تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     13-05-2014

اتوار اچھا گزرا

11 مئی کے ہنگامہ خیز دن میں‘ سارے ہنگامے پنجاب کے اندر ہو رہے تھے۔ جماعت اسلامی‘ عمران خان کے ساتھ تھی‘ اپنا جلسہ کرنے سے بھی باز نہیں آئی۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری نے کینیڈا میں بیٹھ کر 60جلسوں سے خطاب کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ اس کا سارا زور بھی پنجاب ہی میں رہا۔ میڈیا اور مبصروں کی توجہ بھی پنجاب پر تھی۔ میں سندھ کی طرف دیکھ رہا تھا اور وہاں ظاہر کیا جانے والا ردعمل دیکھ کر‘ مجھے زیادہ مزہ آیا۔ سب لوگوں کی طرح میں بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ سارے جلسوں میں تقریروں کاہدف ‘مسلم لیگ ن کی حکومت رہی۔ادھر ہمارے قائم علی شاہ اور خورشید شاہ کا خیال مختلف تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے‘ اس سارے ہنگامے کا نشانہ ان کا کمبل ہے۔ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے بیان دیا ''دھاندلی کا شور مچانے والے عدالتوں کی طرف رجوع کریں۔‘‘ان کے بیان سے لگ رہا تھا کہ دردمندانہ اپیل کر رہے ہیں ''ہم نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟ ایک کونے میں بیٹھے دہی سے روٹی کھا رہے ہیں۔ اس پر تو ہاتھ نہ مارو۔‘‘ خورشید شاہ صاحب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں۔ سندھ میں ان کی حکومت بھی ہے۔ انہوں نے اور تو کچھ نہیں کہا ‘ جلسے کودوربین کے الٹی طرف سے دیکھا اور انکشاف کیا ''جلسہ ناکام تھا۔‘‘ ان دنوںپیپلز پارٹی جس حال سے گزر رہی ہے‘ اس میں وہ ایسا جلسہ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں‘ جو جماعت اسلامی نے کر لیا۔ 11مئی کو سب کی توجہ پنجاب اور اسلام آباد پر تھی اور میرا دھیان سندھ کی طرف تھا۔ مجھے قائم علی شاہ کی حالت دیکھ کریوں لگ رہا تھا‘ جیسے گرمیوں کی تپتی دوپہر میں ایک ہانپتی ہوئی چڑیا‘ شیر کی طرح دھاڑنے کی کوشش کر رہی ہو۔واضح رہے‘ یہ 35 پنکچروں والی چڑیا نہیں‘ سندھ کے ایوان اقتدارمیں بیٹھی چڑیا کا ذکر ہے۔چلتے چلتے شاہ جی کا ایک مطالبہ بھی پڑھ لیں۔ انہوں نے کراچی میں ہونے والے آپریشن کو جاری رکھنے کے لئے 25 ارب روپے طلب کئے ہیں۔ یعنی بھتہ ختم کرنے کا‘ بھتہ۔ 
اصل میدان کارزار پنجاب میں تھا۔ صوبائی حکومت نے اپنے طور سے جو انتظامات کئے‘ ان کے مطابق‘ اسلام آباد میںچڑیا کو بھی پر نہیں مارنا چاہیے تھا۔صوبہ سرحد اٹک پہ ختم ہو جاتا ہے۔ آگے پنجاب ہی پنجاب ہے۔ وہاں بھی پولیس وہی کچھ کر رہی تھی‘ جو پنجاب کے باقی راستوں پر ہوا۔ احکامات بڑے سخت تھے۔ ابتدا شہری انتظامیہ سے ہوئی‘ اعلیٰ افسروں نے ٹرانسپورٹرز کو بلا بلا کر دھمکیاں دیں کہ اگر سیاسی کارکنوں کی گاڑی اسلام آباد کی طرف جاتی پکڑی گئی‘ تو پھر وہ اپنا انجام سوچ لیں۔ ہماری ہر سیاسی جماعت ‘اقتدار میں آنے کے بعد‘ دوسری جماعت کے سیاسی کارکنوں کی نقل و حرکت کو‘ مجرمانہ سرگرمی سمجھنے لگتی ہے۔دھمکی کے بعد بھی پولیس کو حکم تھا کہ شہر میں کسی بس یا ویگن میں سیاسی کارکن داخل نہ ہو سکیں۔ فیصل آباد کی انتظامیہ نے تو مور اوور بھی کر دیا۔ شہر کے اندر جہاں جہاں بس کھڑی نظر آئی‘ اسے گرفتار کر کے‘ پٹرول پمپوں اور کھلی جگہوں پر جمع کیا۔ چاروں طرف مضبوطی کے ساتھ سریا گاڑ کر‘ ساتھ خاردار تاریں لپیٹیں اور اس خاردار باڑ کے آگے قناتوں کی دیوار کھڑی کر دی۔ اتنے زبردست حفاظتی انتظامات کے باوجود لائل پور والے باز نہیں آئے۔ کسی کو سمجھ نہ آئی کہ اچانک کارکنوں سے بھری ہوئی بسیں اور ویگنیں کہاں سے نکلیں؟ کیسے موٹروے پر چڑھ گئیں؟ خیبرپختونخوا والوں کو بھی پنجاب پولیس کے پہروں میں سے نکلتے ہوئے‘ اسلام آباد پہنچنا پڑا۔ سڑکوں پر تو جو ہوا سو ہوا۔ پنجاب حکومت کے ترجمانوں نے اپنے بیانات سے یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ لوگ جلسے میں نہیں گئے۔ ان بیچاروں کا قصور نہیں۔ ہر جگہ کی انتظامیہ نے یہی رپورٹیں دیں کہ ہمارے علاقے سے‘ صرف چند بندے ہی گئے ہیں۔ بعض چینلز پر خالی سڑکیں بھی دکھائی گئیں اور رکاوٹوں کے سامنے رکے ہوئے ٹریفک کے مناظر بھی۔ یہ اور بات ہے کہ پولیس نے خود گاڑیوں کو روک کر کنٹینرز کے قریب کھڑے کرا کے دکھایا۔ جیسے گاڑیاں‘ رکاوٹوں کے سامنے رکی ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس والوں نے اپنے اپنے علاقے کے اندر‘ شروع میں بسوں اور ویگنوں کو روک کر فٹیج بنوائی اور پھر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے‘ انہیں اسلام آباد کی طرف روانہ کردیا۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں پولیس کی ''سخت گیری‘‘ پر اس کا شکریہ ادا کیا۔ ہر تحریک دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ‘ جو انتظامیہ کو دکھائی دیتی ہے۔ دوسری وہ‘ جسے عوام دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ تحریک کو دونوں طرف سے دیکھنے والے‘ اپنی اپنی جگہ مطمئن رہتے ہیں۔ 11مئی کے مظاہرے اور جلسہ دیکھ کر انتظامیہ مطمئن تھی کہ اس نے جلسہ ناکام کر دیا اور عمران خان خوش تھے کہ جلسہ کامیاب رہا۔ 
قائم علی شاہ کے ردعمل پر ہنسنا تو بنتا ہے۔ مسلم لیگ (ن)کے ترجمانوں نے بلاضرورت عوام کو ہنسانے کا اہتمام کیا۔ عمران خان کرکٹ کے نامور کھلاڑی رہے ہیں اور اس کھیل میں دنیا کے‘ ان کپتانوں میں شمار ہوتے ہیں‘ جو اپنے وقت میں مثالی تھے۔ سیاست میں انہیں کافی عرصہ ہو چکا ہے۔ سیاسی کیریئر میں وہ سیاستدان جو گزشتہ انتخابات میں پورے ملک کے اندر‘ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والوں میں دوسرے نمبر پر رہے‘ 11 مئی کو ان کا ایک تاریخ ساز سیاسی مظاہرہ تھا۔ کرکٹ کا کپتان‘ سیاست پر بات کرتا رہا اور ن لیگ کے ترجمان کرکٹ پر۔ ایسے لگ رہا تھا ‘ جیسے عمران کی عمر سیاست میں گزری ہو اور ترجمانوں کی عمر کرکٹ کھیلتے ہوئے۔ وہ اپنی ہر بات کرکٹ کی اصطلاحوں میں کر رہے تھے۔ کرکٹر ‘ سیاست پر بات کر رہا تھا اور سیاسی ترجمان‘ کرکٹ کی اصطلاحوں میں ‘ عوام کو سیاسی اسرارورموز سمجھا رہے تھے۔ سیاسی دنگل تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان تھا۔ اس لئے میڈیا کی توجہ عمران کے جلسے پر مرکوز رہی۔ میں نے اس جلسے کے صرف حاشیوں پر بات کی ہے۔ سیاسی بات کل ہو گی۔ 
پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کے 60جلسے ‘ عوام کی شرکت اور شیخ الاسلام کی تقریر کے حوالے سے ٹھوس معنویت کے حامل تھے۔ وہ عوام اور نظام ‘ دونوں کے حوالے سے بنیادی نکات‘ زیربحث لائے اور آئینی شقیں پڑھ پڑھ کے عوام کو بتایا کہ ان کے حقوق کیا ہیں؟ اور پھر ثابت کیا کہ ان کے حقوق‘ کتنی بیدردی سے پامال کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ نظام میں تبدیلیوں سے‘ عوام کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں جابجا پنکچروں سے بھری ٹیوب پر‘ مزید پنکچر لگنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اصل ٹیوب کبھی کی ختم ہو چکی۔ اب صرف پنکچر ہی پنکچروں سے جڑے ہیں۔ نیچے سے ٹیوب غائب ہو چکی ہے۔ پروفیسر صاحب کی تقریر سے مجھے یہ سمجھ آئی ہے کہ وہ ٹیوب بدلنے کی بات کر رہے ہیں۔ کام چلائو علاج نہیں بتا رہے۔ حقیقت میں ہمارے امراض کا علاج وہی ہے‘ جو پروفیسر صاحب نے بتایا۔ ہر سنجیدہ شخص یہی سوچ رہا ہے۔ لیکن معالج پروفیسر صاحب ہوں‘ یہ علیحدہ سوال ہے۔ اقرباپروری کو دیکھیں ‘تو رائیونڈ کے معالجوں کے گھروں میں بیٹے نظر آتے ہیں۔پیپلزپارٹی کے گھر آصف زرداری کے بچے ‘ ملک و قوم کی نیا پار لگانے کو تیار ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویزالٰہی دونوں کے بچے ‘ اپنے بزرگوں کے سیاسی اثاثے سنبھالنے کی تربیت حاصل کر چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو اللہ تعالیٰ نے بھائیوں کی نعمت سے نواز رکھا ہے۔ اے این پی میں قیادت شجرے کی نسبت سے چلتی ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس سیاسی اور سماجی نظام کا تصور موجود ہے۔اسے نافذ کرنے کے لئے موقع ملتا ہے نہ جگہ۔ بلوچستان میں کوئی حکومت آئے‘ کوئی جائے‘حکومت قبائلی سرداروں کی رہتی ہے۔ فنکشنل لیگ کی صدارت اورگدی نشینی ایک ہی جگہ رہتی ہے۔ صرف دو لیڈر ایسے ہیں‘ جن کے بچے فوری طور پر اقتدار سنبھالنے سے قاصر ہیں۔ ان کے بالغ ہونے سے پہلے پہلے‘ یہ دونوں لیڈر ملک و قوم کے لئے کچھ کر جائیں تو کر جائیں۔ بچے بالغ ہو گئے‘ تو ان دونوں کو بھی وراثت کی فکر پڑ جائے گی۔ الطاف بھائی کو بیٹی کی۔ عمران خان کو بیٹوں کی۔بھارت میںاقتدار کا ورثہ صرف ایک خاندان کے پاس ہے۔ کبھی کبھار یہ دوسروں کو بھی ملتا رہا۔ ہو سکتا ہے اسی برس‘ یہ خاندان بھی اقتدار سے باہر ہو جائے۔پھر سیاست اور اقتدار دونوں میں‘ عوام کا عمل دخل شروع ہو جائے گا۔ پاکستانی سیاست بہت عرصے تک‘ خاندانی وراثت کی رہے گی۔ اگر کوئی انقلابی تھپیڑا‘ اس سیاسی نظام کے تانے بانے کو ادھیڑ کے نہ رکھ دے۔ اس کا دوردور تک امکان نظر نہیں آتا۔ فی الحال ہم پر حکومت کرنے کا حق‘ حکمران خاندان ہی‘ اپنی آئندہ نسلوں کو منتقل کرتے رہیں گے۔اقتدار کی خاندانی رسہ کشی ن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ہے۔ رہ گئی پیپلزپارٹی‘ تو آنے والے کئی برسوں تک اس کا ایک ہی کام رہے گا۔ آج ن لیگ کی حکومت ہے‘ تو پیپلز پارٹی اس کی خاطرجمہوریت کا تحفظ کرے گی۔ کل عمران خان آ گئے‘ ان کے حق میں جمہوریت کا 
تحفظ کرے گی۔ حکومت کوئی کرے‘ چوکیداری پیپلزپارٹی کرے گی۔ جمہوریت کے تحفظ کے لئے۔بہرحال 11 مئی کے رونق میلے میں‘ کل کا اتوار اچھا گزرا۔ آخر میں پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کا یہ بیان ''حکومت ‘پیمرا کے ذریعے‘ فوج سے دھوکہ کر رہی ہے۔‘‘ حیرت ہے‘ علامہ صاحب کو کینیڈا میں بیٹھ کر پتہ چل گیا کہ ''جیو‘‘ کا کیس وزیراطلاعات نے وزیرقانون کو بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد یہ کیس وزیرقانون کی میز پر چلا گیا۔ وزیراطلاعات وہی شخص ہے‘ جو وزیرقانون بھی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved