آج کل الیکٹرانک میڈیا کی ترقی قابلِ دید ہے۔ سیٹلائٹ ٹی وی ، کیبل اور ان کے ساتھ انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کی وساطت سے انٹرٹینمنٹ کی دنیا اس قدر وسیع ہوگئی ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا دیکھیں اور کیا نہ دیکھیں۔ معلوم نہیں یہ ترقی ہے بھی کہ نہیں کیونکہ آج کل ہر طرف بے سکونی کی شکایت سننے میں آتی ہے۔انٹرٹینمنٹ کے اس شورو غل میں مجھے ساٹھ کی دہائی کا زمانہ یاد آتا ہے جب محض تھوڑے سے وقت کے لیے ریڈیو پروگرام سن کر بھی لطف آجاتا تھا۔ ریڈیو پر بچوں کا پروگرام ہو، فرمائشی پروگرام ہو، مزاحیہ خاکوں کا پروگرام ہو یا پھر ڈرامہ ہو سب انتہائی معیاری ہوتے تھے۔ دن بھر میں چند ایک خبروں کے بلٹن بھی نشر ہوتے تھے اور شام میں زراعتی پروگرام اور دیہاتی بھائیوں کے پروگرام ہماری دیہی آبادیوں میں ازحد مقبول تھے۔
یہ دور ایک طرح سے ریڈیو پاکستان کا سنہری دور تھا۔ اس زمانے میں دیگر شعبوں میں ریڈیو پاکستان کی خدمات تو قابل قدر تھیں ہی مگر ریڈیو ڈرامہ اس ادارے میں جس طرح پروان چڑھا،اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ریڈیو ڈرامے کی یہ قابل قدر ترقی ہی تھی جو ہمارے ٹیلی ویژن ڈراموں کی بنیاد بنی اور ایک زمانے میں ہمارے ٹیلی ویژن ڈرامے وطن عزیز کا قابل فخر سرمایہ بنے۔
ریڈیو پاکستان میں ریڈیو ڈرامے کی بے مثال ترقی کی وجہ یہ تھی کہ تقسیم ہند سے پہلے آل انڈیا ریڈیو میں جتنے مسلمان فنکار کام کررہے تھے ،ان میں سے بیشتر پاکستان آگئے تھے۔ان میں ایک کثیر تعداد ڈرامہ آرٹسٹوں کی تھی ۔ان میں ڈرامہ لکھنے والے بھی شامل تھے اور ہنر مند ڈرامہ پروڈیوسر بھی صوتی اثرات کے ماہرین بھی تھے اور ڈرامہ آرٹسٹ بھی ۔
جلد ہی کراچی میں بھی ریڈیو سٹیشن قائم ہوگیا اور پھران فنکاروں میں سے کئی لاہور سے کراچی منتقل ہوگئے ؛تاہم ریڈیو ڈرامے کی ترقی میں کراچی کے ساتھ ساتھ لاہور سٹیشن کا کردار بھی بے مثال رہا۔سٹیج ڈرامہ ''انارکلی ‘‘کے خالق سید امتیاز علی تاج ریڈیو پاکستان لاہور کے ڈراموں کے حوالے سے ناقابل فراموش شخصیت کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں۔ ریڈیو ڈرامہ تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ موصوف کمال کے صدا کار بھی تھے اور انہوں نے طبع زاد ڈرامے لکھے ، غیر ملکی ادب پر مبنی ڈرامے تحریر کیے اور مزاحیہ فیچروں میں بھی نام پیدا کیا۔
رفیع پیر کو کون نہیں جانتا ۔وہ لاہور ریڈیو پر ڈرامے پیش بھی کرتے رہے اور تحریر بھی کرتے رہے۔ سید عابد علی عابد نے بھی معرکہ آرا ریڈیو ڈرامے لکھے ۔ ان کے علاوہ اے حمید ، مرزا ادیب اور ابو الحسن نغمی تو ریڈیو لاہور کے سٹاف آرٹسٹ تھے ۔ اشفا ق احمد اور بانو قدسیہ کا ذکر کیے بغیر بھی بات ادھوری رہ جائے گی۔ ان دونوں میاں بیوی کو اکثر لوگ ٹی وی ڈراموں اور ادب میں ان کے مقام کے حوالے سے جانتے ہیں مگر ریڈیو ڈرامے کو جس خوبصورتی سے ان دونوں نے سمجھا اور آگے بڑھایا یہ انہی کا حصہ تھا۔معروف ادیب انتظار حسین نے اگرچہ ریڈیو کے لیے زیادہ نہیں لکھا مگر ان کا تحریر کردہ ریڈیو ڈرامہ '' آخری آدمی ‘‘ آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔
ریڈیو لاہور پرصوتی ڈرامے کی ترقی میں لاتعداد آرٹسٹوں نے بے مثال خدمات انجام دیں۔ اس سٹیشن پر ایک خاتون آرٹسٹ ہوتی تھیں موہنی حمید ۔سنا ہے یوٹیوب پر سے پابندی ہٹنے والی ہے۔ایسا ہوجائے تو آپ موہنی حمید کی آواز سنیں ۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ کیسی منفرد ،فن سے بھرپور اور من موہنی آواز تھی۔ رفیع پیر کا ایک پنجابی ڈرامہ '' اکھیاں ‘‘ کے نام سے پیش ہوا تھا جس میں مرکزی کردار موہنی حمید نے ادا کیا تھا۔ آپ آج بھی یہ ریڈیو ڈرامہ اگر سن لیں تو ممکن ہے کئی روز اس ڈرامے کے سحر میں گم رہیں۔ کراچی جانے سے پہلے ڈرامہ آرٹسٹ امیر خان بھی لاہور ریڈیو کے ڈراموں میں حصہ لیتے تھے۔ تقسیم ہند سے پہلے امیر خان لاہور سٹیشن پر ہی بھارتی فلمی اداکارہ کامنی کوشل کے ہمراہ ریڈیو ڈراموں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ کامنی کوشل ریڈیو لاہور ہی سے فلمی صنعت میں گئی تھیں۔ ساٹھ کی دہائی میں تو لاہور ریڈیو پر ڈاکٹر انور سجاد ، نعیم عامر ، کمال احمد رضوی ، ڈاکٹر خالد سعید بٹ، یاسمین طاہر، مہناز رفیع اور فرخ رشید سمیت درجنوں بے مثال ریڈیو فنکاروں کا ہجوم رہتا تھا۔
ریڈیو ڈرامے کی ترقی میں کراچی ریڈیو سٹیشن کا کردار بھی لاہور ریڈیو سے کسی طور کم نہیں۔ وہاں ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار علی بخاری خود ڈرامہ آرٹسٹ تھے اور ان کی آواز میں نصراللہ خان کا تحریر کردہ ڈرامہ '' لائٹ ہائوس کے محافظ ‘‘آج بھی صوتی اداکاری کے ایک شاہکار کے طور پر ریڈیو پاکستان کی سنٹر ل لائبریری میں موجود ہے۔ لکھنے والوں میں سلیم احمد اور انتصار حسین تو ریڈیو کراچی کے سٹاف میں تھے ،درجنوں اور لکھنے والے بھی کراچی سٹیشن کے پینل پر برسوں ایک سے ایک اچھا ڈرامے لکھتے رہے۔ ریاض فرشوری، ضمیرالدین احمد ، احترام اللہ ، علی ظفر جعفری ، عظیم سرور، حسینہ معین جیسے نام ان میں
شامل ہیں۔ آوازوں کی طرف آئیں تو ساجدہ سید ، طلعت حسین ، ایس ایم سلیم ، محمود خاں مودی ، فاطمہ خانم ، عائشہ وجاہت ، زینت یاسمین ، حمیرہ نعیم ، نیلو فر علیم جبکہ صوتی اثرات دینے والوں میں لالہ رزاق شامل تھے ۔ سلیم احمد نے کراچی ریڈیو پر سینکڑوں معرکہ آرا ڈرامے تحریر کیے جبکہ انتصار حسین ڈرامے تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ہفتہ وار فیچر '' حامد میاں کے ہاں ‘‘ کے نام سے لکھتے تھے جو برسوں کراچی کے لوگوں کا پسندیدہ فیچر رہا۔ کراچی میں ہفتہ وار ڈرامہ '' سٹوڈیو نمبر 9‘‘ کے نام سے پیر کو رات نو بجے نشر ہوتا تھا اور ڈرامے کے اوقات میں کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک انتہائی کم ہوجاتی تھی۔ راولپنڈی سٹیشن نے ممتاز مفتی کے تحریر کردہ بہت سے معیاری ڈرامے پیش کیے۔ اسی طرح کوئٹہ سٹیشن سے جمیل ملک نے درجنوں بہترین ریڈیو ڈرامے پروڈیوس کیے۔
مطلب یہ ہے کہ یہ ریڈیو ڈرامے کے میدان میں ریڈیو پاکستان کے ذریعے ان لوگوں کی بے مثال خدمات تھیں جو بہترین ٹی وی ڈراموں کی بنیاد بنیں۔ لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ نہ ریڈیو اپنے اس اثاثے کو سنبھال سکا اور نہ ہی ٹی وی ، لیکن سنہری روایات موجود ہیں۔اگر ہم نے دنیا کے سامنے قابل فخر پاکستانی کلچر پیش کرنا ہے تو لازماً ریڈیو اور ٹی وی ڈرامو ں کی روایت کو اجاگر کرنا ہوگا۔ بھارت اگر فلم کے میدان میں آگے ہے تو ہم ریڈیو ، ٹی وی ڈراموں کے میدان میں آگے نکل سکتے ہیں۔