تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     08-05-2014

ابرار احمد کی نئی نظمیں

ابرار احمد جدید نظم کا بے تاج بادشاہ ہے اور یہ بادشاہی اسے زیب بھی دیتی ہے۔ اس کی نثری نظم کا تو میں باقاعدہ قتیل ہوں اور اکثر حیران ہوتا ہوں کہ یہ ایسی زبردست نظمیں کیسے لکھ لیتا ہے ۔ پھر مجھے خیال آتا ہے کہ یہ چونکہ عمدہ نثر لکھنے پر قادر ہے‘ اس لیے۔ لیکن نثر تو نثر ہی ہوتی ہے‘ اس میں شاعری کون ڈال جاتا ہے کیونکہ جہاں تک نثر کا تعلق ہے تو انتظار حسین جیسی نثر کون لکھے گا‘ لیکن اس کی نثر میں شاعری نہیں ہوتی بلکہ انتظار حسین خود ہوتا ہے؛ تاہم اسے مجھ سے شکایت ہے کہ میں اس کی نثری نظم ہی کی تعریف کیوں کرتا ہوں‘ موزوں نظم کی کیوں نہیں‘ لیکن اس کی نظم نثری ہو یا موزوں‘ اسے تعریف کی حاجت ہی نہیں ہے۔ اس لیے بھی کہ عمدہ نظم تو اپنے سارے حُسن کے ساتھ آپ پر حملہ آور ہوتی ہے اور آپ بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ اس کی ایسی ہی کچھ نظمیں حاضر کر رہا ہوں: 
روشنی میرے اندر ہے 
عجب خواب تھا... جو تری نرم آنکھوں سے بہتا چلا جا رہا تھا... کہیں نیند کے ایک جھونکے کی صورت... بہت نیلا پانی تھا... پانی۔ جسے میں نے سوچا بہت تھا... زمیں پر مگر پہلے دیکھا نہیں تھا... وہ کیا لمس تھا... جس میں دیوانگی جیسی لرزش تھی... اور ایسی لذت... کہ جس پر زمانہ نچھاور... وہاں چار سو غیر آبادیاں تھیں... کھنڈر تھے... قدامت کے آثار تھے... ریت پر پائوں دھنستے گئے تھے... وہیں پر پڑے ہیں! وہ مہکار تھی چار سو... جیسے شالاط... سارے میں بکھری ہوئی... بال کھولے ہوئے پھر رہی ہو... وہیں خواب تھا... جس نے امجدؔ کو اپنی پکڑ میں لیا... وہ مٹی میں مٹی۔ یہ کب جانتا تھا... ہوا کا کوئی بھی ٹھکانہ نہیں ہے... وہ اگلے دیاروں کو مہکانے کب کی نکل بھی چکی ہے وہ ہر رات لکھنے کو خط سوچتا... اجنبی‘ بے نشاں منزلوں کی طرف پھینک دیتا... وہ لفظوں کے پیکر بناتے ہوئے... روز جیتا رہا‘ روز مرتا رہا... وہ بھاگا۔ اندھیرے کے پیچھے... زمیں آسماں کے کناروں تلک... تیز سائیکل چلائی... اور آخر کو لوٹا... کہ دندانے ٹوٹے پڑے تھے۔ وہ جیمی کہ شالاط ہو... واقعہ ہو کہ ہو خواب کوئی... اسے دیکھتی ہیں جو آنکھیں... وہی جانتی ہیں... وہی دل سمجھتا ہے اس بھید کو... جس کے اسرار کو عمر بھر جھیلتا ہے... مگر۔ غیر ممکن سایہ خواب میرا... ہے میرے زمانے کا پرتو... ذرا مختلف وقت کے دائرے میں رُکا... یہ شبستاں۔ مرے گرد پھیلا ہوا ہے... اِدھر سے اُدھر... سب کو ٹکرا رہا ہوں میں... بکھری ہوئی نیند میں۔ بہت دور تک بے اماں تیرگی ہے... مگر یوں بھی ہے۔ میں اس میں چمکتا ہوا راستہ دیکھتا ہوں... نئی منزلوں کی طرف۔ سو ٹھہرا رہوں گا نواحِ محبت میں۔ ترے خواب کو... طاق میں رکھ کے دیکھا کروں گا... اسے اپنی وحشت سے ڈھانپے رہوں گا... کہ جینا غضب ہے... اسی رنگِ شب میں اگر روشنی ہے... تو وہ میرے اندر ہے... باہر نہیں ہے! 
موجودگی 
کہیں دور بکھری پڑی ہے وہ ٹھوکر... کہ جس سے کیا تھا مسافت کا آغاز۔ وہیں پر کہیں... گونج ہے‘ آہ جیسی... کہ جس کے فسوں میں... ہر اک خواب سے سلسلہ وار گزرا... کبھی خوش دلی سے... کبھی بے دلی سے... کہ راتیں بہت تھیں... کہ گھاتیں بہت تھیں... سو گھاتیں بہت ہیں... اندھیرے میں گرتی ہوئی منزلیں بھی... مرے گرد پھیلی رہی ہیں... تمازت میں بکھرے ہوئے... صاف شفاف دن بھی... مرے راستے میں ہی پڑتے رہے ہیں... وہ جگمگاتے ہوئے لمس... میرے بدن سے... مرے بازوئوں سے لپٹتے رہے ہیں... لپٹتے رہیں گے... مرے دل میں نیز وں کی صورت گڑے ہیں... سفر جس قدر تھا... کڑا بھی تھا ہموار بھی تھا... یہیں سے کہیں اور آگے بھی رستے ہیں شاید... کہ جن پر مجھے... مسکراتے ہوئے‘ گنگناتے ہوئے... چلتے جانا ہے... حدِ نظر تک۔ یہ دنیا ہے آوازوں کی سمفنی ... مجھے اپنے حصے کا سُر تو لگانا ہی ہوگا... جہاں ہوں وہاں تو یقینا ہوں موجود... لیکن بہت دور تک ہے یہ موجودگی... جو تسلسل کے جھولے میں... رقصاں رہی ہے... سو‘ رقصاں رہے گی۔ 
بیاں ممکن نہیں ہے 
جو سر میں بھر گئے ہیں... انگلیوں میں سرسراتے... آنکھ میں کانٹے اُگاتے ہیں... انہی لفظوں سے لکھ دیکھو... بیاں ممکن نہیں ہے... اس کا جو تم جھیلتے ہو... کہ پہلی آنکھ کُھل جانے سے... لمبی تان کر سونے کا عرصہ بوجھ ہوتا ہے... سو کندھے ٹوٹتے‘ ٹخنے تڑختے ہیں... دُکھن ہوتی ہے... بوجھل پن میں... گدلی گونج چکراتی ہے... برتن ٹوٹتے‘ بجتے ہیں... بجتے ٹوٹتے رہتے ہیں... آنگن میں‘ رسوئی میں... کوئی صورت بدلتی دھند سی ہے... گھاس کے تختوں پہ... کیچڑ سے بھری راہوں میں... چکنے فرش پر... دن کی سفیدی میں... سنہری خواب کے لہراتے اندر میں... تمہاری ہی طرح کے لوگ... بالوں سے پکڑ کر کھینچتے ہیں... راستوں پر... بے حیائی سے... بہت تذلیل کرتے ہیں... کوئی ملبوس ہو... کوئی قرینہ ہو... اُدھڑ جاتا ہے آخر کو... کناروں پر ہے خاموشی... چِھدی تاریکیاں ہیں... کیا کرن کوئی تمہاری ہے؟ کوئی آنسو‘ کوئی تارہ... تمہیں راستہ دکھائے گا؟ کوئی سورج تمہارے نام سے چمکے گا آخر کو؟ حقیقت تھی سوالِ اولیں اور بس... اور اس کے بعد یہ کیا ہے؟ فقط خفت ہے... ننگی بے حیائی ہے‘ ڈھٹائی ہے... جیئے جائو ندامت میں... مگر لکھتے رہو... دیوار سے سر مار کر... کہ عظمت خبط ہے... اک واہمہ ہے... یہ لہو کی رقص کرتی گنگناہٹ بھی... کہ دانائی بھی اک بکواس ہے... آواز بھی‘ چُپ بھی... یہاں ہونا‘ نہ ہونا بھی... وہی قصہ پرانا ہے... تو پھر لکھتے رہو بے کار میں... بیگار میں لکھتے رہو... کیا فرق پڑتا ہے؟ 
ابھی تین نظمیں اور ہیں‘ یعنی ع ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے۔ انہیں کسی اور نشست میں پیش کروں گا۔ جب تک میں ان نظموں کی شاعری سے شاید خود بھی نکل سکوں۔ علاوہ ازیں اسلام آباد سے اختر عثمان سے فرمائش کر کے ان کی تازہ اور غیر مطبوعہ نظمیں منگوائی ہیں جبکہ اقتدار جاوید کی ایک نظم بھی کئی دنوں سے مجھے آنکھیں مار رہی ہے۔ ابرار کی نظمیں پہلے اس لیے پیش کی ہیں کہ وہ کہیں سنبھال کر رکھ بیٹھا تھا اور پھر بھول گیا کہ زیادہ سنبھال کر رکھی ہوئی چیز اکثر گم ہو جاتی ہے؛ چنانچہ اس تاخیر میں شرمندہ ہوں‘ ابرار احمد سے کم اور ان نظموں سے زیادہ۔ 
آج کا مطلع
جھوٹ سچ کو دیکھ لیتے‘ یہ تمہارا کام تھا
بات سن لیتے کبھی اتنا ہی سارا کام تھا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved