تحریر : افتخار گیلانی تاریخ اشاعت     13-05-2014

بھارتی انتخابات اور کشمیر

بھارت میں 9 مرحلوں پر محیط دو ماہ سے جاری انتخابی عمل 12مئی کو مکمل ہوگیا اور اب بے تاب نظریں16مئی پرٹکی ہیں جب الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی سیل کھل جائے گی اور نتائج کا اعلان ہوگا۔ گوکہ حکمران کانگریس پارٹی کے ممتاز لیڈرنجی محفلوں میں اعتراف کررہے ہیں کہ حکومت مخالف لہر کی وجہ سے انہیں انتخابات میں بھاری نقصان ہورہاہے۔ تاہم وہ ابھی بھی علاقائی سیکولر پارٹیوں کی کارکردگی کے حوالے سے پر امید ہیں اور ان کے ساتھ مل کر ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کو اقتدار کی دیوی تک پہنچنے سے روکنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے ۔ان لیڈروں کے بقول حکمران پارٹی کو 2009ء کے مقابلے میں 85ء نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے۔مطلب یہ کہ اس بار کانگریس 543 رکنی ایوان میں 120 نشستوں تک محدود ہوجائے گی ۔رائے عامہ کے کئی جائزے تو پارٹی کو 100 سے بھی کم نشستیںملنے کی پیشین گوئی کررہے ہیں۔ خیر اسی ہفتے کے اواخر تک یہ طے ہو جائے گا کہ بھارت میں اقتدار کا سہرا کس کے سر بندھنے والا ہے۔
اس بحث سے قطع نظر کہ جہاں بھارت میں پچھلے دو ماہ سے جاری انتخابی عمل کوایک طرح سے جشن جمہوریت کی طرح منایا جارہا تھا، وہیں کشمیر میں الیکشن اظہار رائے کی علامت کے برعکس خاک و خون،بلا جواز گرفتاریوں میں آلودہ ہوکر رہ گئے۔دور افتادہ کپواڑہ ضلع کے بغیر خطے میں عوام کی بھاری اکثریت نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، جس نے نہ صرف بھارت کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بلکہ تجزیہ کاروں کو بھی ششدر کر دیا ۔ سوپور اور ترال کے علاقوں میں ووٹنگ کی شرح ایک فیصد سے بھی کم رہی۔کوئی بھی صحیح الدماغ شخص صاف و شفاف انتظامیہ کیلئے انتخابی عمل سے انکاری نہیں ہوسکتا ۔کشمیر میں بھارت نواز پارٹیاں نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور اسی قبیل کی دیگر سیاسی جماعتیں یہ اعلان کرتی رہتی ہیں، کہ ان انتخابات کا مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کا ہدف صرف بنیادی ضرورتوں ، بجلی ، سڑک اور پانی کی فراہمی کے حصول کیلئے عوامی نمائندے چننا ہے۔ اور ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ مسئلہ کشمیر کیلئے ان کا رول صرف سہولت کا ر یعنی ر اہ تیار کر نے کا ہے، نہ کہ سٹیک ہولڈر کا ،اوراس کی کلی تولیت بھارت، پاکستان اور کشمیر کے آزادی نوازحلقے کے پاس امانت ہے۔مگر انتخابات کے بعد جس طرح بھارتی وزارت خارجہ اور تھنک ٹینک بین ا لاقوامی ایوانوں میں انتخابات کو رائے شماری کا نعم البدل قرار دے کر مسئلہ کشمیر کی سیاسی حیثیت سے ہی یکسر انکاری ہوجاتے ہیں، اس سے ایک تو اس خالص انتظامی عمل کی اہمیت اور افادیت مشکوک ہوجاتی ہے بلکہ اس میں شمولیت ایک طرح سے ''غداری‘‘ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ سری نگر حلقے سے جہاں مرکزی وزیر اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فارق عبداللہ امیدوار تھے، میرے ایک شناسا نے پولنگ بوتھ پر جاکر صرف اس لیے ان کے خلاف ووٹ ڈالاکہ وہ آئے دن آزادی پسندوں اورپاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں؛چنانچہ انہیں اپنی نشان زدہ انگلی چھپانی پڑ رہی ہے۔ کیونکہ کئی علاقوں میں غیظ و غضب سے بھرے نوجوانوں کی ٹولیاں لوگوں کی انگلیاں چیک کررہے تھے کہ انہوں نے ووٹ تو نہیں ڈالے۔ نیشنل کانفرنس کے ایک ممبر پارلیمان نے مجھے بتایا کہ جنوبی کشمیر میں ان کے اکثر ورکروں حتیٰ کہ پولنگ ایجنٹوں نے بھی ووٹ نہیں ڈالے، گو کہ وہ دن بھر پولنگ بوتھوں کے اندر سکیورٹی حصار میں پولنگ کی نگرانی کررہے تھے۔1989ء اور 1996ء کو چھوڑ کر، جب یا تو ووٹنگ کی شرح بہت کم تھی یا زبردستی لوگوں کو پولنگ بوتھوں تک لایا گیا، دیگر انتخابات میں عوام کی غالب اکثریت نے چند مخصوص علاقوں اور قصبوں کو چھوڑ کر انتخابات میں بھر پور حصہ لیا۔مگر اس بار لوگوں نے روزمرہ زندگی کے مسائل کے انبا رکے باوجود مین سٹریم یعنی بھارت نواز کہلائے جانے والے سیاست دانوں کی ناراضگی کا خطرہ مول لیا۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے تو بہ بانگ دہل اعلان کر دیا کہ ووٹ نہ دینے والوں کے سامنے وہ جواب دہ نہیں ہیں۔ 
الیکشن کے ایام میں مزاحمتی خیمہ اور مشتبہ نوجوانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈائون شروع کیا گیا۔پولیس کی جانب سے نوجوانوں کا قافیہ حیات تنگ کرنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا
ہے کہ بیسیوں نوجوان پولیس کی پکڑ سے بچنے کے لیے روپوش ہونے پر مجبور ہوگئے ۔المیہ یہ ہے کہ پولیس نے جن نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے ،ان میں سے بیشتر طالب علم ہیں اور وہ مختلف سکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم تھے۔گو کہ سکیورٹی ادارے پوری نوجوان نسل کے خلاف ہی برسر جنگ تھے۔ایک طرف جمہوریت کی باتیں کی جارہی تھیں تو دوسری جانب جمہوریت کی مٹی پلید کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جارہی تھی۔جمہوریت ،خیالات و آرا کی جنگ ہے ۔جمہوری نظام میں ہر فرد کو اپنی بات کہنے اور رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔کشمیر میں حکومتی نظام سے اختلاف کرنے کی جو بھی جرأت کرتا ہے ،اْس کو ملک دشمن قرار دے کر اس کی سرکوبی کی جاتی ہے۔ اس عمل کے نتیجہ میں جمہوریت کو مضبوط بنانا تو کجا ،لوگوں کو جمہوری نظام کی جانب مائل بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ریاست خاص کر وادی کشمیر میں لوگ اس چنیدہ نظام سے متنفر ہیں ا ور ہر بار پکڑ دھکڑ اور دار و رسن کی پالیسی اپنا کر لوگوں خاص کر نوجوان نسل کو اس قدر دیوار سے لگا دیا گیا کہ وہ حکومتی نظام کے ہی باغی ہوگئے ہیں۔
چونکہ اسی سال کشمیر میں اسمبلی کے انتخابات بھی ہونے والے ہیں اس لیے بھارت کی سرکار، سیاسی جماعتوں اور باقی تمام لوگ کشمیری عوام کی ووٹ ڈالنے کی مجبور ی کو دنیا کے سامنے اپنی سیاسی جیت کے بطور پیش نہ کریں۔ بلکہ اسے ایک انتظامی عمل کے حصہ کے طور پر تسلیم کیاجائے ۔نئی دہلی (مراد مرکزی حکومت ) اپنی نفسیاتی آسودگی کا ہدف پانے کے لئے عالمی برادری کے سامنے کشمیر میں منعقد ہونے والے مختلف سطح کے عام انتخابات میں پڑنے والے ووٹوں کی بھاری شرح کو مسئلہ کشمیر کے حل اوربھارت کے جموںاور کشمیر کے ساتھ'' الحاق کی توثیق ‘‘کے طورپیش کرتا ہے۔ کشمیر میں سرگرم بھارت نواز جماعتوں کیلئے بھی لازم ہے کہ اپنے انتخابی منشور کو انتظامی امور تک محدود رکھیں اور عقل وفہم سے کام لے کر ذاتی مفادات کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دیں ۔ ان کے لیے بہتر ہوگا کہ اپنی انتخابی سیاست کا محور لوگوں کو سڑک، پانی اوربجلی روزگار کی فراہمی کے علاوہ صاف و شفاف اور جواب دہ انتظامیہ کی فراہمی کو بنائیں اور کشمیر مسئلے کا حل حریت پسند لیڈران پر چھوڑ دیں۔ان جماعتوں کی طرف سے مختلف فارمولے پیش کرنے سے مسئلہ کشمیر کی اصل حیثیت کمزور ہوتی ہے۔ اس سے کم ازکم یہ ہوگا کہ جو بھی ووٹ ڈالے گا ،کافی حد تک یہ بات اس کے ذہن میں رہے گی کہ حریت لیڈران تحریک مزاحمت کے امانت دار ہیں اور مین سٹریم والے انہیں سڑک، پانی ، بجلی اور صاف ستھری سرکار دینے کے لیے پابند ہوںگے۔ ایسی صورت حال میں قوم میں باہمی انتشار اور تنائو میں کافی حد تک کمی آجائے گی۔پاکستان کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ سفارتی سطح پر بھارت کو پیغام دے کہ کشمیر میں سرگرم سبھی گروپوں چاہے بھارت نواز ہوں یا آزادی پسند ان کو ایک مساوی سیاسی اور جمہوری سپیس (مواقع )فراہم کرے، یعنی جس طرح عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو لوگوں کے پاس جاکر ووٹ مانگنے کا حق ہے، اسی طرح سید علی گیلانی، میر واعظ فارق اور یاسین ملک کو بھی حق ہونا چاہیے کہ وہ بھی پرامن طور پر عوامی میٹنگز کا انعقاد کریں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved