تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     08-05-2014

ہنر سے آراستہ خوبصورت دوپہر!

گورنر ہائوس کے قریب مال روڈ سے جڑی ایوان تجارت روڈ پر واقع چلڈرن کمپلیکس کے احاطے میں خوبصورت ہنر میلہ جاری تھا۔6مئی کی گرم دوپہر، میں بھی وہاں موجود تھی اور لُو سے بوجھل ہوا میں جہاں چہرے کی تازگی ماند پڑ جاتی ہے اور لبوں کی مسکراہٹیں مرجھا سی جاتی ہیں‘وہاں ہنر کی خوبصورتی سے آراستہ خوش باش ہنستے مسکراتے نوجوان دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ وہاں موجود تمام نوجوان پنجاب کے مختلف شہروں سے اپنے ہنر کی دکان سجانے لاہور آئے تھے، رحیم یار خان‘سیالکوٹ‘ گوجرانوالہ‘ دیپالپور۔ اس بات پر بھی حیرت ہوئی کہ چھوٹے چھوٹے شہروں سے بڑے بڑے ہنر مند وہاں موجود تھے۔ان نوجوانوں کی باڈی لینگویج اور چہروں سے امید‘جذبہ اور توانائی جھلکتی تھی۔اس ہنر میلے کا اہتمام پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل نے کیا تھا اور بشریٰ نواز‘اپنی پوری ٹیم کے ساتھ وہاں موجود تھیں ۔ ٹیم کے ارکان آنے والے مہمانوں کو ہنر مندوں کے سٹالز پر لے جاتے جہاں‘متعلقہ لوگ بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ سے حاصل ہونے والی عملی تربیت ‘اپنی کارکردگی اورکامیابیوں کی داستان سناتے۔سیالکوٹ سے آنے والے نوجوانوں نے سرجیکل انسٹرومنٹ ‘سکرین پرنٹنگ کا سٹال لگایا ہوا تھا اور وہ پرنٹنگ کا عمل وہاں کر کے بھی دکھا رہے تھے۔دیپالپور کے ہنر مندوں پر حیرت ہوئی جو ویٹرنری اسسٹنٹ کی عملی تربیت حاصل کرنے کے بعد ‘اس قابل ہو جاتے ہیں کہ لائیو سٹاک فارم مینجمنٹ بہتر طریقے سے کر سکیں۔ یہ ہنر حاصل کر کے وہ نہ صرف ڈیری انڈسٹری اور ویٹرنری ہسپتالوں میں اچھی ملازمتیں حاصل کر سکتے ہیں بلکہ فارما سیوٹیکل کمپنیوں میں بھی ان کے کام کی گنجائش ہوتی ہے۔میرے لیے یہ حیرت کی بات تھی کہ دیپالپور جیسے چھوٹے شہر میں ‘ویٹرنری کے حوالے سے اتنی جدید تعلیم دی جا رہی ہے۔
وہاں موجود انسٹرکٹر نے بتایا کہ نوجوان یہاں سے عملی تربیت لے کر بہت اچھی ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں۔کپڑوں کی ڈیزائننگ‘ ٹنل فارمنگ‘ٹیلرنگ‘پلمبنگ‘کمپیوٹر سے متعلقہ کئی طرح کے تکنیکی ہنر، جن کی آج مارکیٹ میں بہت مانگ ہے۔ ووکیشنل اداروں میں تربیت حاصل کرنے والے یہ نوجوان، جو میٹرک یا ایف اے‘ایف ایس سی کے بعد ایسے اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ ان نوجوانوں سے کہیں بہتر طور پر زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوتے ہیں جو یونیورسٹیوں، کالجوں میں ‘آرٹس کے مضامین میں ماسٹر ڈگریاں لے کر ‘بے روزگاری کی کڑی دھوپ میں جلتے رہتے ہیں۔عملی زندگی کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل ادارے‘انہی تقاضوں کو سامنے رکھ کر‘طالب علموں کو تعلیم اور ہنر سے آراستہ کرتے ہیں۔
پاکستان میں نوجوان بے روزگاری کے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ہر سال یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے لاکھوں نوجوان‘عملی زندگی میں آ کر محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے سولہ سال کی تعلیم میں خود کو ضائع کیا،جس ڈگری کی بنیاد پر وہ دنیا کو فتح کرنے نکلے ہیں اس کی عملی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں۔ چند خوش قسمت ضرور اس بنیاد پر ملازمت حاصل کر لیتے ہیں لیکن بے روزگار رہنے والے لاکھوںنوجوان عملی زندگی کے فٹ پاتھ پر زرد پتوں کی طرح بے خانماں خراب‘کسی معجزے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ایسے میں ذہنی تنائو‘ ڈپریشن ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ ناامیدی کی آکاس بیل نوجوانوں کے جذبوں‘خوابوں اور امیدوں کو چاٹنے لگتی ہے ۔یہ بڑی گمبھیر صورت حال ہے۔حکومت نے جو قرضہ سکیم نوجوانوں کے لیے شروع کی ہے،اس سے بھی ہنر مند نوجوان ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ڈگری یافتہ بے ہنر نوجوان یہاں بھی بے مراد ٹھہرے گا۔
میری رائے میں پاکستان کو بھی ملائشیا کی طرح ہنر کی تعلیم سکول‘کالج اور یونیورسٹی لیول کے ہر طالب علموں کے لیے ضروری قرار دینا چاہیے۔1996ء میں ملائشیا نے مہاتیر محمد کی لیڈر شپ میں اپنے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کا خواب دیکھا تھا اور آج ملائشیا میں ہر سطح پر دی جانے والی تعلیم میں 75فیصد عملی تربیت شامل ہوتی ہے، جو کسی نہ کسی ہنر کی صورت میں ہے اور صرف 25فیصد تھیوری ہے۔چائنا نے اپنے ہنر مند کارکنوں (Skilled Workers)کی بدولت دنیا بھر کی منڈیاں اپنے نام کر لی ہیں۔ چین والوں کو فخر ہے کہ وہ ہنر مندوں کا ملک ہے۔اپنے تعلیمی اداروں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں چین کی سرزمین پر 1870ء میں پہلا ٹیکنیکل اور ووکیشنل ادارہ قائم ہوا تھا جہاں پر کاغذ بنانے اورپرنٹنگ کرنے کی عملی تربیت دی جاتی تھی۔ یاد رہے کہ کاغذ کی تیاری اورچھپائی کا کام دنیا نے چین سے ہی سیکھا۔چین کو اس کاموجد کہا جاتا ہے۔
1949ء میں پیپلز ری پبلک آف چائنا کا درجہ پانے کے بعد گراں خواب چینیوں نے سنبھلنے کا تہیہ کر لیا اور یہ طے کیا کہ تعلیمی اداروں سے جو بھی اصلاحات ہوئیں، اُن کی بنیاد ہی تھی کہ چین اپنے نوجوان کو ہنر مند بنا کر قیمتی انسان بنائے گا۔
1978ء میں چین میں تعلیمی اصلاحات دوبارہ کی گئیں اور ہزاروں کی تعداد میں ہنر سکھانے والے ادارے ملک کے طول و عرض میں قائم کر دیے گئے۔ ہنر کی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور ملک میں اس کے لیے فضا مزید سازگار بنانے کے لیے 1996ء میں چین نے فرسٹ ووکیشنل ایجوکیشن لاء بنایا۔یہی وہ وقت تھا جب چین نے ایک بار پھر بدلتی ہوئی دنیا کے چیلنج پر پورا اترنے کے لیے‘انفرمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے نوجوانوں کو اتارنے کا فیصلہ کیا۔ اور آج چین‘اسی ہنر کی بدولت سپر پاور کی دوڑ میں نمایاں ملک کی حیثیت سے کھڑا ہے ۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مضبوط معیشت سے ہی مضبوط ملکوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
6مئی کی گرم دوپہر اس ہنر میلے میں جا کر یہ احساس شدت سے اجاگر ہوا کہ پاکستان کے ہر تعلیمی ادارے میں‘ہر سطح کی تعلیمی ڈگری کے لیے ہمیں بھی عملی تربیت اور ہنر کو تعلیم کا حصہ بنانا چاہیے۔نوجوانوں کے ذہن کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے جو بے ہنر رہ کر دفتر کا کلرک بابو تو بننا چاہتا ‘لیکن ووکیشنل ادارے سے ہنر کی تعلیم حاصل کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ یہ حقیقت ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ جو تعلیم کے میدان میں کمزور کارکردگی دکھاتے ہیں صرف وہی طالب علم ہنر کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے اور اس میں ایک اہم کردار ایسے ہنر میلے بھی ادا کر سکتے ہیں ۔ان کا انعقاد زیاد ہ سے زیادہ ہونا چاہیے۔لوگ وہاں جائیں گے اور ہنر مند نوجوانوں کے پُراعتماد دمکتے ہوئے چہرے دیکھیں گے تو یقینا ان کی سوچ بدلے گی۔ہنر سے آراستہ اس خوبصورت دوپہر نے میری سوچ تو یقینا بدل ڈالی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved