تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     14-05-2014

نیا عمرانی معاہدہ: غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے؟

جی نہیں ،ملّا کی مرضی اور نہ ملحد کی حکمرانی بلکہ ایک جدید مسلم ریاست کی تشکیل۔ دستور کی حدود میں ، اتفاقِ رائے کے ساتھ ۔ یہ ہے نئے عمرانی معاہدے کے لیے پیش کردہ تجویز کی بنیاد۔اگر یہ اصطلاح ناگوار ہے تو کچھ اور ع 
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے ؟
جی ہاں، ناچیز نے اس بحث کا آغازکیا تھا ۔ وہ اپنے اس موقف پر اب بھی قائم ہے کہ از سرِ نو آغازِ کار کے لیے ایک قومی سمجھوتے کی ضرورت ہے ۔ آئین میں ترمیم کی کوئی تجویز نہیں تھی۔ فرض کیجیے کبھی ایسا ہو بھی تو یہ مسلّمہ جمہوری طریق سے ہوگا ، جیسا کہ پہلے بھی ہوا۔ رہی فوج کو مستقل کردار دینے کی بات تو یہ ایک دوست کی تجویز تھی اور انہی کو اس پر بات کرنی چاہیے ۔ 
مجھے البتہ امیر تیمور یاد آئے ، جن کا قول یہ ہے کہ مرد کے سامنے بس ایک ہی راستہ ہوا کرتاہے ۔ وسطی ایشیا کو وہ فتح کر چکا تو تاتاریوں کی مجلسِ شوریٰ منعقد ہوئی ۔ اعتراض یہ تھا اور اکثریت اس پر متفق کہ نسلاً چنگیز خان کا وہ جانشین ہرگز نہیں؛ چنانچہ اقتدار اس کا حق نہیں۔ اس پر ایک عالمِ دین اٹھے، فرض کیجیے ، ان کا نام قاری زین الدین تھا۔ ہیرالڈلیم نے لکھا ہے ، انہوں نے کہا: کیسی عجیب بات تم کررہے ہو، وہ تاتاریوں کا غیر متنازع سردار ہے ۔ اپنی تلوار سے یہ ممالک اس نے فتح کیے ہیں ۔ اگر وہ نہیں تو ان سرزمینوں کا حکمران کون ہوگا؟ 
فوج نے نہیں ، پاکستان کی تخلیق کو مسلم برصغیر کے عوام نے ممکن بنایا۔ ووٹ کے بل پر وہ وجود میں آئی۔ اتنی ہی بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ ملکوں اور قوموں کی حفاظت افواج نہیں ، اقوام کیا کرتی ہیں۔ یہ بھی مگر ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ فوج ہی پاکستان کا واحد ادارہ ہے۔ پھر یہ کہ کوریا اور تائیوان کی طرح ،اس ملک کے دفاعی تقاضے مختلف ہیں ۔ وہ خود سے آٹھ گنا بڑے دشمن کے ساتھ پیدا ہوا، دنیا کی واحد سپر پاور جس کی تزویراتی حلیف ہے ؛چنانچہ پاکستانی فوج کا کردار بے حد اہم ہے ۔ رہا اسے سیاست سے الگ رکھنے کا ہدف تو وہ مضبوط سول اداروں اور سیاسی جماعتوں کے ذریعے ممکن ہوگا۔ 
بائیس برس ہوتے ہیں ، جب کابل جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت یہ عرض کیا تھا کہ اڑھائی سو برس پہلے احمد شاہ ابدالی کے عہد میں برپا ہونے والا معاہدہ ختم ہو چکا۔ ازبکوں ، تاجکوں اور پشتون قبائل کے درمیان اب ایک اور سمجھوتے کی ضرورت ہے ۔ آج کے منقسم اور منتشر پاکستان کی صورتِ حال بھی یہی تقاضا کرتی ہے ۔ 
نفاذِ اسلام ؟ ڈیڑھ عشرہ قبل کراچی کے ماہنامہ ہیرالڈ نے ایک سروے کیا تھا کہ کتنے لوگ شرعی قوانین کے آرزومند ہیں ۔ 98فیصد!سیکولر ازم کے حامی جریدے نے لکھا کہ اگر یہ سروے انہوں نے خود نہ کیا ہوتا تو وہ کبھی اس کے نتائج پر اعتبار نہ کرتے ۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ کسی قوم کے سماجی اور سیاسی ادارے اس کی تاریخ ، تمدن، روایات اور عقائد کے مطابق تشکیل پاتے ہیں ۔ ہر ملک کا اپنا ایک جمہوری ماڈل ہوتا ہے اور وہی کامیاب ہوتاہے ۔ جمہوریت پر قومی اتفاقِ رائے موجود ہے اور اسلام پر بھی ۔ مغرب کے مرعوب متاثرین اور این جی اوز والے جس سیکولرازم کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ، رائے عامہ کبھی اسے قبول نہ کرے گی۔ مراد اگر رواداری سے ہے تو بالکل بجا۔ مکمل ذہنی آمادگی کے ساتھ اسے قبول کر نا چاہیے۔ تمام عقائد اور مذاہب و مکاتب کے لوگوں کو یہیں رہنا ہے ۔ 
دستور ان کے حقوق کی ضمانت دیتاہے ۔ پھر یہ کہ جس لیڈر کی قیادت میں یہ ملک تشکیل پایا، اپنی چار عشروں کی سیاست میں سیکولرازم کی اصطلاح اس نے کبھی استعمال نہ کی؛حالانکہ حریف نہرو کا یہ آموختہ تھا۔ یہ البتہ آشکار ہے کہ ملّائیت کو قبول نہ کیا جائے گا۔ بار ہا عرض کیا اور بارِ دگر عرض ہے کہ مذہب جب واقعی نافذ ہو تو مذہبی طبقے کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ تحریکِ پاکستان کی انہوں نے مخالفت کی اور پاکستانی عوام ان کی قیادت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ۔ رہے مغرب کے ماننے والے یا گنتی کے ملحد تو مسلم ممالک میں ہمیشہ انہوںنے خاک چاٹی ہے اور یہاں بھی چاٹیں گے۔ قائداعظم جدید مسلم ریاست (Modern Muslim State)کے علمبردار تھے اور یہی ہماری منزل ہے ۔یہ اقبال اور قائداعظم کی قوم ہے ا ورہمیشہ انہی کی رہے گی۔ فرقہ پرست مذہبی جماعتوں کو اپنی عنان وہ کبھی نہ سونپے گی مگر انہیں بھی نہیں ، جن کی پرورش و پرداخت پر امریکہ ایک سو ارب روپے سالانہ خرچ کرتاہے ۔ میڈیا میں بھی اسی کی سرمایہ کاری ہے ۔ عقل کے جن اندھوںکو یہ سرمایہ کاری نظر نہیں آتی، اپنا علاج وہ خودکرائیں ۔ ہمارا کام وہ ہرگز نہیں ۔ مسلم ممالک کے باب میں امریکی حکمتِ عملی یہ ہے کہ انہیں منقسم اور منتشر رکھا جائے۔ سیکولرازم اور مذہب کے حامیوں کو متصادم کیا جائے ۔ مسلم اقوا م کو محتاج اور منحصر بنایا جائے۔ ملائیشیا اور ترکی کے عوام نے اس کھیل کو سمجھ لیا۔ جمہوری خطوط پر شائستہ انداز کی جدوجہد جاری رہے ۔ بات دلیل سے کی اور سنی جائے تو انشاء اللہ اتفاقِ رائے جدید مسلم ریاست پہ ہوگا، ملائیت یا سیکولرازم پہ نہیں ۔ 
مسلمان زندہ تھے تو ہر طرح کے مباحث ان کے درمیان جاری رہا کرتے ۔ یونانی فلسفے سے متاثر مسلمان تو کیا، عیسائی اور یہودی بھی آسودہ رہے ۔ یورپ میں عیسائی فرقے جب ایک دوسرے کو زندہ جلایا کرتے اور یہودیوں کا قتلِ عام ہوا کرتا ، مسلم ممالک میں وہ محفوظ اور شاد تھے ۔ عدمِ رواداری ملّا کے طفیل آئی ، جو غیر مسلم تو کیا، دوسرے مکتبِ فکر کی بھی تاب نہیں لا سکتا۔ جس کے بارے میں اقباؔ ل کا یہ مصرع ہر پڑھے لکھے آدمی کے وردِ زبان رہتا ہے ع
دینِ ملّا فی سبیل اللہ فساد
نوبت یہاں تک پہنچی کہ دہشت گردوں کی اور ریاست کے اندر ریاست بنانے والوں کی وہ حمایت کرتے ہیں ۔ این جی اوز کی ایک قابلِ ذکر تعداد بھی مگر یہی توکر رہی ہے ۔ کم از کم ایک میڈیا گروپ بھی ۔لبرل فاشسٹ کی اصطلاح انہی کے لیے تراشی گئی، جو زبانِ حال سے یہ کہتے ہیں ؎ 
میرے ''ماموں‘‘ کو نہیں پہچانتے شاید حضور
وہ صبا رفتار، شاہی اصطبل کی آبرو 
این جی اوز میں ایسی ہیں،جورضاکارانہ انکل سام کے لیے جاسوسی فرماتی یا کم از کم ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہیں ۔ روس پھر اپنی راکھ میں سے زندہ ہو رہا ہے‘ گو کہ امریکی معیشت اب بھی اس کا آٹھ گنا ہے ۔روسی قانون کی رو سے غیر ملکی امداد قبول کرنے والے غیر ملکی نمائندے (Foreign Agents) ہیں۔ بالآخر پاکستان میں بھی یہی ہوگا۔ رہی فکر و خیال کی آزادی تو وہ سبھی کا حق ہے ۔ صرف موت کی راہ پہ گامزن ، خود شکنی میں مبتلا متشدّد معاشرے ہی آزادیٔ اظہار کے حق سے انکار کیا کرتے ہیں۔ اشتراکیت اور ملّائیت کے علمبردار۔ 
دہشت گردی کا عفریت بچّے جن رہا ہے ۔ امن و امان برباد ہے ۔ 52فیصد غریب اور 30فیصد خطِ غربت پر۔ پولیس حکام کی۔ عدالتیں عدل سے خالی۔ عام آدمی خوار و زبوں اور اس کے لیے فقط وعدے۔ امرا ٹیکس ادا کرنے سے انکاری اور ان کی نمائندہ سیاسی پارٹیوں کو اس کی پروا ہی نہیں ؛حالانکہ اس کے بغیر ، آزاد معیشت کے بغیر خود مختاری کا حصول ممکن ہی نہیں ۔امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق کے بقول اسمبلیوں میں ایسے بھی ہیں ، جنہیں جیلوں میں ہونا چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ دین ا ورسیاست کو ہم نے ادنیٰ ترین لوگوں پر چھوڑ دیا ۔ کیا نیم خواندہ مولوی سے ہم پوچھیں کہ زندگی ، کائنات اور انسان کیا ہے ؟ کیا این جی اوز کا بھک منگا بتائے گا کہ مکمل آزادی کا حصول کیسے ممکن ہے ؟ 
جی نہیں ،ملّا کی مرضی اور نہ ملحد کی حکمرانی بلکہ ایک جدید مسلم ریاست کی تشکیل۔ دستور کی حدود میں ، اتفاقِ رائے کے ساتھ ۔ یہ ہے نئے عمرانی معاہدے کے لیے پیش کردہ تجویز کی بنیاد۔اگر یہ اصطلاح ناگوار ہے تو کچھ اور ع 
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved