تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     09-05-2014

کپتان کا چھکّا

ایک بات مگر یاد رہے کہ خدا کے ہاں دیر ہے ، اندھیر نہیں ۔ کوئی سی قوم ،کوئی بھی سرزمین ہو ، شعبدہ بازی کی سیاست ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتی ۔ فرمانِ رسولؐ یہ ہے :الصدق ینجی و الکذب یھلک۔ سچ نجات دیتا اور جھوٹ برباد کرتاہے ۔ 
یہ ہوتی ہے اپوزیشن۔ تحریکِ انصاف کا احتجاج برپا ہونے سے پہلے ہی ایک بڑا مطالبہ مان لیا گیا۔ وزیراعظم کو اعلان کرنا پڑا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ چھ سات گھنٹے سے زیادہ نہ ہوگی۔ میاں محمد نواز شریف نے بھی دبائو ڈالا ہوتا تو زرداری صاحب کا دور مختلف ہوتا۔ وہ ''نظام‘‘ بچانے کی کوشش کرتے رہے ، جو افتادگانِ خاک کے لہو پہ پل رہا تھا اور جیسا کہ ثابت ہوا ، درحقیقت کوئی خطرہ اسے لاحق نہ تھا۔ کپتان کے سامنے اب ایک اور مرحلہ ہے ۔ کیا وہ ایک ایسے الیکشن کمیشن کی تشکیل ممکن بنا سکتے ہیں ، جو شفّاف انتخاب کی ضمانت دے ۔ اس سے پہلے مگر ایک اور گزارش!
ایک صاحب نے لکھا ہے : ایک ایک کر کے تحریکِ انصاف اپنے ترجمانوں سے محروم ہوتی گئی ۔ ماضی کو بدلا نہیں جا سکتا۔ہاں ! سبق ضرور سیکھنا چاہیے ۔ بے شک تحریکِ انصاف کی حمایت میں ، حدود سے اس ناچیز نے تجاوز کیا اور اس کی سزا پائی ۔ اس کا ترجمان مگر میں کبھی نہ تھا۔ دہشت گردی پر کپتان سے ڈٹ کر اختلاف کیا اور اس وقت ، جب یہ بحث عروج پر تھی۔ دو مختلف چینلوں پر ، روبرو اس سے مباحثہ ہوا۔ شوکت خانم ہستپال میں بھارتی اداکاروں کو مدعو کرنے پر اس قدر سخت کالم میں نے لکھا کہ وہ بھونچکا رہ گیا۔ کبھی میں نے اسے ایک پورا سیاستدان تسلیم نہ کیامگر ایک منتظم۔ ہمیشہ کہا کہ اس کے مشیر ناقص ہیں اور حکمتِ عملی بھی۔ ترجمانوں کو سب جانتے ہیں ۔یہ ناچیز خطاکار ہے اور بہت سی غلطیاں زندگی میں اس سے سرزد ہوئیں ؛تاہم اس کا ایمان ہے کہ عزت، رزق، موت و حیات اور ناکامی و کامرانی اس کے ہاتھ میں ہے ، جس نے انسانوں کو پیدا کیا۔ جس نے تقدیریں رقم کیں اور انہیں بدل بھی دیتاہے... زیادہ حدّ ادب!
بجلی پر وزیراعظم قوم کو صبر کی تلقین کر تے رہے تاآنکہ کپتان اٹھ کھڑا ہوا۔ الیکشن کے ہنگام تو یہ ارشاد کیا تھا کہ ہر چیز کی ہم منصوبہ بندی کر چکے اور اوّل دن سے بہتری کا آغاز ہو جائے گا۔ اقتدار ملا تو بالآخر یہ کہا کہ حالات کی سنگینی کا انہیں اندازہ ہی نہ تھا۔ سبحان اللہ!56فیصد آبادی پہ اقتدار، سیاست میں ربع صدی کا تجربہ اور دعوے پہ دعویٰ مگر اندازہ ہی نہ تھا۔ اگر نہیں تھا تو میاں محمدشہباز شریف کس برتے پر یہ اعلان فرمایا کرتے کہ بجلی کا بحران چھ ماہ میں حل کر دیا جائے گا ؟ کہنے کو تو خیر یہ بھی کہا کہ صدر زرداری کو وہ سڑکوں پر گھسیٹیں گے ۔ پھر پتہ یہ چلا کہ دونوں میں مکمل مفاہمت ہے ۔ الیکشن کمیشن خفیہ سمجھوتے سے بنا۔ پنجاب کے نگران وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب اتفاقِ رائے سے ہوا ، جس پر پینتیس پنکچر لگانے کا الزام ہے ۔ جو بیک وقت ایک ریاستی ادارے کا سربراہ اور ایک چینل کا ''غیر جانبدار‘‘مبصّر ہے ۔ یہ بھی طے شدہ کہ سابق حکمران خاندان کا احتساب ہرگز نہ ہوگا۔ ہو بھی کیسے سکتا ہے ؟ آج زرداریوں کا ہوا تو کل شریفوں کا ہوگا۔ 
پہاڑ سی غلطیاں کپتان نے کی ہیں ۔ پارٹی فین کلب اور ہجوم ہی رہی ، جماعت نہ بن سکی۔ کارکنوں کی تربیت کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہ گیا ؛حتیٰ کہ الیکشن کے بعد بھی ۔ مشیر اب بھی ناکردہ کاراور خود غرض ۔ جن لوگوں نے پارٹی تباہ کی ؛ حتیٰ کہ ٹکٹ بیچ کر بدنام کر دی، آج بھی فیصلہ کن مناصب پر وہ برقرار ہیں ۔ بے وقت الیکشن کرائے اور ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہ تھا۔ پورے کا پورا انتخابی سال ہی ضائع کر دیا۔ سپریم کورٹ نے سمندر پارپاکستانیوں کو حقِ رائے دہی عطا کیا ۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے بہت زیادہ تگ و دو درکار نہ تھی مگر وہ زعم کا شکار رہا کہ اس کی اکثریت ویسے ہی بہت زیادہ ہے ۔ بروقت اسے بتا دیا تھا کہ انکل سام اور بعض عرب ممالک کس کی سرپرستی پر تلے ہیں ۔ بالآخر حالات اس قدر بگڑے کہ فوجی قیادت لا تعلق ہو گئی اور وہی تھی ، جو دھاندلی روک سکتی۔ فوج نے اس کی مدد ہرگز نہ کی ۔ اس نے مگر جنرل پاشا کی بے جا ستائش کی تھی اور اردگرد جاسوس تھے ؛حتیٰ کہ صاحبِ تدبیر چوہدری نثار علی خاں اور ان کے ساتھیوں نے بساط الٹا دی ۔ پروپیگنڈے کے فن میں نون لیگ کا کوئی ثانی نہیں ۔ انتیس برس کی سرمایہ کاری ہے اور جاری ہے ۔ خود تحریکِ انصاف کا میڈیا ناکردہ کار۔ کئی بار مشورہ دیا کہ اپنے لوگوں کی تربیت کا بندوبست کرو مگر بے سود ؛حتیٰ کہ وہ دن آگیا ، جب خدا حافظ کہنا پڑا۔ اس کا مطلب مگر یہ کیسے ہو گیا کہ وہ ڈھنگ کا کام کرے تو بھی داد نہ دی جائے ۔ اس کا موقف درست بھی ہوتو لازماً مخالفت ہی کی جائے ؟
