تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     11-05-2014

کھچڑی

پہلے ایسے کھچڑی پکتے نہیں دیکھی۔ تحریکِ انصاف، جماعت اسلامی اور علامہ طاہر القادری احتجاج کی آگ بھڑکانے آرہے ہیں ۔ دوآخر الذکر انتخابی طور پر ناکام لیکن مخلوق کو گھر سے نکالنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں ۔ دوسری طرف نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ہے ، جنہیں کپتان کے دو صوبائی حریفوں عوامی نیشنل پارٹی اور بالخصوص مولانا فضل الرحمن کی حمایت و تعاون حاصل ہے ۔مرکز اور پنجاب میں نون لیگ او ر پختون خوا میں ان دونوں کے سیاسی مستقبل کو کپتان سے سخت خطرہ لاحق ہے ۔ عین اسی وقت نہ صرف یہ کہ کئی ماہ سے وزارتوں کے انتظار میں لٹکی جے یو آئی کواس ضمن میں خوشخبریاں سنائی جاتی ہیں بلکہ خود مولاناصاحب کووزیر ِ باتدبیر کا درجہ عطا ہوتا ہے ۔ فوراً ہی وہ اسمبلیوں کو پانچ سال پورا کرتے ہوئے دیکھتے اور اس کا اعلان فرماتے ہیں گوکہ ایسی دوربین فی الحال ناسا کے پاس بھی نہیں، جو مستقبل میں اتنا دور تک جھانک سکے ۔ ادھر تحریکِ انصاف میڈیا کے ایک بڑے حصے کے خلاف اعلانِ جنگ کر چکی ۔ کیا وہ اس معرکے کو منطقی انجام تک پہنچا پائے گی؟
تحریکِ انصاف کے 14 اراکین صوبائی اسمبلی نے گزشتہ ماہ کے آغاز میںقیادت سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فارورڈ بلاک تقریباً بنا ہی ڈالا تھا۔ عمران خان کی پیش قدمی سے
فی الوقت وہ سہم ضرور گئے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ موقعے اور مناسب حالات کے منتظر۔ تب مصدقہ اطلاعات تھیں کہ ان میں سے چار پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ رابطے میں ہیں ۔ قاف لیگ کے درخت سے اتارے گئے ،نون لیگ کے ایک رہنما کا یہ بیان اہم ہے کہ پختون خوا حکومت گرنے جا رہی ہے ؛ لہٰذا عمران خان کو اپنی توجہ وہاں مرکوز کرنی چاہیے ۔ اگر ایسا ہوا تو تحریکِ انصاف نہیں ، نون لیگ پچھتائے گی۔ 
تحریکِ انصاف کے ناراض رہنمائوں میں دو قسم کے لوگ ہیں ۔ ایک وہ جو جوڑ توڑ کی صلاحیت سے محروم اور عملی سیاست کے تقاضوں سے نا آشنا لیڈر کو بلیک میل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے وہ ، جن کے دل واقعتاًپچھلے تین برس کی روداد پہ رو ر ہے ہیں۔ 30اکتوبر 2011ء کو لاہور کے جلسے کے بعد پارٹی کا حجم غیر معمولی طور پربڑھا اور ہر قسم کے افراد اس میں آ گھسے۔ پہلے اس قبیل سے ہیں ، پارٹی الیکشن جیتنے ، عام انتخابات میں ٹکٹ حاصل کرنے اور پھر صوبائی حکومت میں مراتب پانے کے لیے جنہوں نے ہر قسم کے حربے استعمال کیے اور کرتے رہیں گے ۔
دو ریاستی اداروں ، فوج اور عدلیہ کا طرزِ عمل بہت اہم ہے ۔ دو اداروں میں کشیدگی پچھلے چند ہفتوں میں عیاں ہو چکی، جب نوبت اندرونِ خانہ گلے شکووں سے بڑھ کر سرِ عام اظہارِ خیال تک جا پہنچی۔ خواجگان کے بے وقت راگ الاپنے کے علاوہ ، کئی اور عوامل نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔ایک تاثر یہ قائم ہورہا ہے کہ حکومت پاکستان کسی بھی سطح پر ، (عالمی اور مقامی ) اس کے خلاف جاری پروپیگنڈے کا جواب دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ۔ اس کا سب سے اہم مظہر فروری میں ترکی، پاکستان اور افغانستان کے سربراہان کی انقرہ میں ملاقات تھی۔ قابلِ اعتبار پاکستانی اخبارات کے مطابق صدر کرزئی نے اس موقعے پرافغانستان میں دہشت گردی کا تمام تر ذمہ دار آئی ایس آئی کو قرار دینے کی ہرزہ سرائی کی اور اس کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس موقعے پر جنرل ظہیر الاسلام انہیں ترکی بہ ترکی جواب دیتے رہے جبکہ سول رہنما خاموش رہے ۔ 
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر عمران خان کی تنقید قابل توجہ ہے ۔جسٹس افتخار کی سبکدوشی کے بعد عدلیہ بڑے محتاط انداز سے اپنی حدود میں روبہ عمل ہے ۔ الیکشن کے حوالے سے عدالت یہ قرار دے چکی کہ کسی کی خواہش پر اگر وہ کچھ حلقوں کا جائزہ لینا شروع کرے تو کل پورے ملک سے امیدوار اس کا رخ کریں گے ۔ تمام انتخابی عمل مشکوک ہو اور عدلیہ اس کی ذمّہ دار ٹھہرے ، یہ اسے اس لیے بھی قبول نہیں کہ یہ سب الیکشن کمیشن اور ٹربیونلز کے دائرۂ کار میں آتاہے ۔ یہ موقف اپنی جگہ درست ہے ۔ 
تحریکِ انصاف اس محاذ آرائی کا سب سے اہم فریق ہے ۔ جناب عمران خان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کارکردگی بڑھانے اور چمکتے دمکتے منصوبوں کی بجائے بنیادی ضروریات ِ زندگی پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے انہیں لیگی قیادت پر دبائو آخری حد تک بڑھانا ہے لیکن اس طرح کہ جمہوری نظام حادثے کا شکار نہ ہو۔ تحریکِ انصاف کا سب سے بڑا ہدف نقائص سے پاک الیکٹرانک ووٹنگ کے ایسا نظام کی تشکیل ہونا چاہیے ، جس میں دھاندلی ناممکن ہو ۔ سڑکوں پہ احتجاج درست اقدام ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے صوبے میں وہ ایسا نظام تشکیل دینے کے بعد میڈیا میں یہ کامیابی ثابت کر سکے تو دوسری حکومتیں اس ضمن میں غیر معمولی دبائو کا شکار ہو ں گی ۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر ، طویل المدّت اور حتمی کامیابی کاراستہ صرف اور صرف کارکردگی سے منسلک ہے ۔ اس معاملے میں وفاقی اور پنجاب کی حکومتوں کو ہرا کر ہی پی ٹی آئی عوام کی نظروں میں سرخرو اور مستقبل میں مرکزی حکمران جماعت بنے گی۔ یاد رہے کہ 2008ء کے الیکشن میں قاف لیگ اور 2013ء میں پیپلز پارٹی کو بھی اقتدار سے علیحدگی گوارانہ تھی ۔ ظاہر ہے کہ اپنے طور پر انہوں نے اسے طول دینے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا ہوگا ۔ قاف لیگ کو عوامی امنگیں نظر انداز کرنے اور صدر زرداری کی جماعت کو بدترین کارکردگی کی سزا بھگتنا پڑی۔ عوام جب گھروں سے نکلتے ہیں تو سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ کامیاب حکمرانی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے زیرِ نگیں صوبہ بدترین دہشت گردی کا شکار ہے اور اس ضمن میں ا س کی حکمتِ عملی حد سے زیادہ ناقص ۔ ابھی تک وہ لاتوں کے بھوت کو باتوں سے منانے کی لاحاصل کوشش میں مگن ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved