قرائن بتا رہے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف بغیر کسی اعلان کے ایسی کارروائیاں ہورہی ہیں جن کی وجہ سے ان کی طاقت کو خاصا نقصان پہنچ رہا ہے۔ پھر ان کی صفوں میںاختلاف نے بھی انہیں اتنا کمزور کردیا ہے کہ ان کے خلاف کوئی بڑا آپریشن یا مذاکرات ایک جتنے بے فائدہ نظر آنے لگے ہیں۔ اب طالبان کے پاس کل اثاثہ وہ چندسو لوگ ہیں جو اپنے خانہ ساز بارودی مواد سے تھوڑا بہت اودھم تو مچا سکتے ہیں لیکن اتنا بڑا نقصان نہیںکر سکتے کہ ریاستی مشینری اپنی پالیسیوں میں ان کی منشاء کے مطابق کوئی تبدیلی کرنے پر مجبور ہوجائے۔ ان کے بیرونی سرمایہ کاروں نے بھی ان کا خرچہ روک لیا ہے کیونکہ انہیں یہ پیغام مل چکا ہے کہ اگر انہوںنے اپنی دولت کے زور پر ان تباہ کاروں کی حمایت جاری رکھی تو پھران کے لیے بھی تکلیف دہ حالات پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ یہ پیغام کیسے دیا گیا، اس کی کہانی دلچسپ ہے ۔ جب سارے سفارتی ذرائع آزمانے کے بعد بھی ہمارے دوستوں نے کچھ نہیں کیا تو ایک مؤثر پیغام بھجوانے کے لیے دوست ملک کی سڑکوں پر چلنے والی چند درجن گاڑیوں پر پاکستانی جھنڈے لگوا دیے گئے۔ جب پاکستانی جھنڈے والی یہ گاڑیاں شہر میں گھومنے لگیں تو ایک فون کال ہی مطلوبہ کام کے لیے کافی رہی جس کے لیے گزشتہ پانچ سال سے کوششیں کی جارہی تھیں۔ ایک دوست ملک میں اس طرح کی کارروائی ایک نا پسندیدہ فیصلہ تھی لیکن جب دوست بات نہ سمجھ رہے ہوں توکبھی کبھارایساہوجاتا ہے۔ بہرحال سرمائے کی فراہمی رکی تو اس کے ساتھ ہی اندرون ملک پائی جانے والی طالبان کی دوست قوتیں بھی ان کا ساتھ چھوڑگئیں۔
بیرونی سرمائے کی بندش اور پاکستانی ہمدردوں کی کمزوری کے ساتھ ایک اور اہم عامل جس نے پاکستانی طالبان کے پاؤں سے زمین نکال رکھی ہے وہ افغانستان میںصدارتی الیکشن کا بغیرکسی بڑی مزاحمت کے انعقاد ہے۔ افغان طالبان نے اس عمل کو سبو تاژ کرنے کی دھمکیاں تو بہت دی تھیں لیکن عملی طور پر الیکشن روکنے کے لیے وہ کچھ نہ کرسکے۔ کٹی پھٹی اورکمزور سی افغان نیشنل آرمی نے جس انداز میں یہ الیکشن کرایا وہ بتا رہا ہے کہ طالبان کے مقابلے میں ایک مناسب مقامی تنظیم افغان حکومت کے پاس بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ انتخابی عمل میں افغان عوام کی شرکت یہ بتا رہی ہے کہ اب وہ طالبان کی'امارت‘ کی بجائے جمہوری صدارت پر یقین رکھتے ہیں اور اسی کے ذریعے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ اس الیکشن کے نتیجے میں اب جو بھی منتخب ہو وہ حامدکرزئی کی طرح افغانستان کے تمام طبقوں کو ساتھ لے کر چلنے کے غیر واضح مقصد کی بجائے ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گا۔ اور ظاہر ہے ایسے اقدامات کا پہلا نشانہ طالبان ہی بنیں گے۔تیسرے صدارتی انتخاب نے افغان طالبان کو مجبور
کردیا ہے کہ وہ اپنی توجہ افغانستان کے اندر رکھیں بجائے اس کے کہ تحریک طالبان پاکستان جیسے غیر ضروری اتحادیوں کی جنگ میں الجھ کر اپنا نقصان کروا بیٹھیں۔ افغان طالبان کی سرپرستی سے محروم ہونے کے بعد تحریک طالبان پاکستان مرکزیت سے محروم ہوگئی اور پھر ان کے ساتھ وہی ہوا جس کی توقع تھی، یعنی یہ سب آپس میں ہی ایک دوسرے کا خون پینے لگے۔
سرمائے کی بندش، اندرون ملک حمایت سے محرومی ، افغان طالبا ن کی سرپرستی کا خاتمہ اور آپس کے اختلافات نے مل کر تحریک طالبان پاکستان کو کمزور توکردیا ہے ختم نہیں کیا۔طالبان کے تربیت یافتہ دہشت گرد اب مرکزی تنظیم سے آزادی کے بعد ایسے گروہ تشکیل دے رہے ہیں جن کا مقصد کرائے پر دہشت گردی کرنا ہے۔ ان گروہوں نے بلوچستان میں پہاڑوں پر بیٹھے دہشت گردوں سے بھی رابطے کر لیے ہیںاور شام میں جاری جنگ میں بھی اپنی خدمات پیش کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ پہلی صورت میں یہ داخلی طور پر ایک خطرہ بنے رہیںگے اور دوسری صورت میں عالمی سطح پر پاکستان کی رسوائی کا سامان کریں گے۔ اس مرحلے پر ضروری ہے کہ ریاستی ادارے پہلے سے زیادہ چوکس ہوکر اپنے خفیہ آپریشنزکا دائرہ وسیع کرتے چلے جائیں۔ شمالی وزیرستان میں طالبان کی باہمی لڑائیوں میں جتنی شدت آئے گی اتنی ہی تیزی سے چھوٹے چھوٹے گروہ بلوچستان کا رخ کریں گے جہاں کے دہشت گرد خود بھی وسائل کی کمی کا شکار ہیں لیکن ان کا اتحاد کوئی ایسی صورت پیدا کرسکتا ہے جو غیر متوقع ہو۔کراچی میں بھی ایسے شواہد تسلسل سے مل رہے ہیں کہ طالبان کے چھوٹے موٹے گروہ شہر میں پہلے سے موجود اس مافیا کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں جس کے ساتھ ان کا شدید اختلاف رہا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گولہ بارود کی کم اور انٹیلی جنس کی ضرورت شدید ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے سیاسی ماحول پر بھی نظر رکھنا ہوگی، کیونکہ طالبان کے خلاف کامیابی سیاسی اتفاق رائے کے بطن سے ہی جنم لے رہی ہے، اگر ایک باراس اتفاق میں نفاق کی نقب لگی تو پھر معاملات کو سنبھالنا آسان نہیں رہے گا۔
پاکستان گزشتہ دس سال سے اندرونی طور پر دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے۔ اس عرصے میں مختلف نظریہ فروشوں نے دہشت گردی کے نام پر اپنے اپنے مفادات حاصل کیے۔ کسی نے اس کو' استعماری اقدامات کا ردعمل‘ قراردے کر تحریک مزاحمت قرار دے ڈالا اورحکومت حاصل کرلی ، تو کسی نے ان کو ہمارے 'طرز زندگی کو بدلنے والے ناقابل قبول نظریات قرار دے کر اپنے حلقہ انتخاب کو بے وقوف بنایا۔ ان نظریہ فروشوں نے بڑی مہارت سے ان کو سب کچھ کہا لیکن دہشت گرد نہیں کہا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی ریاست دہشت گردوں کو کوئی نظریاتی رعایت نہیں دے رہی۔ اس لیے وہ تمام لوگ جو دہشت گردی کے کاروبار سے کسی نہ کسی طرح منسلک تھے، کوشش کررہے ہیں کہ یہ کاروبار چلتا رہے۔ مغرب کے اسلحہ فروش جس طرح دنیا میں جنگوں کی آگ بھڑکانے پر سرمایہ کاری کرتے ہیں اسی طرح پاکستان میں یہ لوگ منصوبے بنا رہے ہیں کہ اداروں میں غلط فہمیاں پیدا کرکے ریاست کی توجہ اس مسئلے سے ہٹا کر دوسری طرف لگا دیں۔الجھاؤ پیدا کرنے والے پاکستان کی اہم شخصیات کے ذہنوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیوں کے بیج بوکر اپنا کام نکالنا چاہتے ہیں۔ بظاہر یہ محسوس ہورہا ہے کہ دہشت فروشوں کو کچھ کامیابیاں مل چکی ہیں لیکن امید ہے کہ یہ عارضی ہوں گی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جن ملکوں میں ایک منتخب پارلیمنٹ اپنا کام کررہی ہو، وہاں دہشت فروشوں کو عارضی کامیابیاں تو مل سکتی ہے لیکن ان کا انجام عبرتناک ہی ہوتا ہے۔