تین چاردن پہلے عمران خان کے گزشتہ ایک سال کے سیاسی سفر کے حوالے سے کالم لکھا تو فیس بک پر کسی صاحب نے کمنٹ کیا کہ یہ تحریر غیر جانبداری کے اصول پر پوری نہیں اُترتی۔ میں نے انہیں جواب دیتے ہوئے لکھاکہ کرنٹ افیئرز پر کالم لکھتے ہوئے کوئی رائے دینا پڑتی ہے، ظاہر ہے وہ کسی کو پسند آتی تو کوئی اس سے اختلاف کرتا ہے۔جب کوئی رائے بیان کر دی جائے تو پھر لکھنے والا نیوٹرل نہیں رہتا، اس معاملے میں پوزیشن لے لیتا ہے۔ جب حکومتی کارکردگی کی بات ہو گی تو اس پر اطمینان کا اظہار کیا جائے گا یا پھر تنقید ہوگی ،یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملا جلا تاثر دیا جائے۔ ان تینوں صورتوں میں کوئی نہ کوئی فریق تو نا خوش ہو گا۔ اسی لئے سیاسی تجزیہ نگار کے لئے مثالی غیرجانبداری ممکن نہیں رہتی۔ گڑبڑ تب ہوتی ہے، جب بعض لکھنے والے یا ٹی وی اینکر کسی خاص جماعت کے ترجمان بن جاتے ہیں۔ جس بات پر وہ اپنی پسندیدہ جماعت کی حمایت کر رہے ہیں ، وہی کام اگر مخالف سیاسی جماعت کرے تو یہ تعریف کے بجائے ہونٹ سی لیتے ہیں۔ جس پر مخالفوں کے لتے لئے گئے ہوں، وہی بلکہ اس سے بھی زیادہ غلطیاں اپنے پسندیدہ لیڈراور اس کی جماعت سے سرزد ہوں تو ان کا بالکل نام ہی نہیں لیا جاتا۔ یہ غیرجانبداری نہیں بلکہ علمی بددیانتی اور تعصب ہے۔
عمران خان کے ڈی چوک اسلام آباد کے جلسے کی بات کرتے ہیں۔ عمران نے صرف چند دنوں کے نوٹس پرجلسے کی کال دے کر بڑا رسک لیا تھا۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے قریب تر موقف لے کر بڑا خطرہ مول لیا۔ تحریک انصاف نے تیس اکتوبر 2011ء کو لاہور میں تاریخی جلسہ کر کے نیا جنم لیا تو ان پریہی الزام لگا کہ اسے اسٹیبلشمنٹ
سپورٹ کر رہی ہے۔ عمران اس پر دفاعی پوزیشن میں چلے گئے،بار بار خود کو اسٹیبلشمنٹ سے دور رکھنے کو کوشش کرتے رہے۔ ان کے بعض مخلص حامیوں نے کوشش کی کہ عمران الیکشن سے پہلے ایسے اشارے دیں جس سے فوج کا ووٹ بینک جو پانچ لاکھ کے قریب حاضر فوجیوں اور تیس پینتیس لاکھ ریٹائرڈ فوجیوں پر مشتمل ہے، ان میں تحریک انصاف کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو۔ خان صاحب نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ فاٹا اور سوات وغیرہ میں فوج پاکستانی طالبان کے ساتھ نبردآزما ہے، عمران خان نے ہمیشہ لگی لپٹی رکھے بغیر اس جنگ کی مخالفت کی، اسے امریکی جنگ قرار دیا اور غیر مشروط سطح پر مذاکرات کی حمایت کی۔ یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف تھا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے تو عمران اب بھی حامی ہیں، مگر اب انہوں نے اپنے موقف میں کسی قدر تبدیلی کی ہے اور فورسز کی حمایت کے اشارے دئیے ہیں۔حامد میر پر حملے کے بعد میڈیا ہائوس اور آئی ایس آئی کے درمیان پیداہونے والی کشمکش میں عمران خان نے کھل کر قومی اداروں کے حق میں پوزیشن لی ہے۔ پہلی بارانہوں نے اس قدر کھل کر پرو اسٹیبلشمنٹ نقطہ نظر کا اظہار کیا ،بلکہ اظہار غضب میں اس قدر آگے چلے گئے کہ میڈیا ہائوس کا بائیکاٹ تک کر ڈالا۔ گیارہ مئی کو اسلام آباد میں جلسے کے اعلان سے سیاسی اور صحافتی حلقوں نے یہی تاثر لیا کہ عمران خان سے مقتدر قوتیں یہ سب کرا رہی ہیں۔ عمران خان نے اپنی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا رسک لیا ، ان کی عوامی مقبولیت کا تمام بھرم ایک ہی دن میں ختم ہوسکتا تھا۔
تحریک انصاف عام انتخابات کے بعد ملک کی دوسری اہم جماعت بن کر ابھری ، جس کے پاس بڑا ووٹ بینک اور نوجوان کارکنوں کی اچھی خاصی جمعیت موجود ہے۔ پچھلے ایک سال میں خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی کارکردگی درمیانی رہی ،مگر وہاں وہ اپنے وعدوں کے مطابق انقلابی تبدیلیاں لانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان کے خلاف میڈیا کا بھرپور پروپیگنڈا مسلسل جاری ہے، اس جلسے سے پہلے نوے فیصد تجزیہ کاروں نے عمران خان کے خلاف لکھا یا پروگرام کیے۔سیاسی جماعتوں کی کامیابی یا ناکامی کا تاثر آج کل میڈیا ہی بناتا ہے ، تحریک انصاف اس شعبے میں بہت کمزور ہے۔ جن کاموں کا اسے کریڈٹ لینا چاہیے ، وہ اس کی خامیوں میں شمار ہورہے ہیں اور اس کے لیڈر دفاع کی بجائے دیدے پھاڑے دیکھے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اتنا جلد اپنے آپ کو کسی دوسرے امتحان میں نہیں ڈالتیں، جس سے ان کا سب کچھ دائو پر لگ جائے،مگر عمران خان نے یہ رسک لے لیا۔ جلسے سے پہلے کے پانچ سات دنوں میں عمران پر مسلسل یہ الزام لگ رہا تھا کہ وہ جمہوریت ڈی ریل کرنا چاہ رہے ہیں، ڈاکٹر طاہر القادری کے اسی روز احتجاجی مظاہروں نے اس خیال یا مفروضے کو مزید تقویت دے دی۔اس سارے پس منظر میں گیارہ مئی کا دن تحریک انصاف کے لئے بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا۔
گیارہ مئی کا دن عمران خان کے لئے غیر متوقع طور پر بڑی کامیابی لایا۔جلسہ بھرپور انداز میں کامیاب رہا، یہ تو اس کے مخالفین بھی مان گئے ہیں۔ اسلام آباد کے ڈی چوک میں اس روز لوگوں کی خاصی تعداد جمع ہوئی۔ یہ سب عمران خان کے روایتی سپورٹر تھے، اگرچہ اس میں ماڈرن کلاس کے لوگ (جو تیس اکتوبر 2011ء کو والہانہ انداز میں باہر آئے تھے)نسبتاً کم تھے ، مگر ان کی معقول تعداد موجود تھی۔ تحریک انصاف کے مخصوص جلسے کے تمام رنگ اس میں پائے جاتے تھے۔ پنجاب حکومت نے بہت جگہوں پر لوگوں کو روکا، فیصل آباد اور بعض دوسرے اہم شہروں میں تمام روایتی حربے آزمائے گئے، بسیں لے لی گئیں ، اسٹینڈ بند کر دئیے گئے، ناکے لگے۔ اس کے باوجودچالیس پچاس ہزار کے قریب لوگ جلسے میںپہنچ گئے۔ مئی کے گرم دہکتے موسم میں اتنی بڑی تعداد کو گھروں سے نکال لینا غیرمعمولی کامیابی تھی۔ خاص بات عمران خان کی تقریر تھی، انہوںنے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا،جس سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہویا سسٹم گرنے کا ڈرپیدا ہو۔ مسلم لیگ ن کے سر پر انہوں نے البتہ ایسی تلوار لٹکا دی ہے، جس کا انہیں پوری مدت میں سامنا کرنا پڑے گا۔ چار حلقوں میں دوبارہ گنتی اور انگوٹھوں کے نشان چیک کرنے کا مطالبہ مسلم لیگ ن کے پورے مینڈیٹ اور الیکشن نتیجے پر سوالیہ نشان بن کر چپک گیا ہے۔ ن لیگ یہ مطالبہ مان لے تب بھی مرتی ہے، نہ مانے تو تلوار لٹکتی رہے گی۔
عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے خود کو ایک بار پھر سیاست میں اِن کر دیا ہے۔ جو لوگ سمجھتے تھے کہ تحریک انصاف تحلیل ہو رہی ہے، خان کمزور پڑ گیا ، ان کا تاثر غلط ثابت ہوا۔ ویسے بھی اپوزیشن جماعتوں میں جان احتجاجی تحریک سے پڑتی ہے، کارکن دوبارہ سے منظم ہوتے ہیں اور ٹوٹ پھوٹ ختم ہوجاتی ہے۔سیاسی کامیابی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ پرو اسٹیبلشمنٹ ہونے کا الزام ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ بڑے سیاسی اجتماع نے نئی سیاسی حقیقتوں کو جنم دیا، جو اب زیر بحث ہیں۔ کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں، ناکامی کا کوئی وارث نہیں بنتا۔ جلسہ ناکام ہوتا تو ہر زاویے سے تنقید کے تیربرستے، کامیابی مخالفین کے نشتر کند کر دیتی ہے۔
اگلا معرکہ دھوبی گھاٹ گرائونڈ، فیصل آباد میں ہوگا، یہ شہر مسلم لیگ ن کا گڑھ تھا، اب وہاں دراڑیں پڑچکی ہیں، تاجر برادری منقسم ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اس سے کس قدر فائدہ اٹھا پائیں گے؟ پہلا مرحلہ تو ان کے ہاتھ رہا، مگر آگے بڑھنے سے پہلے انہیں دو باتیں سمجھنا ہوں گی۔ احتجاج اور سیاسی ری گروپنگ اپنی جگہ ،مگر ملک کسی ایڈوینچر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ معیشت کو استوار کرنے کے لئے ہمیں پانچ سالہ سیاسی سٹیٹس کو چاہیے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو گرانے کی کوشش سے ہر صورت گریز کرنا ہوگا۔ دوسرا یہ کہ اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کی کنجی خیبر پختون خوا میں ان کی کارکردگی ہے۔ وہاں تبدیلی لاسکے، لوگوں کو واضح فرق نظر آ سکا تو اس کا فائدہ انہیں ملک بھر میں ملے گا، ورنہ اگلی بار صرف خوابوں کی سوداگری ممکن نہیں ہوپائے گی۔