تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     10-05-2014

کپتان اور بارہواں کھلاڑی

افغان جہاد فیم جنرل ریٹائرڈ حمید گل نے بیان کیا ہے کہ بھارتی اداکارہ مادھوری ڈکشٹ ان کی پسندیدہ ہیروئن ہیں۔ مادھوری سے پہلے وحیدہ رحمان اور مدھو بالا ان کی فیورٹ تھیں اور وہ ان تینوں بھارتی اداکارائوں کی فلمیں دیکھتے رہے ہیں۔ جنرل گل کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاالحق کے ہاں تو بھارتی اداکار شتروگھن سنہا آتے جاتے بھی رہے ہیں۔ جنرل حمید گل نے شاید پہلی بار کسی حوالے سے بھارت سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے وگرنہ وہ بھارت کو ازلی دشمن سمجھتے ہیں۔ یہ خوش کن انکشاف انہوں نے دنیا نیوز کے مقبول پروگرام ''مذاق رات‘‘ میں کیا‘ جہاں انہیں سخاوت ناز، افتخار ٹھاکر، جواد وسیم اور امان اللہ کی شکل میں ''مذاق راتی رجمنٹ‘‘ کا سامنا تھا۔ جنرل صاحب نے مزاحیہ فورس کے ساتھ ساتھ پروگرام کے میزبان نعمان اعجاز، سامعہ خان اور ڈی جے کے غیرروایتی سوالوں کے جواب بھی قدرے غیر عسکری لہجے میں دیے، لیکن انہوں نے کہا‘ مجھے اعتراض ہے کہ نعمان اعجاز نے میرا تعارف ''ریٹائرڈ جنرل‘‘ کے طور پر کرایا حالانکہ کوئی جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا، ملک کو اس کی جب بھی ضرورت پڑتی ہے وہ آن ڈیوٹی ہوتا ہے۔
جنرل صاحب کے جذبے کی قدر کرنی چاہیے۔ یہ ایک اچھی آپشن ہے کہ مختلف محکموں سے ریٹائر ہونے والے لوگ خود کو ریٹائرڈ سمجھنے کے بجائے حاضر سروس سمجھیں۔ یہ ریٹائرڈ صاحبان اگر اپنی خدمات پینشن کے موجودہ پیکج میں ہی ملک و قوم کو فراہم کرتے رہیں تو اسحاق ڈار صاحب کو اس بجٹ میں سرکاری ملازمین کی 10 فیصد تنخواہ بڑھانے کا چانس بھی مہیا ہو سکے گا۔
ہم نے اپنے بچپن سے ہی جنرل حمید گل کو ان کے خطابات میں روس اور بھارت پر حملہ آور ہوتے دیکھا ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد وہ مقبوضہ کشمیر کی سرزمین پر بھی انہی ''سٹریٹیجک اثاثوں‘‘ کے ذریعے پاکستانی جھنڈا لہرانے کے خواہش مند تھے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس محاذ پر امریکہ ویسی سپانسرشپ فراہم نہیںکر رہا تھا‘ جیسی اس نے افغان جہاد میں کی تھی۔ جنرل حمید گل کے جنگی ڈاکٹرائن سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم گزشتہ 66 برسوں سے اپنے قیمتی وسائل جنگوں اور اس کی تیاریوں میں جھونک رہے ہیں‘ لیکن جنرل صاحب کے ''نیوکلچرل ورلڈ آرڈر‘‘ کو جتنا سراہا جائے کم ہے، ان کی جمالیاتی حس کی بھی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ وہ کون ہو گا جسے مادھوری، وحیدہ رحمان اور مدھو بالا کی فلمیں اور ان پر فلمائے گیت پسند نہیں ہوں گے۔ میرا ناسٹلجیا تو ان مہ جبینوں پر فلمائے گئے بیسیوں رنگین گیتوں سے جگمگا اٹھا۔ مادھوری ڈکشٹ پر فلمایا ہوا فلم ''کھل نائیک‘‘ کا یہ گیت‘ جس میں اس نے گولڈن ڈریس پہنا ہوا ہے: 
دھک دھک کرنے لگا‘ مورا جیا را ڈرنے لگا
چاند چہرہ کا خطاب رکھنے والی وحیدہ رحمان‘ جس پر دیو آنند کی فلم ''گائیڈ‘‘ کا یہ گیت پیکچرائز ہوا تھا: 
آج پھر جینے کی تمنا ہے، آج پھر مرنے کا ارادہ ہے
کوئی نہ روکے دل کی اڑان کو دل وہ چلا
مدھو بالا کے سحر میں تو ہمارے سارے ڈکٹیٹر اور ڈیموکریٹس گرفتار چلے آ رہے ہیں۔ ''مذاق رات‘‘ کے لئے آنے والی ففٹی پلس سیاسی سلیبرٹیز مدھوبالا کی پرستار ہیں۔ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف، چودھری اعتزاز احسن، غلام مصطفیٰ کھر، چودھری شجاعت، شیخ رشید، سینیٹر ظفر علی شاہ اور علی احمد کرد سمیت کئی دوسری سیاسی شخصیات نے بتایا تھا کہ وہ مدھوبالا کے پرستار ہیں۔ اب جنرل حمید گل نے بھی کہا ہے کہ وہ مدھوبالا کے مداح ہیں تو مجھے ''مغل اعظم‘‘ کی وہ سچوایشن یاد آگئی جس میں مدھوبالا نے انار کلی کے روپ میں اپنے اور شہزادہ سلیم کے عشق کے بارے میں '' آمر اعظم‘‘ کے سامنے کہا تھا: جب پیار کیا تو ڈرنا کیا، پیار کیا کوئی چوری نہیں کی‘ گھٹ گھٹ آہیں بھرنا کیا۔۔۔۔
ایسا نہیں کہ بھارت کے ساتھ جنگ کرنے کا نعرہ صرف ہماری طرف سے ہی لگایا جاتا ہے۔ نریندر مودی نے بھی کہا ہے کہ پاکستان پر حملہ کیا جانا چاہیے۔ مودی نے یہ ڈائیلاگ بھارتی الیکشن کے موقع پر بولا ہے۔ ہمارے ہاں بھی مڈٹرم الیکشن کے نعرے لگائے جا رہے ہیں، لیکن عمران خان کا کہنا ہے کہ مڈٹرم الیکشن نہیں، الیکشن اصلاحات چاہتے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ کچھ افراد اور ادارے انتخابات پر اثر انداز ہوئے اور نون لیگ کے لئے ان کا مینڈیٹ چرا لیا گیا۔ اس سے قبل عمران خان 35 عدد پنکچر لگانے والے ''کاری گر‘‘ کا نام بھی لے چکے ہیں۔ قصہ مختصر، عمران خان آئندہ ''ٹیوب لیس الیکشن‘‘ یعنی صاف شفاف الیکشن چاہتے ہیں‘ جسے پنکچر لگانے کا اندیشہ نہ رہے۔ عمران خان کا مطالبہ غیر جمہوری نہیں لیکن سوال کیا جا رہا ہے کہ وہ اس وقت اچانک کیوں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں؟ کیا بزم جہاں کا انداز بدل رہا ہے اور کیا مشرق و مغرب میں نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے؟ گویا ؎
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
وطن عزیز کے رواج اور سیاسی تاریخ کے مطابق نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے جس کے لئے کہا جا رہا ہے کہ ''جمہوریت کو نہیں حکومت کو خطرہ ہو سکتا ہے‘‘۔ جمہوری روایات اور انتخابی اصلاحات کو مضبوط کرنے کا کام پارلیمنٹ میں نہیں سڑکوں پر جلسے جلوسوں، دھرنوں اور ریلیوں سے کیا جائے گا۔ جلسوں سے انقلاب لائے جا سکتے تو سب سے زیادہ انقلاب ہمارے ہاں ہی آتے۔ قیام پاکستان سے پہلے حضرت قائد اعظم ؒ کے جلسے ہوا کرتے تھے، اس کے بعد لیاقت علی خاں اور محترمہ فاطمہ جناح کے مقبول جلسوں کا دور آیا۔ ایک جلسے میں اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو سرعام گولی مار کر قتل کر دیا گیا لیکن ہمارے ذہین اداروںکو اس واردات کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ اس کے بعد شیخ مجیب الرحمان اور بھٹو صاحب کے جلسوں کا دور شروع ہوا۔ مغربی پاکستان میں بنگالی لیڈروں کے جلسوں پر ''محب وطن اور اسلام پسندوں‘‘ نے دھاوے بولے۔ اس کے بعد بنگالیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے جلسے الگ ہی کیا کریں گے اور بنگلہ دیش معرض وجود میں آ گیا۔ وہ بھی ایک استقبالیہ جلسہ ہی تھا جسے دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا تھا کہ اب بھٹو کو سیاسی طور پر نہیں جسمانی طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔ بھٹو صاحب کے بعد ایک طویل عرصہ تک ملک سے سیاسی جلسوں کا رواج ختم کر دیا گیا۔ پھر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے جلسوں کا دور آیا۔ محترمہ کو سرعام گولی ماری گئی اور خانہ پری کے لئے قاتل گرفتار کر لئے گئے۔ میاں برادران کے جلسوں کے بعد اب عمران خان کے جلسوں کے نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے‘ جس میں پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری بھی اپنی برکات شامل کر رہے ہیں۔ 
ڈاکٹر طاہرالقادری کا کنٹینر مارکہ دھرنا ہم سب کو یاد ہے‘ جس کے شرکا شدید سردی میں بچوں کے ہمراہ کھلے آسمان تلے بیٹھے رہے۔ شرکا کو آدھا آدھا کلو چلغوزوں کے پیکٹ فراہم کئے گئے تھے۔ اس وقت ایک کلو چلغوزوں کی قیمت 2200 روپے تھی جسے کوئی غریب اور مڈل کلاسیا تو چکھنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ قادری صاحب کا ہائی فائی کنٹینر جلسہ تھا جس میں شرکا کو چلغوزے میسر آئے وگرنہ عوام کے حصے میں تو ہمیشہ مونگ پھلی جیسی کوئی سستی جنس ہی آتی ہے جس میں اکثر دانہ بھی نہیں ہوتا جس پر غریب دا بال (غریب کا بچہ) کہتا ہے :
مونگ پھلی میں دانہ کوئی ناں
ہم نے سکول جانا کوئی ناں
جلسے جلوس اور احتجاج کرنا جمہوری حق ہوتا ہے لیکن ایسی صورت حال سے بچنا چاہیے جس میں کوئی کنٹینر مارکہ لیڈر پارلیمنٹ پر حملہ آور ہونے کا اعلان کر دے۔ کپتان کو ٹیم کے ساتھ ساتھ ''بارہویں کھلاڑی‘‘ پر بھی نگاہ رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved