تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     13-05-2014

جس کھیت سے دہقان کو…؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ممنون حسین چند گھنٹوں کے دورے پر لاہور سے بذریعہ ہیلی کاپٹر چنیوٹ تشریف لانے والے تھے۔ ان کے ہیلی کاپٹر کے اترنے کیلئے چنیوٹ کے قریب گندم کے کھیتوں کو آگ لگا کر ہیلی پیڈ تیار کیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ جہاں ہیلی کاپٹر اترنا تھا،وہاں اور اس کے ارد گرد بھی گندم کے کھیت تھے جہاں ان کی اور ہیلی کاپٹر کی سکیورٹی کیلئے جمع ہونے والے ضلعی افسران اور عوامی نمائندوں سمیت خفیہ اداروں اور پولیس کے افسروں اور جوانوں نے اپنے فرائض کیلئے کھڑا ہو نا تھا۔ ان سرکاری افسران اور نمائندوں کو وہاں لے کر آنے والی حکومت کی بڑی بڑی گاڑیوں نے بھی ہیلی پیڈ سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہونا تھا۔یوں دو درجن سے زائد ان قیمتی اور چمکیلی گاڑیوں کیلئے بھی جگہ چاہیے تھی۔ اس لیے ہیلی پیڈ کے ساتھ کے کھیتوں کو بھی صافٖ کرنے کیلئے آگ کا استعمال ضروری تھا سو اس کیلئے دوسری فصلوں کو بھی جلانا پڑا۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک ایکڑ سے کم از کم تیس من گندم نکلنا تھی تو پانچ ایکڑ کی 150 من گندم جلا دی گئی ۔ علاوہ ازیں حفاظتی ڈیوٹی پر مامور پولیس والوں کی سہولت کے لیے ان پانچ ایکڑوں کے ملحقہ کھیتوں میں کھڑی گندم کو جلا کر میدان میں تبدیل کر دیا گیا۔جب بھی کبھی حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا شعر'' جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی۔۔اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو‘‘ پڑھنے اور سننے کا اتفاق ہوتا تھا تو خیال آتا تھا کہ اس کا صحیح مفہوم یا اصلی مطلب کیا ہو سکتا ہے کیونکہ بات دل کو لگتی نہیں تھی کہ ایک کسان صبح شام ہل جوتے،زمین تیار کرے، گندم کا بیج ڈالے، چھ ماہ تک اسے پانی دے اور دن رات دیکھ بھال کرے اور پھر گندم سے بھرے ہوئے اس کھیت سے اسے روزی نہ ملے اور اس کے بدلے میں اُسے آگ لگا کر کھڑی فصل جلانا پڑے؟ یہ فصل تو کسان کو اپنے بچوں کی طرح پیاری ہوتی ہے۔ 
جب مزدور تحریک زوروں پر تھی اس وقت تو یہ شعر اکثر جلسوں میں پڑھا جاتا تھا۔ پھر جناب ذوالفقار علی بھٹو میدان سیاست میں پیپلز پارٹی کے نعرے 'سوشلزم ہماری معیشت ہے‘ کے نعروں کی گونج میں اترے تو یہ شعر ہر ایک کی زبان پر آ گیا۔ گلی گلی گائوں گائوں پی پی پی کی ہونے والی کارنر میٹنگوں میں یہ نعرہ مزدور اور کسان لیڈر حاضرین سے گلے پھا ڑ پھاڑ کر لگواتے تھے، لیکن جب چنیوٹ میں گندم کے ان لاکھوں خوشوں کو آگ لگانے کا منظر سامنے آیا تو اس شعر کے حقیقی مفہوم کا پتہ چلا، کیونکہ جب سرکاری کارندے صدر مملکت کے ہیلی پیڈ کیلئے جگہ کا انتخاب کرنے کیلئے غریب کسانوں کے کھیتوں میں پہنچے تو وہاںموجود کسانوں نے انہیں جھک کر سلام کیا اور بے وقت آمد کی وجہ
پوچھی۔ جس پر ضلعی انتظامیہ کے افسران نے انہیں بتایا کہ تم سب کو اس دفعہ ان کھیتوں سے گندم نہیں مل سکے گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کل ملک کے صدر صاحب تشریف لا ر ہے ہیں اور تم خوش قسمت ہو کہ ان کا ہیلی کاپٹر یہاں تمہارے اس کھیت میں اترے گا۔ اس لیے یہ سب جگہ ہم نے ابھی صاف کرنے کے بعد اس میں سفید رنگ سے گول دائرے لگانے ہیں ،چنانچہ اپنی فصل کو خود ہی آگ لگا دو کیونکہ اس میں سے اب تم لوگوں کو اپنی روزی روٹی کیلئے بویا ہوا ایک دانۂ گندم بھی نہیں مل سکے گا اور تم جاہل لوگوں کو شایدعلامہ اقبال کے اس فرمان کا علم نہیں ہے کہ '' جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی۔۔اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو‘‘ کیونکہ اس کھیت سے آپ کو روزی ملنے کا ذرا سا بھی امکان نہیں ہے اس لیے ہم علا مہ اقبال کے حکم پر تمہاری فصلوں کے ایک ایک گوشے کو جلانے کیلئے آئے ہیں۔یہ سنتے ہی کسان روتے ہوئے ان کے پائوں پڑ گئے کہ ہماری علامہ اقبال سے بات کرا دو لیکن انہیں ڈانٹ کر چپ کرا دیا گیا کہ علامہ اقبال کے پاس جانے کی اجا زت نہیں کیونکہ حکومت نے پہرہ لگا کر تم جیسے لوگوں کا اب وہاں جانا بند کر دیا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ضلعی انتظامیہ اور پولیس اہل کاروں نے ان کسانوںکے ایک ایک خوشہ گندم کو ان سب کے سامنے جلا کر راکھ کر دیا۔ 
جن کسانوں کی فصلوں کو آگ لگائی جا رہی تھی ،وہ اپنے اہل عیال کے ساتھ انتظامیہ کے آگے ہاتھ جوڑتے رہے بلکہ کچھ لوگ تو با قاعدہ ان کے پائوں پڑ کر منتیں کرتے رہے کہ ہمیں اپنی فصل اٹھانے کیلئے صرف دو گھنٹے دے دیں لیکن ان کی کسی نے نہ سنی اور ان کے سامنے ان کی چھ ماہ کی محنت اور سال بھر کا آٹا جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ 
چند دن پہلے کی بات ہے وزیر اعظم میاںنواز شریف کا قافلہ مری سے اسلام آباد کی طرف جاتے ہوئے کسی دوسرے روٹ کی طرف مڑ گیا تو اس جرم میں پنجاب پولیس کے ایک ایس پی حسیب شاہ کو معطل کر دیا گیا۔ دوسرے دن ان کا اور وزیر اعلیٰ کا قافلہ گلبرگ مین بلیوارڈ لاہور کی ٹریفک کی زد میں آ گیا جس پر خادم اعلیٰ نے آئو دیکھا نہ تائو ایک خاتون ڈی ایس پی اور ایک انسپکٹر کو اسی وقت معطل کر دیا۔ اس خبر پر یقین نہ آیا کیونکہ وزیر اعلیٰ کے بارے میں( پ ر) کے حوالے سے خبریں اخبار کے پہلے صفحے کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب بغیر کسی پروٹو کول کے اکیلے ہی والٹن پل کا معائنہ کرنے پہنچ گئے یا کبھی یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ بغیر کسی کو بتائے اتوار بازاروں میں لوگوں میں گھل مل گئے۔وہ وزیر اعلیٰ جو مظفر گڑھ میں سیلاب زدگان کی مدد کرنے اور ان کے دکھ آنکھوں سے دیکھنے کیلئے کسی عام موٹر سائیکل سوار سے لفٹ لے کر ان کے امدادی کیمپوں کا اچانک دورہ کرنے پہنچ جاتے ہیں وہ چند لمحوں کے لیے اپنی گاڑی گلبرگ کی ٹریفک میں پھنس جانے سے اس قدر سیخ پا کیوں ہوئے کہ اس جرم کی پاداش میں ایک انسپکٹر اور ڈی ایس پی کو گھر بھیج دیا؟۔ 
محترم مملکت کو یاد کرائے دیتا ہوں کہ بہت عرصہ قبل ایک انسان دوست اور انصاف پرست بادشاہ نے اپنی ریاست کے ایک باغ سے یہ کہہ کر ایک انارلینے سے انکار کر دیا تھا کہ اس طرح اس کے ساتھ آنے والا لشکر سارا باغ اجاڑ دے گا۔۔۔۔آپ کے ہیلی کاپٹر کے ایک ہیلی پیڈ کیلئے ایک ایکڑ کی ضرورت تھی جو اس ضلع میں کہیں بھی صاف جگہ پر اتر سکتا تھا لیکن چنیوٹ میں آپ کی تشریف آوری کے باعث دو گھروں کے بچے، بوڑھے اور خواتین سال بھر کے رزق سے محروم کر دیے گئے! ہے کوئی ان بے چاروں کی داد رسی کرنے والا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved