تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     09-05-2014

وہ 40 دن

مذاکرات کے پردے میںطالبان کیا کچھ کر گئے؟ اس کی تفصیل غور طلب ہی نہیں‘ پریشان کن بھی ہے۔ پہلے تو یہ دیکھئے کہ طالبان نے ‘ پاکستانی فورسز کے حملوں کے خوف اور دبائو سے نکلنے کے لئے‘ 40دن کی مہلت کیسے حاصل کی؟ حکومت پاکستان کو جنگ بندی کی شرط ‘ محض یہ کہہ کر منوا لی کہ ''دوطرفہ جنگ بندی کر لیتے ہیں‘‘۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کیس میں دوطرفہ جنگ بندی کا مطلب‘ صرف پاکستان کی طرف سے جنگ بندی ہو گی، جبکہ پابندی کا اطلاق ان پر نہیں ہو سکے گا۔ یہ بات میں نے جنگ بندی کی تجویز آنے پر لکھ دی تھی کہ جنگ بندی صرف ہم کریں گے، طالبان اپنا کاروبار جاری رکھیں گے۔ ہماری طرف سے اعتراض پر‘ ان کا جواب ہو گا۔ ''یہ کسی ایسے گروپ کی کارروائی ہے‘ جو ہمارے کنٹرول میں نہیں‘‘۔سوفیصد ایسا ہی ہوا۔ ہم سمجھتے رہے کہ مذاکرات طول کھینچ رہے ہیں۔ امید لگائے رکھی کہ کچھ نہ کچھ نتیجہ ضرور نکلے گا۔ طالبان اور ان کے مذاکراتی نمائندے‘ ہمیں جھانسے پر جھانسہ دیتے رہے۔ کبھی کوئی بہانہ، کبھی کوئی بہانہ۔ مجھے شک تھا کہ سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہو رہا تھا۔ مذاکرات کی جو تفصیل ابھی تک مجھے معلوم ہو سکی ہے‘ اس کے مطابق صرف ایک مرتبہ جوباقاعدہ بات چیت ہوئی‘ اس میں حکومتی نمائندوں نے بہت کم گفتگو کی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میڈیا پر سب سے زیادہ بولنے والے‘ پروفیسر ابراہیم‘ طالبان کے سامنے ‘ خاموش ہو کر بیٹھے رہتے۔ جب انہیں کہا جاتا کہ آپ بھی کوئی بات کریں۔ ان کا جواب ہوتا کہ ''میں سنی ہوں۔ یہاں صرف سننے کے لئے آیا ہوں‘‘۔ پاکستانی میڈیا پر آ کر‘ وہ سنی نہیں رہتے تھے۔ رپورٹروں اور اینکرز کو سنے بغیر بے تکان بولتے تھے۔ مجھے نہیں پتہ ‘ بے تکان بولنے والا فرقہ کون سا ہے؟ وہ ہے بھی یا نہیں ہے؟ پروفیسر ابراہیم‘ بہرحال اپنا ''سنی مسلک‘‘ ترک کرتے رہے۔ 
بیشتر ملاقاتوں‘ میں پاکستان کی طرف سے میجر عامرنے بات چیت کی، مگر وہ مذاکرات کی رازداری کے اصول کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔ میڈیا میں ان کے تعلقات کا سب کو علم ہے۔ ان کے قریبی دوستوں نے اصرار کر کے‘ ان سے بہت کچھ پوچھا، لیکن انہوں نے اپنی زبان بند رکھی۔ پھر یہ طالبانی مذاکراتیے مسلسل کیوں بولتے رہے؟ میں اسے صرف ''تھوتھا چنا‘ باجے گھنا‘‘ نہیں کہوں گا۔ مجھے شک ہے کہ بے تکان بولنے کی پالیسی بھی طے شدہ تھی۔ طالبان‘ اپنی بات چیت میں‘ بہت سی مثبت باتیں کر کے یہ تاثر دیتے کہ وہ مذاکرات میں انتہائی مخلص ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ شاہد اللہ شاہداپنے انٹرویوز میں سخت لہجہ استعمال نہیں کریں گے۔ دہشت گردی کے جواز میں کچھ نہیں کہیں گے اوردہشت گردی کے واقعات کے حق میں بات نہیں کریں گے۔بعد کی بات چیت میں‘ طالبان کے نمائندوں نے مثالیں دے کر تاثر پیدا کیا کہ وہ وعدوں کی پابندی کر رہے ہیں۔ مثالیں دی گئیں کہ شاہد اللہ شاہد نے لہجے کی تلخی اور شدت میں کمی کر دی ہے۔ انہوں نے سبزی منڈی اسلام آباد میں دھماکے کی‘ نہ صرف مذمت کی بلکہ اسے شریعت کے خلاف بھی قرار دیا۔ کسی انٹرویو میں دہشت گردی کا جواز پیش نہیں کیا۔ پاکستانی فریق ان دلائل سے بہت متاثر ہوئے، یہاں تک کہ ہمارے وزیرداخلہ نے دعویٰ کر ڈالا کہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی کی وجہ مذاکرات ہیں۔ 
حقیقت کیا تھی؟ مذکرات کی طرف آنے سے پہلے‘ ایک محفل میں وزیراعظم نے جب طالبان سے مذاکرات کا ارادہ ظاہر کیا‘ تو میں نے عرض کیا ''اس تجویز پر عمل کر کے ہم طالبان کے ٹریپ میں آ جائیں گے۔‘‘ یہ بات میں کئی بار دہرا چکا ہوں۔ جب میں نے یہ کہا‘ اس وقت تک مجھے ٹھوس معلومات حاصل نہیں تھیں۔ صرف کامن سینس استعمال کی۔ بعد کے واقعات سے میرے اندازے کی تصدیق ہوتی گئی۔ آج امریکی جریدے ''فارن پالیسی میگزین‘‘ میں فہد ہمایوں کی ریسرچ پڑھنے کو ملی۔ پتہ چلا کہ 40دنوں کی مہلت میں‘ طالبان نے کیا کچھ حاصل کیا ہے؟ رپورٹ پر بات کرنے سے پہلے میں اپنا ایک اور اندازہ پیش کروں گا۔ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت پر ملافضل اللہ اور حکیم اللہ محسود کے درمیان کش مکش تھی۔ ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود مارا گیا۔ کئی دن جوڑتوڑ کے بعد‘ ملافضل اللہ کو قیادت مل گئی۔ اس نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے ملاعمر کا اعتماد حاصل کر لیا تھا۔ جب حکیم اللہ راستے سے ہٹ گیا‘ تو فضل اللہ نے ملا عمر کی حمایت سے حکیم اللہ کی جگہ حاصل کر لی۔ نئی ریسرچ پڑھ کے یہ سوچنا غلط نہ ہو گا کہ فضل اللہ کی تقرری‘ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوئی ہو گی۔ فضل اللہ نے طالبان کے زیرانتظام علاقوں میں‘ تحریک طالبان پاکستان کے لئے خفیہ مراکز قائم کرنے کی اجازت مانگی ہو گی۔ جو یقینا اسے مل گئی۔ اب یہ اندازہ لگانے کی وجوہ سامنے آ رہی ہیں کہ ملاعمر اور فضل اللہ کے درمیان ‘ ٹی ٹی پی کے موجودہ مرکز سے منتقل ہونے کا فیصلہ کیا گیا ہو گا۔ ''فارن پالیسی‘‘ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق 40دنوں کے دوران‘ ان غیر ملکیوں کی بڑی تعداد کو افغانستان بھیج دیا گیا‘ جس میں شامل لوگ اردو بولنا نہیں سیکھ پائے تھے۔ جو غیرملکی اردو روانی سے بول سکتے ہیں‘ ان کی اکثریت کو فاٹا سے نکال کر جنوبی پنجاب منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس مقصد کے لئے ڈیرہ غازی خان کا انتخاب کیا گیا۔اس ضلع کی سرحدیں ملک کے تینوں دیگر صوبوں سے ملتی ہیں۔ کسی زمانے میں یہ بلوچستان کا حصہ تھا۔ اب پنجاب میں شامل ہے۔ لیکن اس کے زیادہ تر تہذیبی رشتے بلوچستان کے ساتھ ہیں۔ یہاں تک کہ کئی قبیلے دونوں صوبوں میں آباد ہیں۔ فاٹا سے پاکستان میں داخل ہونے کے لئے‘ موزوں ترین مقام ڈیرہ غازی خان ہے۔ اس ضلع سے تینوں صوبوں کو عمدہ سڑکیں جاتی ہیں۔ انڈس ہائی وے‘ بنوں کی طرف سے ڈیرہ اسماعیل خان جاتی 
ہے۔ اس وقت راستے میں 18چیک پوائنٹس آتے ہیں۔ بنوں سے ڈیرہ غازی خان تک کے‘ راستے پرغیرمعمولی سکیورٹی نہیں ہے اور جتنی چوکیاں موجود ہیں‘ وہ کسی بھی اعتبار سے موثر نہیں۔ پرانے زمانے کا متروک سکیورٹی سسٹم‘ آمدورفت پر اطمینان بخش نگرانی کے قابل نہیں۔ مذکورہ بالا راستے کے ذریعے ‘ خیبرپختونخوا سے‘ جنوبی پنجاب میں داخل ہوناانتہائی آسان ہے۔ مذاکرات شروع ہونے کی وجہ سے‘ پاکستان کا سکیورٹی سسٹم ہمہ وقت چوکسی سے قدرے بے پروا ہو گیا۔خصوصاً خیبرپختونخوا سے‘ جنوبی پنجاب میں داخلے کے راستوں پر نگرانی کی ہنگامی ضرورت کا کسی کو خیال نہ آیا۔ یہ راستہ طالبان کے بہت کام آ رہا ہے۔ پاکستان کے دہشت گرد یہ راستہ استعمال کر کے‘ فاٹا اور افغانستان تک جاتے رہے۔ خصوصاً فرقہ پرست دہشت گرد۔ ٹی ٹی پی نے انہیںآسانی سے اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ جنوبی پنجاب کے یہ دہشت گرد انتہا کے انتہاپسند اور بے رحم ہیں۔ ان دہشت گردوں کے بیشتر ٹھکانے رحیم یار خان‘ راجن پور‘ صادق آباد اور بہاولپور ہیں۔ ان گروہوں کے سرپرست‘ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اپنا اصل چہرہ چھپا کر قومی سیاست میں جگہ بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میںان کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور پاکستانیوں میں توقعات پیدا ہو گئیں کہ طالبان ‘ پاکستانی انتظامیہ کی نظر میں قانونی حیثیت حاصل کر لیں گے۔ تحریک طالبان پاکستان اور پنجابی طالبان کے درمیان تنظیمی شراکت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ عصمت اللہ معاویہ کو طالبان شوریٰ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملا فضل اللہ کے زیرقیادت طالبان کے متضاد گروہ ایک تنظیمی وحدت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عصمت اللہ معاویہ جسے حکیم اللہ محسود اپنا مخالف سمجھتے تھے‘ اب وہ ٹی ٹی پی کا حصہ بن چکا ہے۔ اس کی تصدیق پولیس کی تفتیش سے ہوئی۔ جس سے پتہ چلا کہ اسلام آباد سبزی منڈی میں‘ ہونے والی دہشت گردی کا سراغ جنوبی پنجاب میں قبولہ کے ایک باغ میں ملا۔جیسے پہلے عرض کر چکا ہوں کہ طالبان ایک طرف اپنے ٹھکانے افغانستان کے اندر منتقل کر رہے ہیں اور دوسری طرف ان کی نظر جنوبی پنجاب پر ہے۔ ظاہر ہے‘ مرکز کی اس تبدیلی کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کو نئے اتحادی بھی ملیں گے۔ افغانستان میں انہیں ملاعمر کی سرپرستی ملنے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ جنوبی پنجاب کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ فاٹا کے بعد Most Wanted جرائم پیشہ جنوبی پنجاب میں پناہ گزین ہیں، جن سے کام لینے میںطالبان پرہیز نہیں کریں گے۔ 
پاکستانی حکومت اس سٹریٹجک کوریڈورکی اہمیت کو‘ ابھی تک نظر انداز کر رہی ہے‘ جو جنوبی وزیرستان کو جنوبی پنجاب سے ملاتا ہے۔ ایک تنگ لیکن مربوط پٹی جوبنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ لیہ‘ ڈیرہ غازی خان پر مشتمل ہے‘ سائز میں فاٹا سے تین گنا زیادہ رقبے کی حامل ہے۔ یہاں پر دہشت گردی کا ایسا مرکز قائم ہوتا نظر آ رہا ہے‘ جہاں سے پاکستان‘ افغانستان اور ایران میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی جا سکیں گی۔ مذاکرات سے حاصل شدہ 40روزہ مہلت میں طالبان کو‘ ایک بہت بڑے منصوبے کے آغاز کا موقع مل گیا۔
نوٹ:- تصحیح کی عادت ہونے لگی ہے۔ آپ بھی کوشش کریں۔ آج کی تصحیح یہ ہے کہ 3جی اور 4جی کی نیلامی پر متوقع آمدنی سے 3 ارب نہیں 300 ارب ‘ کم رقم ملی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved