تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     09-05-2014

گندم کا گناہ

امریکی سائنسدانوں کو اب پتہ چلا ہے کہ حضرت آدم گندم کھانے پر جنت سے نکالے گئے تھے ۔انہوں نے گندم کے علاوہ جو اور رائی کو بھی انسان کی خوراک سے خارج کر دیا ہے ۔فوڈ سٹوروں کی کچھ الماریوں پر Gluten Freeکا ظہور اسی طبی رائے کا شا خسانہ ہے ۔ڈاکٹر معدے کے امراض کے بعض مریضوں کو ہدایت کر رہے ہیں کہ وہ گلوٹن سے پاک غذا کھائیں ۔ان الماریوں کو کھنگالنے والے مریضوں پر یہ انکشاف ہو رہا ہے کہ بریڈ یا روٹی، ان تین اناجوں کے بغیر بنائی ہی نہیں جا سکتی ۔ وہ وہاں چپاتی نما روٹی دیکھتے ہیں جو کھانے میں بد مزہ اور چبانے میں محال ہے ۔اس میں ایک سو حرارے موجود ہیں مگر ہم میں سے کتنے ،کھاتے وقت حراروں کا حساب رکھتے ہیں ؟علامہ محمد اقبال سے پوچھا گیا ،علامہ صاحب ! آ پ کو آلو گوشت کا سالن بہت پسند ہے؟ انہوں نے جواب دیا : پسند و ناپسند کی بات نہیں۔علی بخش کو آلو گوشت کے سوا کچھ پکانا ہی نہیں آتا ۔سنتے ہیں کہ آلو بھی گلوٹن سے پاک ہے اور چاول بھی جو آدھی سے زیادہ دنیا میں گندم کا حریف ہے مگر خوراک کے ماہرین سفید کی بجائے براؤن رائس کھانے کی تلقین کر رہے ہیں ۔
بر صغیر میں روٹی اس کثرت سے کھائی جاتی ہے کہ وہ صبح ، دوپہر اور رات کے کھانوں کی علامت بن گئی ہے ،لوگ مہمانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ روٹی (یعنی کھانا )کھا کر جائیے گا ۔آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر کو شہنشاہیت سے واقفیت شاید کم تھی مگر خوراک کے اسرار و رموز از بر تھے ، اسی لئے انہوں نے میرزا اسد اللہ خاں غالب کو تحفے میں بیسنی روٹی بھجوائی تھی ۔ان کے آبا میں سے ایک، شاہجہاں نے آگرہ کے قلعے میں قید ہونے سے پہلے اپنے لئے جو ایک اناج منتخب کیا وہ چنا تھا ،جس سے کئی نمکین اور میٹھے پکوان بنائے جا سکتے ہیں ۔ امریکی سائنسدان چنے کو بھی گلوٹن فری انا جوں میں شمار کرتے ہیں ۔ غا لب نے بادشاہ کے تحفے کا ذکر ایک قطعے میں کیا ہے ۔ ؎
نہ پوچھ اس کی حقیقت، حضور والا نے 
مجھے جو بھیجی ہے، بیسن کی روغنی روٹی
نہ کھاتے گیہوں، نکلتے نہ خلد سے باہر 
جو کھاتے حضرت آدم یہ بیسنی روٹی
گلوٹن فری سے پہلے ہم نے Organic کے الفاظ دیکھے جو ان اشیائے خوردنی کے لئے استعمال کئے گئے تھے جو کیمیکلز یا پیدا وار بڑھا نے کی ان دوسری تکنیکوں کی امداد سے اگائی یا محفوظ کی جاتی تھیں اور جو گزشتہ صدی میں سا ئنسی تحقیق و ایجاد کا ثمر تھیں ۔ پاکستان میں اب بھی کاشتکار، یوریا کھاد کی کمیابی پر وا ویلا کرتے سنائی دیتے ہیں ۔امریکہ میں جینیاتی طریقے سے اگا ئی ہوئی فصلیں، صارفین کے سر منڈھی جا رہی ہیں کیونکہ وہ زیادہ وقت تک الماریوں میں رکھی جا سکتی ہیں اور بکثرت پیدا ہوتی ہیں ۔ خوراک کی بعض اقسام میں جوہری توانائی سے بیکٹیریافنا کیا جاتا ہے ۔فوڈ سٹوروں کی کم از کم دو زنجیروں (Chains)نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان طریقوں سے پیدا یا محفوظ کردہ اجناس فروخت نہیں کریں گی ۔ اس سے پہلے ہم نے کئی ایسی زنجیروں کو کاروبار سے باہر جاتے اور زیادہ صحت بخش اشیا فروخت کرنے والے سٹو روں کو اندر آتے دیکھا ہے ۔
پسندیدہ انڈے کے ڈبے پر نظر ڈالیے ۔اس پر واضح الفاظ میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ یہ پنجرے سے آزاد گھومنے پھرنے والی مرغیوں کے انڈے ہیں جو جراثیم کش ادویہ یعنی اینٹی بائیوٹکس سے پاک سو فیصد سبزی پر پلی ہیں ۔یہ انڈے، پرانی طرز کے انڈوں سے الگ رکھے جاتے ہیں اور زیادہ قیمت پر فروخت ہوتے ہیں ۔ ہم مرغی اور انڈے خریدتے وقت اس فرق کو کہاں ملحوظ رکھتے ہیں ؟سودا طے ہونے پر دکاندار کو مرغی کی شہ رگ پر چھری پھیر کر اسے کوڑے سے بھرے ڈرم میںپھینکتے دیکھا ہے ،امریکہ میں یہ منظر دکھائی نہیں دیتا ۔ علامہ حسین میر کاشمیری کا کہنا تھا:مرغ کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ۔ہر چند یہاں حلال گوشت کی دکانیں کھل گئی ہیں جن کی الماریوں پر کسی مذہبی شخصیت کی جاری کردہ مطبوعہ سند دکھائی دیتی ہے ۔ مذبح خانے میں کیا ہوتا ہے ؟ اس کا کسی گاہک کو پتہ نہیں ۔البتہ سنتے ہیں کہ وہاں لاؤڈ سپیکر پر بسم اللہ کی صدائیں آتی رہتی ہیں اور جانور کٹتے رہتے ہیں ۔
گھرہستی عورتوں نے سنا ہے کہ باجرا اور چنے میں گلوٹن نہیں ہے ،اس لئے وہ ان انا جوں سے روٹی بنا رہی ہیں ۔ بیسنی یا مسّی روٹی تو ہمارے باورچی خانوں میں اکثر بنتی رہی ہے مگر باجرے کے آٹے سے بچپن کا ایک ماجرا یاد آ گیا ۔ جنگ عظیم کے دوران تمام اشیا ئے خوردنی کی قلت ہو گئی تھی ۔ پہلے گندم اور پھر مکئی کا آٹا کمیاب ہوا تو دیہاتیوں نے باجرا کھا نا شروع کر دیا ۔باجرے کی روٹی نگلنے میں دشواری ہوتی تھی ۔ گندم میں گلوٹن دریافت ہونے پر باجرا، فیشن میں آ رہا ہے اور خواتین فون کرکے شوہروں سے پوچھ رہی ہیں ۔'' باجرے کی روٹی کے ساتھ کیا پسند کر یں گے ،روپینی ( سرسوں) کا ساگ یا گوبھی گوشت؟‘‘
ایسا لگتا ہے کہ صنعت کی مچھلی پتھر چاٹ کر واپس آ رہی ہے۔سائنسدانوں نے خربوزے کی شیلف لائف میں اضافہ کر دیا ،سیب کو مر مر کی طرح سخت بنا ڈالا اورچکن کو ہوا بند کرکے دیکھ لیا ۔اب سارا زور آرگینک اور نیچرل پر ہے ۔ سرخ گوشت بالخصوص بڑے ، بھیڑ اور بکری کے گوشت سے پرہیز اور پھل اور سبزیاں زیادہ کھانے کی تلقین کی جاتی ہے۔پرانے گروسری سٹوروں میں اصلی اور فطری اشیا کی ریل پیل ہے اور نئے آرگینک سٹور کھل رہے ہیں ۔ سائنسدان شاید بھول رہے تھے کہ قدرت نے انسان کو لاحق ہونے والی بیماریوں کے علاج کے لئے پھل، سبزیاں اور جڑی بوٹیاں ساتھ ہی پیدا کر دی تھیں ۔ 
میونسپل واٹر کے مصفا اور پاکیزہ ہونے کی سند اور اس حقیقت سے قطع نظر کہ سرجن اسی پانی سے ہاتھ دھو کر آپریشن کرتا ہے لوگ ، بکثرت بوتل کا پانی پی رہے ہیں ۔بوتلوں میں چشمے کا یا صاف شدہ پانی بھرنے کی صنعت اب اربوں ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے ۔بوتل کے پانی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا اور بوتل کو منہ سے لگانا آسان سمجھا گیا ہے ۔ ابلا ہوا دودھ (Pasteurized)ایک صدی سے مقبول تھا مگر اب کچے (Raw )دودھ کی لابی زور پکڑ رہی ہے اور یہ ماضی کی مبادیات کی جانب لوٹنے کی تحریک کا جز معلوم ہوتی ہے ۔ پاکستان میں اب بھی زیادہ لوگ گوالے سے تازہ دودھ یعنی کچا دودھ خریدنے کے عادی ہیں ۔بعض '' گجر‘‘ تو اپنی بھینسیں ہانک کر گھر گھر جاتے اور تازہ ترین دودھ گاہکوں کو پہنچاتے ہیں ۔ صحت عامہ کے اہلکار بدستور عوام کو خبردار کر رہے ہیں کہ ایسا دودھ پینے سے بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں ۔انسانی صحت کا خاص خیال رکھنے والے امریکی سٹور اب بھی ابلا ہوا دودھ فروخت کرتے ہیں مگر خریداروں سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ یہ ان گائیوں کا دودھ ہے جنہیں مصنوعی طریقے سے بنائے جانے والے نشو و نما کے ہارمون نہیں دیئے گئے ۔ با دام کا دودھ بیچنے والی ایک کمپنی نے تو کمال کر دیا ہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ دودھ ہر قسم کے دودھ ،دہی، سوئے ،لیک ٹوس، کولیسٹرول، مونگ پھلی، انڈہ، چربی، ایم ایس جی اور گلوٹن سے پاک ہے ۔ چربی سے پرہیز کرنے والے صارفین نے فیٹ فری، ایک فیصد یا دو فیصد دودھ کی سرپرستی شروع کر دی ہے ۔ ایم ایس جی نمکیات میں سے ہے جو کھانے کا مزہ دوچند کرتا ہے مگر الکوحل اور نکوٹین سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا ہے ، اس لئے بیشتر ریستوران اسے استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں ۔بہت سا گوشت آسٹریلیا ،چین اور دوسرے ملکوں سے درآمد ہوتا ہے ۔ اب ایسے گوشت کے لفافے پر سرچشمے کاا ندراج کرنے کی بحث زوروں پر ہے ۔مچھلی کی کئی اقسام میں پارہ دریافت ہوا ہے۔ اس لئے صارفین کو بتایا گیا ہے کہ وہ خریدتے وقت یہ دیکھیں کہ مچھلی کسی ایسے سمندر سے تو نہیں آئی جو آلودہ ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved