تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     13-05-2014

11مئی کے بعد

احتجاج،ہڑتال،جلوس،جلسے اور دھرنے ہماری قومی سیاست کی ایک اہم خصوصیت اور پہچان بن چکے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں اْس وقت شروع ہوتی ہیں جب ملک میں سویلین اور جمہوری حکومت قائم ہو۔مارشل لاء یا فوجی آمریت کے دور میں تو احتجاج کرنے اور دھرنے دینے والوں کو تو سانپ سونگھ جاتا ہے۔لیکن جونہی ملک میں جمہوری اور عوام کی آزادانہ رائے سے منتخب حکومت قائم ہوتی ہے‘ مخالفانہ جلسے،جلوسوں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔یہ سلوک صرف موجودہ حکومت تک ہی محدود نہیں جو اپنے اقتدار کا ایک سال مکمل کر رہی ہے اور چار سال باقی ہیں،بلکہ ماضی قریب اور ماضی بعید میں بھی جمہوری حکومتوں کو اس قسم کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔گزشتہ یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ابھی عنان اقتدار سنبھالا ہی تھا کہ ا س کے خاتمے کی پیش گوئیاں شروع ہو گئیں‘ تاریخیں دی جانے لگیں اور پھر ان پیش گوئیوں کو سچ ثابت کرنے کیلئے کبھی مہنگائی کے نام پر،کبھی سیلاب میں تباہ کاریوں کی آڑ میں اور کبھی امریکہ کی مخالفت کا بہانہ بنا کر ملک گیر جلسوں کا اہتمام کیا گیا جہاں بڑے بڑے اور نامی گرامی سیاستدان جمہوری حکومت کے جلد خاتمے کی نوید سناتے تھے۔ 
ملک کا موجودہ سیاسی نقشہ بھی کچھ اس قسم کے خدوخال پیش کر رہا ہے۔گزشتہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ(ن)کے بعد پاپولر ووٹ حاصل کرنے والی سب سے بڑی سیاسی پارٹی تحریک انصاف نے اتوار11مئی کو گزشتہ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف اسلام آباد میں جلسہ کیا اور ساتھ ہی کہا کہ اْن کی احتجاجی تحریک جاری رہے گی اور اگلا جلسہ فیصل آباد میں ہو گا۔ جن سیاسی پارٹیوں اور سیاسی گروپوں کو ساتھ ملا کر وہ ایک نئی سونامی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،اْن کی شرکت سے بڑے بڑے سوالات اور اہم شکوک وشبہات پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ ان میں سے ایک پارٹی اور اْس کے لیڈر‘ جنہوں نے گزشتہ سال جنوری میں اسلام آباد کے بلیو ایریا میں اپنے ہزاروں پْر جوش ساتھیوں کو جمع کر کے شہر کو تقریباً مفلوج کر دیا تھا‘ جمہوریت،موجودہ آئین اور اس آئین کے تحت انتخابی نظام کے بارے میں جو رائے رکھتے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔اس نظر یے کے تحت اْنہوں نے گزشتہ انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا کیونکہ اْن کا دعویٰ ہے کہ احتساب کے بغیر انتخابات بے کار ہیں۔تشویشناک بات یہ ہے کہ عمران خان اس پارٹی کے نظریے سے متاثر ہوتے جارہے ہیں۔اپنے ایک حالیہ بیان میں اُنہوں نے اِسی لائن پر چلتے ہُوئے کہا ہے کہ ہماری یہ تحریک اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک انتخابات سے پہلے احتساب کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اِس سے زیادہ باعثِ تشویش بات یہ ہے کہ عمران خان کی طرف سے احتجاجی تحریک کے آغازاور طاہر القادری کی طرف سے اِس میں بھر پُورشرکت کے اعلان کے ساتھ ہی لاہور کی سڑکوں پر چلنے والے رکشوں کے پیچھے چسپاں ایسے اشتہارات نمایاں طور پر نظر آنا شروع ہوگئے تھے جن پر ''جمہوریت نہیں خلافت‘‘ جیسے نعرے لکھے ہوئے تھے۔ یہ نعرے یا اشتہارات کسی معروف سیاسی پارٹی یا شخصیت کی طرف سے جاری نہیں کئے گئے بلکہ بطور سرپرست ایسی تنظیموں کا نام لکھا ہُوا ہے جن کا اِس سے پہلے کبھی بھی نام نہیں سُنا۔ اِس قسم کی گمنام تنظیمیں جمہوریت مخالف نعروں اور بینروں کے ساتھ ہمیشہ اُس وقت نمودار ہوتی ہیں جب کسی جمہوری حکومت کو عدم استحکام کا نشانہ بناکر غیر جمہوری قوتوں کے اقتدار کی راہ ہموار کرنا مقصود ہوتا ہے۔ عمران خان لاکھ کہیں کہ اُن کی تحریک کا مقصد جمہوریت کو نقصان پہنچانا نہیں ۔ لیکن جن پارٹیوں کے سہارے وہ اپنی تحریک کو چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں ، وہ جمہوریت سے عوام کو بدظن کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ 
ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک اور جماعتِ اسلامی کی طرف سے تحریکِ انصاف کی احتجاجی تحریک میں شرکت کا اعلان سیاسی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اِس لئے نہیں کہ اوالذکر دونوں پارٹیاں عوام میں بہت مقبول ہیں بلکہ اِن کی اصل طاقت اِن کے ہزاروں معتقدین ہیں جو مُلک کے تمام حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی قیادت کے ایک اشارے پر کسی بھی وقت‘ کسی بھی مقام پر جمع ہو سکتے ہیں۔ ہزاروں افراد کا یہ مجمع یا کسی جُلوس میں اِن کی بھرپور شرکت عام شہری زندگی کو مفلوج کرنے کیلئے کافی ہے اور غالباً عمران خان نے بھی اِسی مقصد کیلئے اِن دونوں پارٹیوں کو ساتھ ملایا تاکہ احتجاج بھرپور اور موثر ہو۔ اور حکومت دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے۔ ویسے بھی جماعتِ اسلامی خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی سربراہی میں بننے والی مخلوط صوبائی حکومت کا حصہ ہے۔ اِس لئے احتجاجی تحریک میں جماعتِ اسلامی کا عمران خان کا ساتھ دینا سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن جو بات سمجھ سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کے خیالات الگ ہونے کے باوجود، تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک، احتجاجی تحریک میں کِس طرح اور کتنے عرصہ تک شانہ بشانہ چل سکیں گی۔
اصل میں پاکستان عوامی تحریک ہو یا جماعتِ اسلامی یا اِن دونوں پارٹیوں کے علاوہ دیگر سیاسی گروپ یا شخصیات جنہوں نے مبینہ دھاندلیوں کے خلاف عمران خان کی احتجاجی تحریک کا ساتھ دینے کا اعلان کر رکھا ہے، سب کے اپنے اپنے ایجنڈے ہیں جنہیں وہ ایک ایسی پارٹی اور لیڈر کے کاندھوں پر سوار ہو کر پورا کرنا چاہتی ہیں جو اُن کے نزدیک ابھی تک پاپولر ہے۔ ایک سال کے سیاسی حالات و واقعات اور اِن کی روشنی میں تحریکِ انصاف کے بدلتے ہوئے موقف سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اِن جماعتوں کو جو خُود کُھل کر عوام کے سامنے آنے کی ہمت نہیں رکھتیں یا جنہیں عوام نے ہمیشہ مسترد کیا ہے اپنے مقاصد کے حصول میں کافی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے مثلاً آج سے تقریباً ڈیڑھ سال قبل کی احتجاجی تحریک میں عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کی دعوت کو ٹُھکرا دیا تھا ۔ آج وہ ڈاکٹر طاہر القادری کو موجودہ حکومت کے خلاف تحریک میں نہ صرف شرکت کی دعوت دے رہے ہیں بلکہ جمہوریت اور انتخابی عمل کے بارے میں اُن کے منفی نظریات کی حمایت کر رہے ہیں۔ اِسی طرح جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف کی گزشتہ ایک سال کی رفاقت سے موخرالذکر کو کم اور اول الذکر کو زیادہ سیاسی فائدہ پہنچا ہے۔ انتخابات میں جماعت اسلامی کو اْس کے وہم و گمان سے بھی زیادہ شکست کا سامان کرنا پڑا تھا۔ 1988ء سے آئی جے آئی کے تجربہ کے بعد جماعت اسلامی کو زعم تھا کہ اْس کی حمایت کے بغیر مسلم لیگ(ن)انتخابات میں مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کر سکتی۔لیکن مئی2013ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے مخالف کیمپ میں کھڑا ہونے کے باوجود مسلم لیگ نے توقع سے بڑھ کر کامیابی حاصل کی اور پہلی مرتبہ کسی مذہبی سیاسی جماعت کی حمایت کے بغیر مرکز میں حکومت تشکیل دی۔عمران خان نے ان پارٹیوں کو اپنی تحریک میں شامل ہونے کی اس لیے دعوت دی کیونکہ وہ انہیں اپنی تحریک کے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ احتجاجی تحریک عمران خان کے متعین کردہ راستے پر ہی چلے۔یہ قابو سے باہر بھی ہوسکتی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ کھیل عمران خان کے ہاتھ سے نکل کر ایسے عناصر کے ہاتھ میں آجائے جن کا حتمی مقصد ملک میں جمہوریت کی بساط پلٹنا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved