تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     08-05-2014

مشاعرے ‘ سیمینار اور اردو کا مستقبل

بیرون ملک مقیم پاکستانی اردوکے تحفظ اورفروغ کے لئے کوشاں ہیں۔ امریکہ ‘ کینیڈا ‘ یورپ اور برطانیہ اس کے بڑے مراکز ہیں، خصوصاً برطانیہ میں مقیم بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں پاکستان چھوڑکر مستقل برطانیہ جابسنے والے پاکستانیوں نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ کاوشیں کی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ برطانیہ میں پاکستانیوں کی بیشتر تنظیموں کے منتظمین نے ماضی میں اپنی'' کاوشوں ‘‘ کے طفیل جتنی اردو کی خدمت کی، اس سے کہیں زیادہ اپنی کی ۔اس لیے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے ملک میں بسنے والی اقلیتی کمیونٹیزکو ان کی مادری زبان ‘ ادب ‘ کلچر اور فنون لطیفہ کے فروغ کے لیے بھاری مالی امداد دی جاتی تھی۔ اب کچھ عرصے سے برطانیہ خود مالی بحران کا شکار ہے۔ انڈسٹری بنداور بیروزگاری قابو سے باہر ہو رہی ہے، مشرقی یورپ سے آنے والے باشندوں نے مسلسل تنزلی کی جانب رواں معیشت کا بیڑہ مزید غرق کر دیا ہے۔ ہسپتال بند کیے جا رہے ہیں اور تعلیمی ادارے باہم مدغم کر کے کام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایسے میں زبان ‘ادب‘کلچر اور فنون لطیفہ کی سرپرستی کرنا مشکل ہوگیا ہے، لہٰذا ایسی تنظیموں کی گرانٹ اونٹ کے منہ میں زیرے جتنی رہ گئی ہے ، موج میلہ ختم ہو گیا،اب وہی لوگ ہمت سے کام لے کر کچھ کر رہے ہیں جو واقعتاً اردو زبان وادب کی خدمت کرنے میں پرخلوص ہیں۔ شکرہے کہ ایسے لوگ ابھی موجود ہیں۔
میں عرصہ دراز سے برطانیہ میں مشاعرے پڑھ رہا ہوں‘ ادبی کانفرنسوں میں شرکت کر رہا ہوں مگر برطانیہ اور یورپ میں اردو زبان کے تحفظ اورفروغ کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو کافی نہیں سمجھتا۔ حقیقی ضرورت مشاعروں اورکانفرنسوں سے ہٹ کر بھی کچھ کرنے کی ہے ۔ پاکستان سے برطانیہ جانے والی پہلی نسل دن رات محنت کرنے‘ سونے کے سوا ہمہ وقت مزدوری کرنے اور رات دن ٹیکسی چلانے کے باعث اپنی نئی نسل کواردو زبان سے صحیح معنوں میں روشناس نہیں کروا سکی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ تارکین وطن کی برطانیہ میں پیدا ہونے والی نئی نسل کی اکثریت اردواور پنجابی سے عملاً کٹ چکی ہے۔ یہ صرف اردو یا پنجابی کا مسئلہ نہیں بلکہ تقریباً ہر نسل اور ہر زبان کو یہاں یہی مسئلہ درپیش ہے۔ مانچسٹر یونیورسٹی میں لیکچرر شہرا علی سے ملاقات ہوئی تو اس نے بڑی دلچسپ معلومات فراہم کیں۔
گریٹر مانچسٹر میں ڈیڑھ سو سے دو سو تک مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے لسانی گروہ رہائش پذیر ہیں۔ نوجوانوں اور بچوں کی آبادی کا چالیس فیصد دو یا اس سے زیادہ زبانیں بول سکتا ہے جبکہ بڑے بوڑھوں میں یہ شرح پچاس فیصد ہے ، یعنی نوجوان نسل میں سے دس فیصد اپنی اصل زبان سے کٹ چکے ہیں۔ مانچسٹر کی کل بالغ آبادی کا بیس فیصد اپنی مادری زبان کو ہی اپنی بنیادی زبان قرار دیتا ہے۔ ملے جلے لسانی علاقوں میں مختلف زبانیں ختم ہوتی جا رہی ہیں مگر جہاں جہاں یہ لسانی گروہ قابل ذکر تعدادمیں موجود ہیں وہاں یہ زبانیں بول چال کے ذریعے کے طور پرموجود ہیں۔ مانچسٹر کی لائبریریوں میں انگریزی کے علاوہ دوسری زبانوں میں تقریباً بیس ہزارکتابیں موجود ہیں۔ لسانی کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے تقریباً آٹھ ہزار بچے جی سی ایس ای کے امتحان میں بیٹھتے ہیں یا انہوں نے یہ زبان ضمنی حوالے سے پڑھی ہے۔ مانچسٹر میں رہائشی وہ لوگ جن کی بنیادی زبان انگریزی نہیں ہے ، ان میں سے اسی فیصد بہترین انگریزی بول سکتے ہیں ، سترہ فیصد جن کی اکثریت بزرگوں پر مشتمل ہے بمشکل گزارے لائق انگریزی بول سکتے ہیں اور تین فیصد افراد جو تقریباً تمام عمر رسیدہ ہیں مکمل طور پرانگریزی سے نابلد ہیں۔ اردو گریٹر مانچسٹرکی سب سے بڑی اقلیتی زبان ہے، یعنی انگریزی کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ پورے برطانیہ کے حوالے سے انگریزی اور پولش کے بعدپنجابی تیسری اور اردو چوتھی بڑی زبان ہے جبکہ پورے شمال مغربی برطانیہ میں اردواور پنجابی دوسری اور تیسری بڑی زبانیں ہیں۔ ضمنی زبان کے حوالے سے بھی اردو جی سی ایس سی کے امتحانی سلیبس میں شامل ہے اور سینکڑوں پاکستانی بچے یہ مضمون پڑھ رہے ہیں مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس امتحان کا بڑا حصہ اردو کے بجائے رومن اردو میں لیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی لیول پر بعض مقامات پراردو بطورمضمون موجود ہے مگر یونیورسٹیوں میں اردو پڑھنے والے طالب علم بھی اردو رسم الخط سے مکمل طورپر نابلد ہیں ، زبان سے محرومی کا پہلا درجہ رسم الخط سے محروم ہونا ہوتا ہے۔ برطانیہ میں اردو بولنے والے پاکستانیوں کی جو نئی نسل اردو بول رہی ہے، اس کی اکثریت اردو پڑھنے اور لکھنے سے عاری ہے۔
مانچسٹر میں تین مئی کو مولانا الطاف حسین حالی اور علامہ شبلی نعمانی کی سو سالہ برسی کے سلسلے میں ایک سیمیناراور مشاعرہ تھا۔ مولانا الطاف حسین حالی اور علامہ شبلی کا انتقال 1914ء میں ہوا۔ 2014ء ان کی صدسالہ برسی کا سال ہے ۔ اس تقریب کا اہتمام کاروان ادب برطانیہ ‘حلقہ ارباب ذوق برطانیہ اور اخبار'' اردو ٹائمز ‘‘ نے کیا تھا۔ سیمینار میں چار مقالہ جات تھے۔ پہلے دو مقالہ نگاروں نے اتنے لمبے تحقیقی مضمون پڑھ دیے جو سامعین کے لیے اگلے سال تک کافی تھے۔ برطانیہ وغیرہ میں فنکشن ہال کا وقت مقرر ہوتا ہے اور تقریب بہر صورت وقت پر ختم کرنی ہوتی ہے۔ پاکستانیوں کو مزید مشکل یہ پیش آتی ہے کہ تقریب وقت مقررہ سے کافی لیٹ شروع ہوتی ہے تاہم ختم کرنے کا وقت مقرر ہوتا ہے۔یہی اس سیمینار میں ہوا اوراس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آخری دو مقررین کے مقابلہ جات کا وقت تین منٹ مقرر کر دیا گیا۔ تیسرے مقالہ نگار نے اپنے مقالے کا چار منٹ میں دھڑن تختہ کیا اور سامعین کو تالیاں بجانے کا موقع فراہم کیا۔ چوتھا مقررڈاکٹر عبدالکریم شکور تھا، ملکہ برطانیہ سے ایم بی ای کا خطاب حاصل کرنے والا ڈاکٹر شکور شگفتہ بیان شخص ہے ، اس نے کہا کہ وہ صرف اتنا وقت لے گا جتنا سامعین چاہیں گے۔ پھر اس نے سامعین کی اجازت سے کئی منٹ تقریرکی۔اس کی تقریر کا موضوع ہے مستشرقین کی بدنیتی اور اسلام دشمنی پر مبنی تحقیق اور علامہ شبلی کی جانب سے ان کا علمی جواب تھا۔ یہ ایک الگ موضوع 
ہے اور ایک علیحدہ کالم کا متقاضی ہے۔ مشاعرے کی صدارت کاروان ادب برطانیہ کے صدر صابر رضا نے کی۔
سیمینارکی صدارت اس عاجزکے ذمے تھی اوراس حوالے سے صدارتی تقریر میرا حق تھا۔ میں نے سامعین کو پہلی خوشخبری تو یہ سنائی کہ کھانا تیار ہے اور دوسری خوشخبری یہ کہ میری صدارتی تقریر نہایت مختصر ہے ۔ میں نے سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، مجھے معلوم ہے آپ گزشتہ ڈیڑھ گھنٹے سے یعنی جب سے تقریب شروع ہوئی ہے کچھ بھی نہیں سن رہے اور مجھے اپنے بارے میں بھی کوئی خاص خوش فہمی نہیں کہ آپ مجھے بھی سنیں گے ، لیکن یہ بات سراسسر آپ کے فائدے کی ہے اگر سن لیں تو آپ کا فائدہ ہے اور اگر نہ سنیں تو میرا بھی کم از کم کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ آج کا یہ سیمینار بلا شبہ ایک اچھی کاوش ہے مگر سو سال پہلے جہان فانی سے گزر جانے والے محقق‘مورخ‘ ادیب‘شاعر اور معلم ہر دو حضرات کو خراج تحسین پیش کرنا‘اس مسئلے کا حل نہیں جو آپ کو درپیش ہے۔ آپ ازرہ کرم ماضی کی نہیں مستقبل کی فکرکریں جس سے آپ کو پالا پڑنے والا ہے۔ یہاں ہال میں وہ لوگ بیٹھے ہیں جو اردو بول سکتے ہیں ‘لکھ سکتے ہیں اور پڑھ سکتے ہیں۔ آپ میں سے اکثر لوگوں کے بچے اردو لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ہاں آپ کے بچے ابھی اردو بول سکتے ہیں مگر تمام کے نہیں، حتیٰ کہ اس ملک میں اردو زبان کے فروغ کے لیے کام کرنے والوںمیں سے کئی لوگوں کے بچے اردو بولنے سے عاری ہیں۔ ہمیں اپنے ماضی پر فخر ہے مگر فکر مستقبل کی کرنی چاہیے جس سے ہم عملی طور پر بے فکر ہو چکے ہیں۔اردو کی فی الوقت سب سے بڑی ضروری خدمت یہ ہے کہ ہم اردوکا مستقبل محفوظ کریں اور یہ مستقبل ہماری نئی نسل ہے ، سیمینار یا مشاعرے نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved