ حکومت اخراجات کی رقم منظور بھی کرے گی‘ تو اسے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ سارا بوجھ عوام خود اٹھائیں گے۔ پاکستان میں جتنا بھی نظام چل رہا ہے‘ اس کا بوجھ غریب آدمی ہی اٹھاتے ہیں۔ امیروں پر تو واجب الادا ٹیکس بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ معافی کا مطلب؟ بندربانٹ۔ جو سادہ لوح خواتین و حضرات یہ سوچ رہے ہیںکہ اب ہم پولیو کے قطرے پی کر‘ اطمینان سے بیرونی سفر کر سکیں گے‘ تو وہ خاطر جمع رکھیں۔ ان کا اطمینان ایئرپورٹ یا ریلوے اسٹیشن پر پہنچتے ہی ٹھس ہو جائے گا۔ میں یہیں تک تصور کر سکتا ہوں۔ لیکن 
کرپٹوکریسی کام شروع کرنے کے بعد‘ کیسے کیسے سائنسی تجربے کرے گی؟ یہ عام آدمی کی سوچ سے بھی باہر ہے۔ اس لئے میرا مشورہ یہ ہو گا کہ آپ بیشک پولیو کے قطرے پی لیں۔ بے شک سرٹیفکیٹ لے لیں۔ اس کے باوجود پانچ دس ہزار روپیہ جہاز کے گیٹ تک پہنچنے کے لئے رکھ لیں۔ قطرے‘ بے شک نہ پئیں۔ سرٹیفکیٹ ضرور خرید لیں۔ بہت سال پہلے کی بات ہے کہ بیرون ملک جانے کے لئے ہیلتھ سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوا کرتی تھی‘ جو ڈسٹرکٹ گورنمنٹ جاری کیا کرتی۔ مجھے جب بھی بیرون ملک جاناہوتا‘ میں 300 روپیہ لاہور کارپوریشن کے دفتر بھیج دیتا اور ہیلتھ سرٹیفکیٹ میرے گھر پہنچ جاتا۔ پولیو کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ بھی ہم یہی کریں گے اور تب تک کرتے جائیں گے‘ جب تک دنیا کے ہر ملک میں ہمارا داخلہ بند نہ کر دیا جائے۔ صرف شام اور کیمرون کے باشندوں کو پولیو کا سرٹیفکیٹ لے کر باہر جانے کی سہولت میسر رہے گی۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ ہم پہلے کیمرون جائیں گے اور وہاں سے سرٹیفکیٹ لے کر بیرونی ملکوں میں گھوما کریں گے۔شام میں البتہ مشکل پڑے گی۔ کیونکہ اس بدنصیب ملک میں پولیو کا مرض ‘ پاکستان سے گئے ہوئے‘ مجاہدین اسلام نے پھیلایا ہے ۔ جس کی تصدیق ہو چکی ہے۔
سوچتے رہیے کہ 3جی اور 4جی کی نیلامی ہوتے ہی‘ یوٹیوب سے پابندی اٹھانے کا فیصلہ کیوں کیاگیا؟ صرف اڑھائی تین ارب کی بات ہے۔ یوٹیوب سے پابندی اٹھانے کے بعد نیلامی ہوتی‘ تو حکومت کو400ارب روپے سے زیادہ ملتے۔منتخب عوامی حکومت؟ اور 3 ارب روپیہ؟ آپ کے مزاج درست ہوئے؟
----------------

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved