مہر افشاں فاروقی چونکہ شمس الرحمن فاروقی کی صاحبزادی ہیں‘ اس لیے ہماری بھتیجی ہوئیں۔ آپ آج کل ورجینیا یونیورسٹی میں شرقِ اوسط اور جنوبی ایشیائی زبان و ثقافت کی پروفیسر ہیں۔ چونکہ بڑے باپ کی بیٹی ہیں اس لیے ہاتھ بھی بڑے کاموں پر ہی ڈالتی ہیں؛ چنانچہ غالبؔ کی مسترد شدہ شاعری پر ایک کتاب لکھ رہی ہیں جس کی کچھ اقساط انگریزی روزنامہ ''ڈان‘‘ میں چھپ چکی ہیں‘ اور‘ یہ سلسلہ جاری ہے۔ غالب جیسے بہت بڑے شاعر پر اس طرح کی تحقیق اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ اٹھارویں یا انیسویں صدی کے کسی گمنام اور بیکار شاعر کو دریافت کریں اور اس پر تحقیق کرنے بیٹھ جائیں۔ افشاں کا طریق کار یہ ہے کہ وہ ایک ایک شعر کو موضوع بناتی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اس کے لیے جس شعر کا انتخاب کیا ہے وہ یہ ہے ؎
گر یاسں سر نہ کھینچے تنگی عجب فضا ہے
وسعت گہِ تمنا یک بام و صد ہوا ہے
واضح رہے کہ یہ وہ شاعری ہے جو غالب نے اپنی زندگی ہی میں ڈسکارڈ کردی تھی‘ اور جو بعد میں نسخۂ حمیدیہ کے نام سے شائع کی گئی۔ فاضل مضمون نگار نے اس شعر کی کھل کر وضاحت کی ہے اور جی بھر کے تعریف بھی؛ تاہم اس میں ایک تشنگی کا احساس ہوتا ہے کہ اس تحریر میں صرف تعریف و ستائش ہی سے کام لیا گیا ہے‘ بصورت دیگر اس کی پرکھ پڑچول نہیں کی گئی۔ اسی طرح جہاں تک مجھے یاد ہے فاروقی صاحب نے بھی اپنی
معرکتہ الآرا تصنیف ''شعر شور انگیز‘‘ جو کہ چار جلدوں کو محیط ہے‘ میں بھی میر کے اشعار کی تشریح کے دوران اپنا تنقیدی نقطہ نظر پیش نہیں کیا ہے جو کہ تشریح کا بھی ایک لازمی حصہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس شعر کے بارے میں میرے کچھ طالب علمانہ سے تحفظات ہیں جنہیں پیش کرنے جا رہا ہوں جیسے یہ گھر کے ایک فرد کا کام ہو جس میں میری دلچسپی قدرتی بھی ہے!
پہلا تو یہ کہ شعر فارسیت زدگی کا شکار ہے یعنی ردیف کو چھوڑ کر پورے شعر میں صرف ایک لفظ اردو کا ہے جو پہلے مصرعہ میں ''کھینچے‘‘ کی شکل میں آیا ہے۔ اس انداز کی تعریف اس لیے نہیں کر سکتا کہ اول تو ہمارے ہاں فارسی کا چلن ہی آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے جو کہ بجائے خود ایک نہایت افسوسناک امر ہے کیونکہ ہماری شاعری ‘ خاص طور پر غزل تو آئی ہی فارسی سے ہے۔ اس لیے ایسے اشعار پر عرق ریزی کرنا کچھ اتنا مفید خیال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسی تشریحات کے باوجود قاری ایسے اشعار کی طرف مائل نہیں ہو سکتا۔ دوسرے‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی غالب پر تازہ تصنیف کے مطابق خود غالب نے نہ صرف اپنی فارسی زدہ شاعری مسترد کردی تھی بلکہ بہت سی غزلوں کو تبدیل کر کے آسان بھی کردیا تھا جو کہ شاعر کی اپنی پیش بینی کی بھی مظہر ہے۔
اب آتے ہیں اس شعر کی طرف جو کہ پہلے مصرعہ میں ''یاس سر‘‘ میں عیبِ تنافر کا نقص موجود ہے۔ اس کے بعد سر نہ کھینچے کا محاورہ کم از کم آج کل مستعمل نہیں ہے۔ اس کے بعد لفظ تنگی ہے۔ یہ مجرد باندھا جائے تو عسرت اور تنگدستی کے معنوں میں استعمال ہوتا جبکہ ترکیب میں یہ اپنے اصل معانی ہی دیتا ہے مثلاً ؎
تنگیٔ دل کا گلہ کیا یہ وہ کافر دل ہے
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا
اس کے بعد مصرعۂ ثانی میں ''وسعت گہِ تمنا‘‘ کی ترکیب آئی ہے۔ جس کا مطلب محض تمنا کی وسعت نہیں بلکہ ایسا علاقہ ہے جہاں پر بہت سی وسعتیں رہتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مبالغہ آرائی شاعری کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور اس کے بغیر بالعموم شاعری ممکن ہی نہیں ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور جب یہ اپنی حد پار کر جائے تو خاصی مضحکہ خیز لگتی ہے۔ یہی صورت حال یہاں بھی پیدا ہوتی نظر آتی ہے۔ اس کے بعد ''یک بام و صد ہوا‘‘ کی ترکیب ہے۔ جبکہ عام طور پر ''یک بام و دو ہوا‘‘ ہی استعمال میں آتا ہے جس کا مطلب دوغلا پن ہے جو منفی پیرائے میں استعمال ہوتا ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک ''یک بام و صد ہوا‘‘ کی ترکیب سے پہلا دھیان یک بام و دو ہوا ہی کی طرف جاتا ہے؛ تاہم صد ہوا کہہ کر مبالغے کی ایک اور انتہا کو چھوا گیا ہے!
غالبؔ نے فارسی کا اثر بیدلؔ دہلوی سے لیا تھا جس کا اعتراف بھی وہ کرتا نظر آتا ہے جسے بعد میں اس نے ترک کرتے ہوئے ایسی شاعری ہی کو منسوخ کردیا۔ اب ہم اگر اسی شاعری کی خوبیاں بیان کرنے بیٹھ جائیں تو اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ غالب نے یہ کام غلط کیا تھا۔ حالانکہ یہ اسی کی شاعری تھی اور اسی کو یہ حق پہنچتا تھا کہ وہ اس کے جس حصے کو چاہے رد کردے کیونکہ اس سے وہ اسی نتیجے پر پہنچا ہوگا کہ یہ شاعری اس کے مقام اور نام و نمود میں کوئی اضافہ کرنے کی بجائے اس میں کمی کرنے کا باعث بنے گی کیونکہ اپنی شاعری کا بہترین جج شاعر خود ہوتا ہے‘ کوئی دوسرا نہیں؛ تاہم آخر نقاد نے بھی تو کچھ کرنا ہی ہوتا ہے۔
اس سلسلے کی اہم ترین گزارش یہ ہے کہ شاعری اختصار‘ سادگی‘ سہولت اور سلاست کی طرف جا رہی ہے اور ایسی فارسی زدہ اور پیچیدہ شاعری کو ایک بار پھر قاری کے راستے میں کھڑا کردینا شاید زیادہ مستحسن نہ ہو۔ غالب‘ غالب اس لیے ہے کہ وہ آج بھی سب اساتذہ کی نسبت ماڈرن لگتا ہے اور اس کی شاعری اب بھی قصۂ ماضی نہیں بلکہ آج کی شاعری لگتی ہے؛ چنانچہ جس شاعری کا حوالہ اوپر چلا آ رہاہے ،اسے کم از کم آج کی شاعری کہنا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ غالب کی شاعری کو مشکل بنا کر پیش کرنے کی نسبت آسان بنا کر پیش کرنا زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
اس سے بہرحال انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کام محققین کے لیے ضرور فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے جبکہ پہلے بھی غالب پر کسی نہ کسی حوالے سے کام شروع ہی سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس سے ایک بات یہ بھی نکلتی ہے کہ ایسی شاعری کے علاوہ غالب کی جو دوسری اور اصل شاعری ہے‘ اس پر کسی بھی نئے حوالے اور رُخ سے کام کرنے کی اب بھی گنجائش موجود ہے اور لوگوں میں اس کی طلب بھی ہے جبکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ''شعرِ شورانگیز‘‘ کی طرح فاروقی غالب کی بھی ایک ایسی ہی شرح لکھ کر سب کو حیران کردیں۔ یا اس کام سے فارغ ہونے کے بعد خود افشاں فاروقی ہی اس کام کا بیڑہ اٹھا لیں کیونکہ وفور کا جو عالم ہے‘ اس کے پیشِ نظر ان دونوں سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔
آخر میں مہر افشاں فاروقی اس پر شاباش کی مستحق ہیں کیونکہ غالب کی عام یعنی دوسری شاعری پر ایسا کام اس قدر صبر آزما نہیں جتنا کہ یہ ہے یعنی ع
انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیادہ
آج کا مقطع
دل تو بھرپور سمندر ہے ظفرؔ کیا کیجے
دو گھڑی بیٹھ کے رونے سے نبڑتا کیا ہے