دھاندلی ہوئی ہے اور خوب دھاندلی ۔ 35نہیں ، بہت سے پنکچر لگائے گئے ۔ جمہوریت کو پائیدار بنیادوں پر استوارکرنا ہے تو یہ سلسلہ اب ختم ہو نا چاہیے ۔ سول ادارے مضبوط بنیادوں پر قائم ہونے چاہئیں اور ان میں اہم ترین الیکشن کمیشن ہے۔ نواز شریف کے حامی کالم نویسوں میں سے ایک نے ، جو اب مشیر بن چکا ، تبھی لکھا تھاکہ اصل اپوزیشن لیڈر کپتان ہوگا ۔وہی ہے اور گزرے ہوئے دس بارہ دنوں میں اس کی قبولیت بڑھی ہے ۔ 
حکمت سے البتہ اس پارٹی کو بیر ہے ۔ مثلاً سبکدوش چیف جسٹس سے اگر کوئی شکایت تھی بھی تو ایک سے زائد محاذ کھولنے کی کیا ضرورت تھی ؟ پھر یہ کہ جتنا گلہ تھا، اتنا ہی کیا ہوتا۔ مبالغہ آرائی کیوں ؟ ایک پورا سال ضائع کر دیا۔ شواہد جمع کیے ہوتے ۔ مسئلہ مگر اس جماعت کا یہ ہے کہ کارکن غیر تربیت یافتہ اور اکثر لیڈر ہیجان کا شکار۔ عمران خان سیاسی حرکیات کا آدمی نہیں ۔ ایک صورت غالباً یہ ہو سکتی ہے کہ وہ سیاست کا فہم رکھنے والے چند نائبین پر مشتمل مشاورتی کمیٹی قائم کرے اور ہر روز ان سے بات کیا کرے ۔ اپنے کارڈ اگر وہ ڈھنگ سے کھیلے تو الیکشن کے باب میں تمام تر حقائق چند ماہ میں واضح ہو جائیں گے ، جن کی بنیاد پر نقائص سے پاک الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام تشکیل دیا جا سکتاہے ۔ دھاندلی اگر نہ تھی تو نادرا کا چیئرمین ایسے پراسرار انداز میں کیوں برطرف ہوا ؟ چڑیا والے کی سرپرستی کیوں جاری ہے ؟ 
دکھے ہوئے دل کے جاوید ہاشمی لاکھ کہیں کہ وسط مدّتی الیکشن وہ نہیں چاہتے ، سیاست کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں ۔ پورے کا پورا انتخابی عمل ہی مشکوک ثابت ہو گیا تو پھر کیا ہوگا؟ 
80فیصد پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹ مقرر نہ کرنا تحریکِ انصاف کی اپنی خطا تھی ۔ بدترین امیدواروں کا انتخاب بھی ۔ اس کے باوجود اگر شفاف الیکشن ہوتے تو نون لیگ اور تحریکِ انصاف کی سیٹوں میں پندرہ بیس سے زیادہ کا فرق ہرگز نہ ہوتا ۔ اندازہ یہ ہے کہ قاف لیگ کی بھی کم از کم پانچ سیٹیں ہتھیائی گئیں ۔ وسط مدّتی الیکشن کو چھوڑیے ، ایک باوقار اور آزاد الیکشن کمیشن ہی حاصل کر لیا جائے تو یہ ایک تاریخ ساز کامیابی ہوگی۔ نون لیگ کا مزاج مگر یہ نہیں ۔ آسانی سے وہ مانا نہیں کرتے ۔ تحریک شاید دراز ہو جائے۔ 
اپنی بہترین معلومات کے مطابق میں یہ کہہ سکتا ہوں : جھوٹ ہے ، سفید جھوٹ کہ کپتان کو عسکری قیادت کی تائید حاصل ہے مگر نون لیگ کی پروپیگنڈہ مشینری ؟ مگر گمان پہ انحصار کرنے والے ؟ الحذر ، الحذر!
ایک بات مگر یاد رہے کہ خدا کے ہاں دیر ہے ، اندھیر نہیں ۔ کوئی سی قوم ،کوئی بھی سرزمین ہو ، شعبدہ بازی کی سیاست ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتی ۔ فرمانِ رسولؐ یہ ہے :الصدق ینجی و الکذب یھلک۔ سچ نجات دیتا اور جھوٹ برباد کرتاہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved