تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     08-05-2014

رجب المرجب

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے ، (یہ تعداد ) اللہ کی کتابِ (تقدیر) میں آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے دن سے ہے،ان میں سے چار (مہینے)حرمت والے ہیں،(توبہ:36)‘‘۔حرمت سے مراد یہ ہے کہ ان چارمہینوں کے احترام میں دینِ ابراہیمی سے تَوارُث کے ساتھ جنگ وجَدَال کی ممانعت تھی ۔ قریشِ مکہ جو دینِ ابراہیمی کی پیروی کے دعویدار تھے، اُصولی طور پر تو اس حُرمت کے قائل تھے،لیکن انہوں نے اسے اپنی خواہشات کے تابع کردیا تھااورجب ان محترم مہینوں میں جنگ کرناچاہتے توترتیب کو مصنوعی طریقے سے بدل دیتے تھے اورآگے پیچھے کردیتے تھے،کفار مکہ کی طرف سے مہینوں کی ترتیب کی اس تبدیلی کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں '' نَسِیٔ‘‘ سے تعبیر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: '' مہینہ کو مؤخر کرنا محض کفر میں اضافہ کرنا ہے،اس سے کافروں کو گمراہ کیا جاتاہے،وہ کسی مہینے کوایک سال حلال قرار دیتے ہیں اوراسی مہینے کو دوسرے سال حرام قرار دیتے ہیں تاکہ اللہ کے حرام کئے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری کرلیں ، تو جس کو اللہ نے حرام کیا اس کو حلال کرلیں ،(توبہ:37)‘‘۔
ان چار حرمت والے مہینوں کا بیان حدیثِ پاک میں آیا ، رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوَداع کے موقع پرفرمایا:''بے شک زمانہ لوٹ پھر کے اس ترتیب کے مطابق آگیا ہے جو آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے دن سے چلی آرہی ہے ، سال بارہ مہینوں کا ہے ، ان میں سے چار حرمت والے ہیں:تین (حرمت والے) مہینے متواتر ہیں :ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور(چوتھا) رجبِ مُضَر(یعنی جس کی حرمت قبیلۂ مُضَرکی طرف منسوب )ہے، جوجُمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان آتاہے،(صحیح بخاری: 4662)‘‘۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قریشِ مکہ کی خود ساختہ تقدیم وتاخیر کی وجہ سے مہینوں کی ترتیب بدل چکی تھی ، لیکن 10ء ہجری میں جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارَکہ کا پہلا اورآخری'' حجۃ الاسلام‘‘ ادا فرمایا اور جسے محدثین اور سیرت نگاروں کی اصطلاح میں'' حجۃ الوَداع‘‘ کہا جاتاہے، قریشِ مکہ کی تقدیم وتاخیر کے باوجود لوٹ پھر کر مہینے اپنی اسی ترتیب کے مطابق آگئے جو ابتدائِ آفرینش سے چلی آرہی تھی ۔ جب رجب کا مہینہ داخل ہوتا تو رسول اللہ ﷺ یہ دعافرمایا کرتے تھے:''اے اللہ! تو ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرمااور رمضان کا مہینہ نصیب فرما،(المعجم الاوسط:3951)‘‘۔ رجب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ مشہوررِوَایات کے مطابق معراج النبی ﷺ کامُحَیّر العُقول معجزہ اس مہینے میں وقوع پذیر ہوا اور وہ ایک مستقل موضوع ہے ۔ 
ان حُرمت والے مہینوں میں ملّت ابراہیمی کے تسلسل میں شریعتِ مصطفوی ﷺ میں بھی جنگ وجَدَال کی ممانعت تھی،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''(اے رسول! )لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کے متعلق پوچھتے ہیں ، آپ کہئے کہ اِس ماہ میں جنگ کرنابڑا گناہ ہے اور (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکنا اور اللہ سے کفر کرنااور مسجدِ حرام جانے سے روکنا ہے، (البقرہ:217)‘‘۔چونکہ دینِ ابراہیمی سے ان مہینوں کی حرمت مسلّم چلی آرہی تھی، اسی لئے دوردراز سے لوگ بلاخوف وخطر حج کے لئے آتے تھے اور انہیں مارے جانے یا لُٹ جانے کا کوئی خوف نہیں ہوتا تھا۔ قریشِ مکہ اصولِ حرمت کو ماننے کے باوجود مختلف حیلے اور فریب سے اس کو بے نتیجہ بنادیتے تھے اور اس کا طریقہ مہینوں کی ترتیب کو بدل دینا تھا۔چنانچہ مسلمانوں پر یہ لازم قرار دیاگیا کہ وہ ان کی حرمت کو پامال کرنے اور جنگ میں پہل کرنے سے اجتناب کریں ، لیکن اگر کفار جنگ میں پہل کریں ، تو مسلمان ہاتھ باندھ کر بیٹھے نہیں رہیں گے بلکہ انہیں اجازت ہوگی کہ اپنا دفاع کریں اور اس صورت میں حرمت کی پامالی کا وبال مسلمانوں پر نہیں آئے گا ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''حرمت والے مہینے کا بدلہ حرمت والا مہینہ ہے اور تمام محترم چیزوں کا بدلہ ہے ، سو جو شخص تم پر (ماہِ حرمت یا مقامِ حرمت میں)زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرو، جتنی اُس نے تم پر کی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تقوے والوں کے ساتھ ہے،(البقرہ:194)‘‘۔دوسرے مقام پر فرمایا: ''اور برائی کا بدلہ اُس کی مثل برائی ہے، (الشوریٰ:40)‘‘۔ان دو آیات میں مسلمانوں کو یہ اجازت دی گئی کہ اگر ان پر حرمت والے مہینے یا مقام پر دشمن ظلم اور تَعَدّی کرے توانہیں تَعَدّی کے جواب میں تَعَدّ ی کا حق حاصل ہے ۔ دراصل ظلم وتَعَدّی کے بدلے کو تعدّی سے تعبیر کرنا اور برائی کے بدلے کو برائی سے تعبیر کرنا یہ ظاہری مشابہت کی وجہ سے ہے ، ورنہ درحقیقت ظلم کا بدلہ عدل ہے ، تعدّی کا بدلہ حرمت کی حدود کی پاسداری ہے اور برائی کا بدلہ اس کے کئے کی جزا ہے۔ 
ہمارے اس خطے میں 22رجب کے ''کونڈوں‘‘کی روایت معروف ہے کہ امامِ جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے نام پر فاتحہ ہوتی ہے ، جس میں لکڑہارے کی منظوم داستان پڑھی جاتی ہے اور اس فاتحہ کی میٹھی ٹکیاں یا روٹیاں ایک خاص جگہ پر بٹھا کر کھلائی جاتی ہیں اور اس میں استعمال شدہ برتنوں کو ندی وغیرہ کے پانی میں ٹھنڈا کیاجاتاہے۔ کسی کے لئے ایصالِ ثواب کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے اور شریعت کی نظر میں یہ ایک پسندیدہ بات ہے ، لیکن کسی خاص طرز کے کھانے کو یا خاص جگہ پر کھلانے کویا خاص تاریخ پر کھلانے کو لازم سمجھنا اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے ۔ 
22رجب کو امامِ جعفر صادقؓ کی نہ تاریخ پیدائش ہے اور نہ تاریخ وصال ، آپ کی تاریخِ ولادت کے بارے میں ایک روایت 17،ربیع الاول 80ء ہجری ہے ، ایک روایت رجب کی بھی ہے ، لیکن تاریخ مذکور نہیں ہے ، اسی طرح وصال کے بارے میں بھی دو قول ہیں :زیادہ معروف ماہِ شوال 148ہجری اور ایک قول رجب کا بھی ہے (جِلاء العیون ، ملاباقر مجلسی ، جلد:2،ص:693)۔البتہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وصال 22رجب 60ء ہجری ہے،(دائرہ معارفِ اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی)۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ کے معاندین اور ان سے بغض رکھنے والوں نے (معاذاللہ!) اُن کی وفات پر خوشی منانے کے لئے یہ سلسلہ شروع کیا اور چونکہ وہ بنو اُمیّہ کے اقتدار کا دور تھا، اس لئے اسے پوشیدہ رکھنے کے لئے گھر کے کسی خاص گوشے میں کھلایا جاتاتھا ، لیکن ہمیں اس کا کوئی تاریخی حوالہ نہیں ملا۔
مولانا مفتی محمد خلیل خان برکاتی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ''ماہِ رجب میں امام جعفر صادقؓ کو ایصالِ ثواب کے لئے کھیر پوری پکا کر کونڈے بھرے جاتے ہیں اور فاتحہ دلا کر لوگوں کو کھلاتے ہیں، یہ جائز ہے۔ اس میں ایک بات بڑی غلط رواج پاگئی ہے کہ جہاں کونڈے بھرے جاتے ہیں، وہیں کھائے جاتے ہیں ،یہ ایک غلط حرکت ہے اور یہ غیر شرعی اور جاہلانہ رسم ہے۔ اس موقعہ پر ایک کتاب''عجیب داستان‘‘پڑھی جاتی ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں یہ نہ پڑھی اور نہ ہی سنی جائے، فاتحہ دلا کر ایصالِ ثواب کریں۔ اللہ کے نیک بندوں کی کرامات برحق ہیں،(سنی بہشتی زیور، حصہ سوم،ص:318)‘‘۔
کچھ لوگ اسلامی تاریخ کے حوالے سے کسی عظمت والے دن نفلی روزہ رکھنے کو بدعت کہتے ہیں ، یہ کہنا بھی شریعت پر زیادتی ہے ۔ ہم واضح کرچکے ہیں تعیین کو لازم سمجھنا بدعت ہے اور حصولِ برکت کے لئے کسی بھی دن اجر وثواب کی نیت سے نفلی روزہ رکھنا، نوافل پڑھنا ، تلاوت اوردُرُود واَذکار پڑھنے اور صدقہ وخیرات کرنے کو بدعت سمجھنا ، یہ بھی درست نہیں ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:'' اور جن چیزوں کے متعلق تمہاری زبانیں جھوٹ بولتی ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو، بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوں گے، (النحل:116)‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved