تحریر : افضل رحمٰن تاریخ اشاعت     13-05-2014

مزاج کے قیدی

انسانی مزاج ایک ایسی چیز ہے جو ایک طرح سے بندے کی مجبوری بن جاتا ہے ۔اگر آپ کی صلح جُو طبیعت ہے تو آپ لاکھ کوشش کریں کہ جھگڑالو بن جائیں‘نہیں بن سکیں گے۔یہ بھی ممکن ہے کہ دل پر جبر کر کے جھگڑا کرتے ہوئے آپ کی ہنسی نکل جائے۔اسی طرح جھگڑالو طبیعت والے لوگ بھی اگر جبر کر کے صلح جُو بننے کی کوشش کریں تب بھی آخر میں جھگڑا کر کے ہی فارغ ہوتے ہیں۔
اسی طرح بعض لوگوں کی طبیعت زہریلی ہوتی ہے۔یہ لوگ ایسی بات کریں گے کہ سننے والا جل کے کوئلہ ہو جائے گا۔ایسے زہریلے لوگوں کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر دکھ پہنچا رہے ہیں بلکہ یہ لوگ ایسی بات کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں،اور دوسرے شخص کو دوش دیتے ہیں کہ اس نے ہمیں یہ زہر اگلنے پر مجبور کیا تھا۔
برسوں پہلے ریڈیو میں میرے ایک ساتھی پروڈیوسر ہوتے تھے۔بڑا ''زہر ناک‘‘ مزاج تھا،اس وجہ سے اکثر ساتھیوں اور افسروں سے ان کا جھگڑا ہو جاتا تھا۔نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ کسی سٹیشن پر ٹکتے نہیں تھے۔کبھی لاہور میں ہیں تو حیدر آباد ٹرانسفر ہو گیا،وہاں سے کوئٹہ چلے گئے،چند ماہ بعد راولپنڈی کے آرڈر ہو گئے۔
موصوف کے زہریلے مزاج کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔ ان کے ایک افسر پر کسی خاندانی دشمن نے فائرنگ کر دی مگروہ افسر محفوظ رہے۔اگلے روز وہ افسر دفتر میں واقعہ بیان کر رہے تھے۔دو چار ساتھی سن رہے تھے۔ ان میں یہ زہریلے پروڈیوسر بھی شامل تھے جو اس افسر سے ناراض بھی تھے (اکثر ساتھیوں سے ناراض ہی رہتے تھے)۔جب وہ افسر واقعہ سنا کر جانے لگے تو جاتے ہوئے بولے ''اللہ کا شکر ہے۔اس مرتبہ بھی بال بال بچ گیا‘‘۔ موصوف کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا اور ہر دو چار مہینے بعد اس نوعیت کا کوئی واقعہ ہو جاتا تھا جس میں وہ خود یا ان کا کوئی بھائی یا چچا بال بال بچ جاتا ، یا زخمی ہو جاتا تھا۔ریڈیو میں اکثر ساتھی ان کی کہانی سن لیا کرتے تھے اور تھوڑا بہت افسوس کر دیا کرتے تھے لیکن ہمارے زہریلے ساتھی نے جب اپنے افسر کی زبانی سنا کہ '' اس مرتبہ بھی بال بال بچ گیا‘‘ تو ا ن کا زہریلا مزاج ان پر غالب آ گیا۔ بولے ''سر ،بال بال بچنے کا کوئی خاص طریقہ ہے آپ کے پاس یا یہ قاتلانہ حملے آپ خود کرواتے ہیں اور خود ہی بچ نکلتے ہیں؟‘‘
بس اس کے بعد کیا تھا،وہ فساد ہوا کہ بات سٹیشن ڈائریکٹر تک پہنچی اور پھر انکوائریاں شروع ہو گئیں۔ جب سب معاملہ ٹھنڈا ہو گیا تو میں نے اپنے اس پروڈیوسر ساتھی سے پوچھا کہ یار تمہیں کیا ضرورت تھی ایک افسر کو بلاوجہ Offendکرنے کی؟تو بولے ''بلاوجہ ؟کیا مطلب ہے تمہارا؟میں نے اس کی بکواس سننے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟‘‘
اسی طرح ہمارے اس زہریلے ساتھی کے پاس ایک روز ایک ریڈیو آرٹسٹ آیا۔ دو تین ماہ سے اس ریڈیو آرٹسٹ کو ہمارے ساتھی نے اپنے ریڈیو پروگرام میں بک نہیں کیا تھا۔چھوٹے موٹے کردار کرنے والے ریڈیوآرٹسٹ بالکل ہی بیچارے ہوتے ہیں، اور مکمل طورپر پروڈیوسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔اس ریڈیو آرٹسٹ نے بڑی محبت سے ہمارے ساتھی پروڈیوسر سے پوچھا '' سرجی،کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟ ‘‘آرٹسٹ کا مطلب تھا کہ بکنگ نہیں مل رہی تو کیا اس کی وجہ کوئی ناراضگی تو نہیں، جس کے لیے ظاہر ہے وہ بیچارہ معافی مانگنے کو تیار تھا۔اب ہمارے زہریلے مزاج والے پروڈیوسر کا جواب سنیے ''او بھئی۔ناراضگی تو اپنوں سے ہوتی ہے۔ تم سے کیا ناراضگی۔جائو اپنا کام کرو‘‘اور اس کے بعد اپنا منہ دوسری طرف کر لیا۔ یہ جواب سن کر اس آرٹسٹ کی آنکھوںمیں آنسو تو نہیں تھے مگر دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا اس کو بہت ہی دکھ ہوا ہے،لیکن ہمارے ساتھی پروڈیوسر کوکوئی احساس نہ تھا۔جب آرٹسٹ چلا گیا تو میں نے پروڈیوسر ساتھی کو بتایا کہ وہ آرٹسٹ تقریباً روتا ہوا گیا ہے۔ اس پر تو بولے ''اگر اس کی قسمت میں رونا نہ ہوتا تو ریڈیو آرٹسٹ کیوں بنتا‘‘۔ان کے گرم مزاج کا ایک اور واقعہ سنیے۔ ایک روز دفتر آئے تو سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔اب ظاہر ہے لوگوں نے پوچھنا تو تھا ہی۔اکثر لوگوں کو جواب میں فرما رہے تھے''ہاں بھئی پٹی بندھی ہے ۔آج ہمارے سر بندھی ہے کل کسی اور کے بندھے گی۔میاں یہاں کوئی محفوظ نہیں ہے۔تم اپنی خیر منائو‘‘
دوپہر کو کینٹین سے کھانا منگوا کر جب موصوف کچھ غنودگی میں تھے تو میں نے ہمت کر کے پوچھا کہ اصل میں کیا ہوا تھا۔ایک دم چوکس ہو کر بیٹھ گئے اور بولے ''یار،میرے بڑے ماموں ہیں۔اے جی آفس میں مشہور ہیں کسی کا کام رشوت کے بغیر نہیں کرتے۔تنخواہ سات سو ہے اور ممانی کے پاس سات سو تولے سے زیادہ سونا ہو گا۔گاڑی ہے۔ڈرائیورہے۔جگہ جگہ پلاٹ لے رکھے ہیں۔کل اپنی بہن یعنی میری والدہ سے ملنے آئے تھے۔ کبھی کبھی آتے ہیں۔بڑے آدمی ہیں۔امی نے مجھ سے کہا۔ دیکھو تمہارے ماموں آئے ہیں۔عمرے پر جا رہے ہیں۔ ان کو مبارک دو بیٹا۔یہ سن کر مجھے بہت غصہ آیا۔حرام کی کمائی کے ڈھیر لگا رکھے ہیں اور عمرہ کرنے جا رہے ہیں۔میں نے ذرا بلند آواز میں کہا۔''امی جان۔آپ کے بھائی جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی خانہ کعبہ کو ہر سال غسل دیا جاتا ہے‘‘بس پھر کیا تھا ۔بڑے ماموں نے جوتا اٹھا کے دے مارا ، اور مجھے گالیاں بھی دیں۔گالیوں کی توکوئی بات نہیں، جوتا بہت زورکا لگا۔‘‘ اس کے بعد اپنی صفائی میں گفتگو کرتے ہوئے بولے ''اب بتائو نہ میں ایک رشوت خور شخص کو مبارک دوں کہ اسے گناہ بخشوانے کا موقع مل گیا؟بھلا اس طرح گناہ بخشوائے جا سکتے ہیں؟‘‘اس کے بعد گھنٹہ بھر اپنے ماموں کی برائیاں کرتے رہے۔
ہمارے اس ساتھی پروڈیوسر کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں مگر کالم میں مزید گنجائش نہیں۔میں جب بھی اس قسم کے لوگوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے ان پر رحم آتا ہے۔یہ لوگ اپنے مزاج کے قیدی ہوتے ہیں اورزندگی بھر اپنے اس مزاج کے باعث مصیبتوں میں جکڑے رہتے ہیں۔میرے یہ ساتھی پروڈیوسر جب کسی سٹیشن سے ٹرانسفر ہو کر دوسرے سٹیشن جاتے تو دل میں تہیہ کرتے کہ وہ نئی جگہ برداشت کا مظاہرہ کریں گے اور مزاج کے زہر کو باہر نہیں آنے دیں گے، مگر ایک دو ہفتے کے بعد پھر ان کا مزاج غالب آ جاتا اور نئے سٹیشن پر بھی ان کی صورتحال ویسی ہی ہو جاتی اور وہاں بھی ہر کوئی موصوف کے زہریلے مزاج کے سبب ان کے قریب پھٹکنے سے گریز کرنے لگتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved