تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     10-05-2014

محفلیں

قبائلیت اور سفاکیت کے دور سے پہلے کے پاکستان میں نئی قوم کی تعمیر و تشکیل کے لیے بہت جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ بڑی بڑی گرائونڈوں سے لے کر گلی کوچوں کے تھڑوں تک‘ اجتماعی معاملات پر باتیں ہوا کرتیں۔ تحریک آزادی کی کہانیاں‘ پُرجوش موضوع ہوا کرتا۔ ایک طرف ان کے تذکرے ہوتے‘ جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور دوسری طرف ان کے‘ جو معاشرے میں فلاح و بہبود کے کاموں میں نمایاں کارکردگی دکھاتے۔ میری زندگی کا ابتدائی دور جھنگ شہر میں گزرا ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں شام کے وقت جو مجالس جمائی جاتیں‘ مجھے ان کی تعداد بھول گئی۔ چند محفلیں یاد ہیں۔ ایک حکیم صاحب تھے۔ نام یاد نہیں‘ تخلص مضطر۔ شاعری فرماتے۔ شام کو مغرب سے پہلے وہ ہائی سکول سے تانگہ اڈے والی سڑک پر‘ اپنے مطب کے سامنے کرسیاں لگاتے۔ ان کی محفل میں ہر موضوع پر گفتگو رہتی۔ تازہ خبریں۔ صحت کے مسائل۔ شعر و شاعری اور محلے کے اہم واقعات‘ جن میں اس نوجوان کا ذکر بھی ہوتا‘ جس کی تازہ تازہ نوکری لگتی۔ ان بچوں کے نام بھی لیے جاتے‘ جو امتحانوں میں اعلیٰ پوزیشنیں لیتے۔ ضرورت مندوں کے بھی تذکرے ہوتے۔ یہ بھی سوچا جاتا کہ کس کی مدد کیسے کی جائے؟ اسی مقام سے ایک سڑک‘ محلے کے اندر جاتی تھی۔ اس پر سید ارشاد حسین شاہ کا ڈیرہ تھا۔ مذہبی آدمی تھے۔ شیعہ سنی کے بارے میں جو کچھ میں آج دیکھتا اور سنتا ہوں‘ میرے لیے انتہائی حیرت انگیز اور پریشان کن ہے۔ شاہ صاحب کٹر شیعہ تھے۔ اہل مجلس میں ہر مسلک کے لوگ شامل ہوا کرتے۔ پاکستان کی باتیں ہوتیں۔ جھنگ شہر اور ضلع میں سیاسی اتار چڑھائو کے تذکرے آتے۔ اس محفل میں سماجی خدمات کے موضوع پر زیادہ گفتگو ہوتی۔ شاہ جی خود غریب پرور اور انسان دوست شخصیت کے مالک تھے۔ حاضرین میں سے چند لوگ اپنے علم کے مطابق ضرورت مندوں کے نام بتاتے۔ شاہ جی ساتھ ساتھ اپنے ملازم کو وہ نام لکھوا دیتے۔ اگلے روز حاجت مند کے گھر کچھ نہ کچھ ضرور پہنچا دیا جاتا۔ 
تانگہ اڈے کے قریب ہی شیر افضل جعفری کا گھر تھا۔ ضلع کونسل جھنگ کے دفتر میں ملازم تھے۔ وہاں بھی شام کو ایک مجلس چلتی۔ جعفری صاحب شہری سیاست میں سرگرم حصہ لیا کرتے۔ کمیٹی ممبروں کو شہر کے مسائل بتا کر‘ حل کرنے کے مشورے دیتے۔ میونسپل کمیٹی کے الیکشن آتے تو وہ اپنی مرضی کے امیدوار کھڑے کرتے۔ ان کے لیے ووٹ مانگتے۔ پولنگ کے دن الیکشن کو بھول کر روزمرہ کے موضوعات پر آ جاتے۔ انہیں یہ جاننے کا تجسس تک نہ ہوتا تھا کہ کون امیدوار ہارا اور کون جیتا؟ اگلے دن جعفری صاحب کی محفل میں ہارنے جیتنے والے ایک ساتھ بیٹھے گپ شپ لگا رہے ہوتے۔ ضلع جگتی اہل جھنگ کی پسندیدہ تفریح تھی۔ ہر سطح پر اس کے مقابلے ہوا کرتے۔ محلے کی سطح پر۔ شہر کی سطح پر اور پھر ڈسٹرکٹ کونسل کے سالانہ میلے کی تقریبات میں ضلع کی سطح پر۔ یہ جگت بازی کا ایسا مقابلہ ہوا کرتا تھا‘ جو پھر کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ جھنگ میں شاید یہ روایت کہیں نہ کہیں موجود ہو۔ دوسرے شہروں میں جہاں بھی میں رہا‘ ضلع جگت کی محفل دیکھنے کو نہیں ملی۔ جعفری صاحب نے اردو شاعری میں پنجابی اور سرائیکی کے الفاظ انتہائی خوبصورتی سے استعمال کیے۔ وہ اردو غزل میں پنجابی کا لفظ اتنی خوبصورتی سے استعمال کرتے کہ اثر و معانی دوچند ہو جاتے۔ 
شہر کے دوسری طرف یعنی جامع مسجد اہل حدیث کے پاس‘ حافظ محمد یوسف کی محفل لگا کرتی۔ وہ جامع مسجد کے امام بھی تھے۔ حکمت کی دکان تھی۔ اب نئی آبادیوں میں ایسی دکانیں دکھائی نہیں دیتیں۔ حافظ صاحب کی دکان میں طرح طرح کی جڑی بوٹیاں سجی ہوتیں۔ یہ دیسی طریقہ علاج ہے۔ اسے طب یونانی بھی کہا جاتا ہے۔ میں نے اس طرز علاج میں استعمال ہونے والی بیشتر جڑی بوٹیاں دیکھی ہیں۔ مجھے تو سب کی سب اپنے برصغیر کی چیزیں لگیں۔ جڑی بوٹیوں کے معاملے میں برصغیر میں جو تنوع پایا جاتا ہے‘ اس کی مثال چین میں ملے تو ملے اور کہیں نہیں۔ اتفاق سے مجھے چینی حکما کے سٹور اور دکانیں دیکھنے کا بھی موقع ملا ہے۔ ہمارے حکما تو دوائوں کے جوہر نکال کر‘ گولیوں‘ مشروبوں‘ سفوف اور معجونوں کی صورت میں دیتے ہیں۔ چین والوں کے پاس گڑوے کی ساخت میں مٹی کا گول مٹول برتن رکھا ہوتا ہے۔ جڑوں کے ٹکڑے کئے ہوتے ہیں۔ جھاڑیاں اسی طرح پھولی اور پھیلی ہوئی۔ گڑوے کے نچلے حصے میں بیج اور پودوں پر لگے چھوٹے چھوٹے خشک کیے پھل رکھے جاتے ہیں اور باقی جگہ پر مٹھیاں بھر بھر کے بوٹیاں ٹھونس دی جاتی ہیں۔ یہ ایک خوراک ہوتی ہے۔ جسے گھر میں ابال کے‘ اس کا پانی پیا جاتا ہے۔ چینی حکیم کے مطب سے اگر کوئی ہفتے بھر کی دوا لے‘ تو اسے ایک بورے میں ڈال کر لانا پڑتا ہے۔ مجھے اس کا تجربہ یوں ہوا کہ جب میں چین گیا‘ تو چینی حکیموں کے پاس دمے کا علاج ڈھونڈتا ڈھونڈتا ایک معروف حکیم کے پاس جا پہنچا۔ مجھے اس نے 15 روز کی دوا دی۔ خریدے ہوئے تحائف حتیٰ کہ اپنے کپڑے اور ضرورت کی چیزیں بھی وہیں چھوڑیں‘ دوائوں کے بورے منت سماجت کر کے جہاز کے اندر رکھوائے۔ لگیج میں جمع کراتا‘ تو وطن آ کر ٹھیکرے ہی واپس ملتے۔ بات حافظ یوسف صاحب سے شروع ہوئی تھی۔ ہم چلتے چلتے چین جا پہنچے۔ برصغیر اور چین میں حکیموں کا کلچر کافی ملتا جلتا ہے۔ حکما صرف علاج نہیں کرتے تھے۔ ان کے پاس قلب و روح کی طراوت کا سامان بھی ہوا کرتا۔ قصے کہانیوں سے لے کر‘ حکمت و دانائی کے اقوال بھی سننے کو ملتے۔ ہنگامی علاج کے لیے آنے والے تو جلدی نکل جاتے۔ طویل علاج والوں کو طویل لیکچر بھی سننا پڑتے۔ حافظ یوسف کے مطب کے ساتھ ہی اندر ایک گلی میں جا کر صوفی شیر محمد کا مطب ہوا کرتا۔ یہ محمود شام کے والد تھے اور میرے والد سے‘ ان کی دوستی مشرقی پنجاب کے زمانے سے چلی آ رہی تھی۔ ان کے ہاں اصلی مریض کم ہی جایا کرتے۔ سیاست اور روحانیات کی باتیں زیادہ ہوتیں۔ ایک ڈیرہ نواب حبیب اللہ خان کا تھا۔ یہ سیال قبیلے کی سرکردہ شخصیت تھے۔ جھنگ کی پرانی سیاست میں سیال‘ بھروانے‘ شاہ جیونہ والے‘ رجوعہ والے اور کئی دیگر خاندانوں کا زور تھا۔ آج میں پڑھتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ جھنگ کی سیاست پر سید چھائے ہوئے تھے‘ جس کے ردعمل میں شیعہ سنی کشیدگی پیدا ہوئی۔ یہ تقسیم جنرل ضیا کے زمانے میں‘ سیاسی مقاصد کے تحت سرکاری سرپرستی میں‘ پروان چڑھائی گئی۔ حقیقت میں جھنگ کی سیاست فرقہ واریت پر مبنی نہیں تھی۔ انتخابی مہم میں تو فرقوں کا ذکر تک نہیں آتا تھا۔ کرنل عابد اور میجر مبارک حسین کے علاوہ‘ مجھے جھنگ کا کوئی قابل ذکر شیعہ سیاستدان یاد نہیں آ رہا۔ جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جانے والے بیشتر سنی تھے۔ نوابزادہ افتخار‘ شیخ سعید‘ حبیب اللہ خان‘ چنیوٹ کے مولانا محمد ذاکر‘ سب کے سب سنی تھے۔ جھنگ شہر اور جھنگ صدر میں‘ فرقہ ورانہ نفرت یا دوریاں دور دور تک نہیں تھیں۔ اگر کوئی تقسیم دکھائی دیتی‘ تو وہ صرف مہاجر اور مقامی کے درمیان ہوا کرتی تھی‘ جو ایک فطری امر تھا۔ یہ تقسیم بھی کسی فساد کا باعث نہیں بنتی تھی۔ لسانی اور تہذیبی فرق تھا‘ جو 50ء کے عشرے کے آخری حصے میں کم ہونا شروع ہو گیا تھا اور اب تو شاید ختم بھی ہو چکا ہو۔ 
محلے کی محفلیں گنوں‘ تو وہ بھی کم نہیں۔ ایک محفل چوہدری شیر محمد کے ڈیرے پہ جمتی۔ ایک خواجہ علی حسنین کے گھر۔ ایک چوہدری عنایت کے گھر اور ایک میرے کزن مولوی مہر دین کے گھر‘ جو لمبے چوڑے خاندان کے ساتھ ‘ بہت بڑی حویلی میں رہتے۔ تمام فیملی کا قیام پہلی منزل پر تھا اور گرائونڈ فلور مہمانوں کے لیے وقف رہتا‘ جبکہ ہال جیسے بڑے ڈرائنگ روم میں جلسہ نما محفل جمتی۔ یہاں کا موضوع بحث جھنگ شہر کی میونسپل کمیٹی کی سیاست ہوتی۔ میں نے چھوٹے سے شہر جھنگ کی چند محفلوں کا ذکر کیا ہے۔ ورنہ ہر محلے کی جدا جدا محفلیں ہوتیں۔ کچھ کے حاضرین صرف گلی محلے کے لوگ ہوتے۔ کچھ میں دوسرے گلی محلوں کے بھی آ جاتے اور کچھ محفلوں میں شہر بھر کے محفل باز جمع ہوتے۔ جھنگ صدر جو کہ بڑا شہر تھا‘ وہاں محفلوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ لاہور‘ لائل پور‘ منٹگمری اور راولپنڈی کی محفلوں میں شریک ہونے کے مواقع بھی ملے۔ وہی جا بجا محفلیں۔ وہی ڈیرے۔ وہی رات کو خالی ہونے والے چوراہوں پر کرسیاں رکھ کر سجائی گئی محفلیں۔ گلی محلوں اور خالی بازاروں کے تھڑے۔ پورے کا پورا شہر باتوں‘ خیالوں‘ جذبات‘ دکھ سکھ اور ایک دوسرے کے بارے میں جانتے رہنے کے عمل میں مصروف رہتا۔ اجنبیت کہاں سے آتی؟ غیریت کیسے پیدا ہوتی؟ روز کے ملنے والے‘ زندگی کے دھارے میں ساتھ ساتھ رواں رہتے تھے۔ اب محفلیں ناپید ہو گئیں۔ ملاقاتیں برائے نام رہ گئیں۔ میل ملاپ‘ ضرورتوں کے رشتوں کے تابع ہو گیا۔ بے غرض ملنے کا رواج بھی اٹھ گیا۔ اکیلے اکیلے آدمی پر مشتمل معاشرہ‘ جمہوریت کہاں سے لا سکتا ہے؟ محفلوں کا یہ کلچر ہمارے ملک میں ہی نہیں‘ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ لندن کی ہر گلی میں ایک روایتی کلب ہوتا ہے۔ محفلیں وہاں جمتی ہیں۔ چین میں ہماری طرح تھڑوں اور چوراہوں پر لوگ رات گئے تک بیٹھے گپ لگاتے ہیں۔ آج ہم کیا بات چیت کریں؟ کوئی کسی کے قتل کی بات کر رہا ہے۔ کوئی بم دھماکے کی۔ کوئی اغوا کی۔ کوئی بچیوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کی۔ کوئی لوٹ مار کی۔ کوئی بجلی چوری کی۔ یہ اور ہی طرح کی دنیا ہے۔ یہ اور ہی طرح کے لوگ ہیں۔ یہ اور ہی طرح کا معاشرہ ہے۔ 
پرانی محفلیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
------------------

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved