کتابی سلسلہ ''دنیا زاد‘‘ کا 40واں شمارہ شائع ہوگیا ہے۔حصہ نثر حسب معمول بہتر اور اہم ہے جبکہ منظومات ایک بار پھر سطحیت کا شکار ہیں۔ منیب الرحمن اور زہرہ نگاہ کی نظمیں تبرک سمجھ کر ہی پڑھی جاسکتی ہیں۔ غزلوں کا تو ویسے ہی خدا حافظ ہے۔ تاہم یہ ساری کمی مصطفی ارباب کی نظموں نے پوری کردی ہے یا کے وی ترم لیش کی وہ نظم جس کا ترجمہ مسعود اشعر نے کیا۔ خالدہ حسین نے ایک بار پھر مایوس کیا ہے۔ باقی افسانے ابھی پڑھ نہیں سکا۔ شاعری پر ہمارے دوست زمرد ملک کا مضمون دلچسپ ہے لیکن بعض مغالطوں کا شکار۔
فاضل مضمون نگار نے ساقی فاروقی اور میری شاعری کے حوالے سے جن خیالات کااظہار کیا ،اس کا انہیں پورا پورا حق تھا لیکن ساقی کے جس شعر کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ '' ظفر اقبال کی سطحی شاعری کو بھی ایک محبت اس لیے مل جاتی ہے کیونکہ انہوں نے بڑی اور اچھی شاعری بھی کررکھی ہے۔ اس سب کے باوجود ساقی فاروقی کے لیول کا شعر کہنے سے قاصر ہیں۔مثال کے طور پر ساقی کا شعر ہے ؎
مٹی سے ہوا منسوب مگر آتش خانہ سا جلتا ہوں
کئی سورج مجھ میں ڈوب گئے مرا سایہ کم کرنے کے لیے
مذکورہ بالا اور ایسے بہت سے دوسرے شعروں جیسا ایک شعر بھی سینئر اور جونیئر نسل کے ہاں نہیں ملتا جبکہ یہ جنس وافر مقدار میں ساقی کے یہاں ملتی ہے‘‘۔
چونکہ یہاں ساقی کی ساری شاعری زیر بحث نہیں ہے اور اس پر میں اپنی رائے کا اظہار بہت پہلے کر بھی چکا ہوں اور زمرد ملک صاحب کی رائے کو نظر انداز بھی نہیں کیاجاسکتا، لیکن مذکورہ بالا شعر کے حوالے سے موصوف مغالطہ کھا گئے ہیں،اس لیے کہ اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ تعلی اور خود توصیفی کا شعر ہے۔ شاعر اگر واقعی بلند مقام ہے تو اس کا دعویٰ خود شاعر کو نہیں بلکہ اعتراف دوسروں کو کرنا چاہیے۔ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ اس کا قد اتنا اونچا ہے اور اس وجہ سے اس کا سایہ اس قدر طویل ہے کہ اسے کم کرنے کے لیے کئی سورجوں کو مجھ میں ڈوبنا پڑا۔ ساقی کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس کا اعلان وہ ببانگ دہل اپنے ایک انٹرویو میں بھی کر چکے ہیں جو غالباً افتخار عارف نے لیا تھا اور جس کا نوٹس میں بھی لے چکا ہوں۔ انہوں نے کہا تھا کہ بڑا شاعر تو میں ہوں ہی!
پھر اس شعر میں ایک فنی نقص بھی ہے کہ شاعر کا سایہ کم کرنے کے لیے اس کے اندر کئی سورجوں کا ڈوب جانا کیا معنی رکھتا ہے کیونکہ شاعر کا سایہ تو باہر ہے ، سورج اس کے اندرڈوب کر یہ کام کیسے کرلیتے ہیں۔ کیا ایسا تو نہیں ہے کہ شاعر نے غروب آفتاب سے پہلے اپنا سایہ دیکھا ہو جو اس وقت ویسے ہی بہت طویل لگتا ہے؟ پھر آپ نے اپنے آپ کو ایک جلتا ہوا آتش خانہ قرار دیا ہے تو اس کا سایہ اتنا طویل کیسے ہوگیا؟یہ آتش خانہ ہے یا قطب مینار؟آپ نے اس صورت کا تو ذکر ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے آپ کا سایہ اس قدر طویل ہوگیا۔پھر صاحب موصوف نے میرے جس شعر کو میرا اعلیٰ ترین شعر گردانتے ہوئے مثال کے طور پر پیش کیا ہے ،وہ میرے عام شعروں میں سے ہے اور میں نے کبھی اسے اپنے نمائندہ اشعار میں شمار نہیں کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے جن شعرا کے پسندیدہ ترین اشعار نقل کیے ہیں ان میں کوئی قابل ذکر شعر مشکل سے ہی دستیاب ہوتا ہے۔ زمرد ملک کو شاعری پر اظہار خیال ضرور کرتے رہنا چاہیے اور نئی شاعری کا مزید مطالعہ بھی۔
آصف فرخی ایسے اختلافی مضامین ذرا زیادہ ہی شوق سے چھاپا کرتے ہیں۔ مثلاً کچھ عرصے پہلے انہوں نے خود مجھے بتایا کہ شمس الرحمن فاروقی کہہ رہے تھے کہ ان کے خلاف ظفر اقبال کا مضمون انہوں نے خود کہہ کر لکھوایا ہے اور یہ بات اس حد تک ٹھیک بھی تھی کہ میں نے وہ آپ کی دعوت پر ہی لکھا تھا اور اس میں اس کاذکر بھی کیا گیا ۔ اگر چہ خلاف کیا ہونا تھا میں نے ان سے ایک دو اشعار کے بارے میں فنی اختلاف ہی کیا تھا مزید برآں موصوف نے '' کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے ‘‘ کے عنوان سے میرا ایک تیکھا سا مضمون انتظار حسین کے بارے میں تو بڑے ذوق و شوق سے چھاپا لیکن '' انتظار حسین کی نثر‘‘ کے عنوان سے میرا اعترافی اور توصیفی مضمون ابھی تک روک رکھا ہے جس کی فائنل پروف ریڈنگ بھی وہ مجھ سے کروا چکے ہیں۔ موصوف اس طرح کی خوش فعلیاں کرتے رہتے ہیں جن میں سے تازہ ترین یہ ہے کہ پچھلے پرچے سے وہ انور شعور ، جو مجھ سے کم از کم پندرہ سال جونیئر ہیں ،کی غزلیں مجھ سے پہلے چھاپ دیتے ہیں۔اس پر میں نے تو کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن آپ خود انور شعود سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ انہیں مجھ سے پہلے اپنا نام پڑھ کر خوشی ہوتی ہے یا شرمندگی؟
کسی کو چھوٹا یا بڑا کرنا ایڈیٹر کی بساط سے باہر ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ اس کا شوق فراواں ہی کیوں نہ رکھتا ہو ۔بعض اوقات اسے مجھ جیسوں کو اوقات میں رکھنے کے لیے بھی ایسا کرنا پڑتا ہے۔ ایڈیٹر حضرات کے نفسیاتی مسائل و مشکلات کا ذکر میں اپنے مضمون ''ادیب کا مقدمہ ‘‘ میں کر چکا ہوں جو ''دنیا زاد‘‘ ہی میں شائع ہوا تھا۔ فرخی تو ویسے بھی فکشن کے آدمی ہیں، ان کی جانے بلا شاعری کیا ہوتی ہے لیکن ایک ایڈیٹر نے دھونس جمائے رکھنا ان کا مسئلہ بھی ہوسکتا ہے۔ میں ان سے درخواست کروں گا کہ مجھے وہ بہت چھاپ چکے ہیں،کچھ دوسروں کو بھی موقع دیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ نظر انداز کیے جارہے ہیں اور اب مصطفی ارباب کی کچھ نظمیں۔
دریچے
میں جس کمرے میں رہتا ہوں...اس کی دیوارمیں...دُکھ ایک دریچہ ہے...یہاں سے...مجھے دنیا ویسی ہی نظر آتی ہے...جیسی یہ دریچہ دکھاتا ہے... میرے کمرے کی دوسری دیوار میں...خوشی بھی ایک دریچہ ہے...مجھے نہیں معلوم... دنیا وہاں سے کیسی نظر آتی ہے... یہ دریچہ کمرے کا اندر سے نہیں کھلتا۔
ایک اور آدمی
ہم ایک جہنم میں رہتے ہیں...نہ جانے کہاں سے ...آگ لہراتی ہوئی آتی ہے... حدت سے ہمارے بدن جھلستے ہیں... تپش... ہماری سانسوں میں شامل ہوگئی ہے... میں سلگنے سے بچنے کے لیے...ایک آدمی کی آڑ میں ہوجاتا ہوں... وہ... مجھ سے پہلے سلگے گا...میں ...اضافی لمحے ملنے پر...اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں...اور بھول جاتا ہوں...ایک اور آدمی...میری آڑ میں کھڑا ہے۔
کتابوں کاکمرہ
یہ کمرہ...کتابوں کا کمرہ ہے...مہرباں کتابیں...مجھے قبول کرلیتی ہیں...انہوں نے... کبھی مجھے غصے سے نہیں دیکھا...ہم ہمیشہ ... ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے ... مسکرا دیتے ہیں...کتابوں کے درمیان رہتے ہوئے میں بھی ...ان جیسا ہوگیا ہوں... مجھ پر بھی اتنی ہی گرد جمی ہوئی ہے...جتنی کسی بھی کتاب پر ہوتی ہے...ہم... آج تک نہیں جان سکے ...کون کسے پڑھ رہا ہے۔
آنکھیں
آنکھیں...دیکھنے کے لیے ہوتی ہیں...مگر مجھے...دو آنکھیں...دیکھنے کو نہیں ملیں...مجھے آنکھیں ملی ہیں...آنسوئوں کو سنبھالنے کے لیے ...مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا...میں ہروقت اپنے آنسوئوں کو ...سنبھالتا رہتا ہوں...بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے...آنسوئوں کی دیکھ بھال میں...ذرا سی غلطی سے آنسو ...دوسری آنکھوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
ایک بوسہ
سانس رکی رہتی ہے...ایک بوسے کے درمیان...موت بھی نام ہے...سانس رک جانے کا ...ایک بوسہ...کبھی مکمل نہیں ہوتا...ادھورے بوسے... موت کی مشق ہوتے ہیں...لڑکیاں ہمیشہ زیر تربیت ہوتی ہیں...ختم ہی نہیں ہوتا تلاش کا سفر...میں ایک بوسے کے ذریعے خودکشی کرنا چاہتا ہوں۔
آج کا مطلع
وہ جاگے ہوں کہ سوتے‘ کھا رہے ہیں
اِدھر ہم صرف غوطے کھا رہے ہیں