دیوارِ برلن کے انہدام، سوویت یونین کے خاتمے اور چینی افسر شاہی کی بڑے پیمانے پر زوال پزیری کے بعد وسیع پیمانے پر مارکسزم کا تمسخر اڑایا جانے لگا ہے ۔اس کے خلاف بہت پروپیگنڈا کیا گیا۔نہ صرف سامراجی ماہرین، دانشور اور سیاست دان ،سوشلزم اور کمیونزم کے خلاف زہر اگل رہے ہیں بلکہ ماسکو اور بیجنگ کے سابق کاسہ لیس اور پیروکار بھی یہی راگ الاپ رہے ہیں۔یہ سابق بائیں بازو کے 'کمیونسٹ‘اور سوشلسٹ‘ ان بڑے تاریخی واقعات کو اپنی غداریوں، جہالت اور ننگی موقع پرستی کی ،توجیہ کرتے ہوئے سرمایہ داری کی لوٹ مار میں شامل ہو گئے اور اس استحصالی اور غیر انسانی نظام کے آگے جھک گئے۔ جس نظریے پر وہ کبھی یقین رکھتے تھے ، اب اسی کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کو پھیلانے کے لیے وہ سرمایہ داروں اور سامراجیوں کے آلۂ کار بن گئے اور اس کے غلط اور تاریخی طور پر ناکام ہونے کا 'اعترافِ جرم ‘کرنے لگے۔
مارکس، اینگلز ، لینن اور ٹراٹسکی کو یکسر غلط 'ثابت‘ کیا گیا اور ان کی 'غلطیوں‘ کو جرائم بنا کر پیش کیا گیا۔روس اور چین میں سٹالنسٹ افسر شاہی کے تمام جرائم، بھیانک غلطیوں اور جبر کا دوش ،لینن اور ٹراٹسکی کو دیا گیا۔مارکسزم کو متروک اور غیر ضروری نظریہ قرار دے دیا گیا۔یہاں تک کہ انتہائی معروف دانشوروں نے اپنے انجان ہونے کا اظہار 'سوشلزم کی ناکامی‘ اور 'تاریخ کے خاتمے‘ کی رٹ لگا کر کیا۔محنت کش طبقے کے خلاف جارحانہ جنگ کی گئی اورٹریکل ڈائون معاشیات اور نیو لبرل سرمایہ داری ،نام نہاد دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کی معاشی پالیسیاں بن گئیں؛تاہم یہ زہریلا جشن زیادہ دیر نہیں چل پایا۔1990ء کی دہائی سے ہی سرمایہ داری بحرانوں اور کساد بازاریوں کے جھٹکوں سے لرزنے لگی۔روس، مشرقی یورپ اور نام نہاد 'سوشلسٹ‘ بلاک کے دیگر ممالک کی منڈیوں کے کھلنے سے سرمایہ داری کی نمو کو کچھ سہارا ملا۔تیزی سے امیر ہوتی چینی افسر شاہی کے سابق کمیونسٹوں کے ہاتھوں چین کی سستی اور ہنر مند لیبر کو کارپوریٹ سرمایہ داروں کے رحم کرم پر چھوڑ دینے سے پیداواری شعبے کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں میں مزید اضافہ ہوا۔ان ممالک کو جو کہ در حقیقت مطلق العنان حکومتوں اور محنت کشوں کی جمہوریت سے عاری سوشلزم کی مسخ شدہ شکل تھے ، سابق سٹالنسٹوں نے سرمایہ داری کو نئی زندگی بخشی۔
لیکن 1974ء کے تاریخی بحران کے بعد سرمایہ داری کبھی بھی صحت مندانہ طور پر ترقی نہیں کر سکی۔اس کی بنیاد قرضوں اور کریڈٹ پر تھی۔اس سے نظام کھوکھلا ہوتا گیا اور قرضے جمع ہوتے گئے۔گنجائش سے زیادہ پھولا ہوا یہ بلبلہ 2007-08ء میں پھٹ گیا جس نے اس نظام کی تاریخ کے سب بڑے معاشی انہدام کو جنم دیا۔امریکہ، یورپ اور دیگر جدید سرمایہ دارانہ ممالک میں اب تک مکمل بحالی نہیں ہو سکی اور ان کے اپنے ماہرین کے مطابق1974ء کی سطح پر مکمل بحالی مستقبل میں ممکن نہیں۔جس بحالی کو پیش کیا جا رہا ہے وہ غیر مستحکم، بیمار، ناتواں اورجدید سرمایہ دارانہ دنیاکے عوام کی وسیع اکثریت کے لیے روزگار اور راحت سے عاری ہے۔برازیل، روس، چین ، بھارت اور جنوبی افریقہ کی نام نہاد ابھرتی ہوئی معیشتیں، جن کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ عالمی سرمایہ داری کو ترقی کی راہ پر ڈالیں گی، توڑ پھوڑ کا شکار ہیں اور ان کی شرحِ نمومیں2008ء کے بعد ڈرامائی انداز میں کمی واقع ہوئی ہے۔
دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد کے عرصے میں عدم مساوات میں اتنا اضافہ ہوا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔کرہِ ارض کی دولت کا نصف سے زیادہ حصہ انہی لوگوں کے کنٹرول میں ہے۔دنیا کے بڑے حصوں میں بے حد غربت پائی جاتی ہے ۔ ذلت، غربت اور محرومی کی گہری کھائی میں رہنے پر مجبور لوگوں کی تعداد پہلے کبھی بھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔بحران کے صدمے کے بعد2011ء میں عوامی تحریکیں پھٹنا شروع ہوئیں اور وہ کسی طور پر بھی گمنامی میں زائل نہیں ہو رہیں۔بلکہ ایک کے بعد دوسرے ملک میں تحریکوں کے نشیب و فراز کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جو قومی سرحدوںاور براعظموں کو عبور کرتا جا رہا ہے۔ پچھلے چند برسوں کے دوران بالخصوص نوجوانوں میں مارکسزم کی جانب ایک نئی دلچسپی اور کشش پیدا ہوئی ہے۔ چند برس قبل دنیا کے سب سے بڑے کتاب میلوں میں سے ایک فرینکفرٹ بک فیئرمیں مارکس کی ''سرمایہ ‘‘(ڈاس کیپیٹل )سب سے زیادہ بکنے والی کتا بوں میں تھی۔یہ کوئی حادثہ نہیں کہ متعدد جائزوں میں، جن میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر بی بی سی کی جانب سے کیا گیا سروے ہے ، مارکس کو گزشتہ ہزار سال کی سب سے زیادہ قابلِ تعریف شخصیت قرار دیا گیا۔
موجودہ عالمی عدم مساوات کے متعلق فرانسیسی معیشت دان تھامس پکٹی کی تصنیف '' اکیسویں صدی میں سرمایہ‘‘ (اس برس مارچ میں انگریزی ترجمہ آنے کے بعد )سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہے۔ یہ کتاب راتوں رات بہت مشہور ہوئی اور نہ صرف یورپ اور دیگر جگہوں پر بلکہ امریکہ میں بھی یہ کتاب ایمیزون (دنیا میں کتابوں کا سب سے بڑا بک سیلر) کی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب بن چکی ہے ۔جن میں افسانے اور ناول وغیرہ بھی شامل ہیں۔سات سو صفحوں کی اس کتاب کے کئی ایڈیشن چند دنوں میں ہاتھوں ہاتھ نکل گئے ۔سرمایہ داری کا پرانا شاطر جریدہ اکانومسٹ اپنے تازہ شمارے کے اداریے میں لکھتا ہے کہ ، ''جب مارکس کی کتاب ''سرمایہ‘‘ کا پہلا جرمن ایڈیشن 1867ء میں شائع ہوا تو پہلے1000نسخے فروخت ہونے میں پانچ برس لگے۔دو دہائیوں تک اس کا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوسکا۔امیر اور غریب کے فرق کو یورپی پاگل پن قرار دے کر کئی برسوں تک مسترد کر دینے کے بعد، وال سٹریٹ کی زیادتیوں کا شکار ہونے والے امریکی، ایک دم سے امیروں اور دولت کی از سرِ نو تقسیم کی بات کر رہے ہیں؛چنانچہ ایک ایسی کتاب میں دلچسپی پیدا ہوئی ہے جس میں دولت کے بڑھتے ہوئے ارتکاز کو سرمایہ داری کی خصلت اور دولت پر عالم گیر ٹیکس کو ایک ترقی پسندانہ حل قرار دیا گیا ہے۔‘‘
تاہم مارکس کی 'سرمایہ‘ کی تین جلدیں محض نا برابری کے متعلق نہیں ہیں بلکہ ان میںباریک بینی ، وضاحت اور تحقیق سے ثابت کیاگیا ہے کہ سماجی و معاشی نظام کے طور پر سرمایہ داری کے ابھار، اس کے استحصال کے طریقۂ کار، اس کے نتیجے میں جنم لینے والی بیگانگی اور طبقاتی جدوجہد ہی سوشلسٹ انقلاب پر منتج ہو کر اس جابر اور تباہ کن نظام سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔یہ کتاب سرمایہ داری کے بحرانوں ، اس کے ساتھ اس کے عروج و زوال کی وجوہ اور حرکیات کا ایک سائنسی تجزیہ ہے۔مارکس نے جدلیاتی مادیت کا فلسفہ بھی تشکیل دیا جو انسانی ذہن کو تجزیے، نتائج اور مستقبل کے تناظر بنانے کے لیے درست طریقہ فراہم کرتا ہے۔اس عظیم کتاب میں مارکس نے سرمایہ داری کے سامراجیت میں تبدیل ہو جانے، دولت کے چند میں ہاتھوں میں بڑھتے ہوئے ارتکاز کے ساتھ نسلِ انسانی کی وسیع اکثریت کے محرومی اور اذیت میں مبتلا ہونے، اور آخر میں سرمایہ داری کی ترقی کے انداز کی پیشین گوئی کی ہے جس سے قومی ریاست متروک اور قومی سرحدیں غیر ضروری ہو جائیں گی جس کی وجہ سرمایہ کا بے قابو بہائو ہے۔مسٹر پکٹی کی کتاب کسی بھی حوالے سے مارکس کی عظیم تحریر کے قریب بھی نہیں ہے۔
اس عظیم کتاب '' سرمایہ ‘‘کی آخری جلد مارکس کی وفات کے بعد فریڈرک اینگلز نے مکمل کی۔ اس کی پیشین گوئیاں 150برس قبل کی نسبت آج کہیں زیادہ درست ہیں۔تیزی سے رونما ہونے والے تاریخی واقعات اور عملوں کے باعث تمام نئی معاشی تھیوریاں اور فلسفیانہ 'ایجادات‘ مثلا 'پوسٹ ماڈرن ازم‘ وغیرہ کچرا اور بیہودہ ثابت ہو رہے ہیں۔آج اجارہ داریوں اور کارپوریٹ سرمائے کی بے پناہ طاقت اس کرہ ارض پر مکمل گرفت جمائے ہوئے ہے۔بے تحاشا پیسے، بڑے پیمانے کی پیداوار اور کاروبار، اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھائو کرنے کی صلاحیت اور یہاں تک کہ حکومتی پالیسیوں کو متعین کرنے کی طاقت کی بنیاد پر ، وہ دنیا کے حقیقی مالکان ہیں۔نوبل انعام یافتہ پال کرگ مین، بل موئرز اور کئی دوسرے چوٹی کے بورژوا معیشت دان اب سرمایہ داری کے مستقبل کے بارے میں متزلزل اور مایوس ہیں۔اس کتاب کی جانب نفرت اورزہریلی تنقید واضح محسوس کی جاسکتی ہے، جن کا حقیقی ہدف مارکسزم ہے۔لیکن یہ حملے در اصل اس حقیقت سے پیدا ہونے والی جھنجھلاہٹ کی علامت ہیں کہ، انقلابی مارکسزم کا ایک فیصلہ کن اور شاندار نیا جنم اس گلے سڑے اور متروک نظام سے ٹکرانے والا ہے جوسماج کو ترقی دینے میں ناکام اور انسانیت کوبربریت کی تباہی میں دھکیلتا چلا جا رہا ہے۔1848ء میں 'کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ کے آغاز میں مارکس اور اینگلز نے لکھا کہ ''یورپ پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے، سوشلزم کا بھوت‘‘۔آج کے بدلتے ہوئے عہد میں 'مارکسزم کا بھوت‘ ساری دنیا پر منڈلانا شروع ہو گیا ہے۔