حکومت کا خیال ہے کہ وہ ساڑھے تین وزیروں کی جگت بازی سے‘ عوامی ابھار کی لہر کو روکنے میں کامیاب ہو جائے گی‘ جو 11 مئی کو دیکھنے میں آئی۔ ساڑھے تین وزیروں میں جتنا بھی زور تھا‘ وہ اس بات پر لگ گیا کہ عمران خان کے جلسے کوناکام ثابت کریں۔ ایک نے کہا ‘بہت کم لوگ آئے تھے۔ دوسرے نے کہا‘عمران خان کومایوسی ہوئی۔ تیسرے نے کہا ‘ جلسے میں صرف چند سو لوگ ہی آئے تھے۔ آدھے وزیر نے ایک ادھوری سی پھبتی کہہ کے جان چھڑائی۔ حکومت نے 11مئی کے مظاہروں کو‘ اگر انہی ساڑھے تین وزیروں کی نظر سے دیکھا ہے‘ تو احتجاجی ریلی شروع کرنے والوں کو مبارک ہو۔ جلسے کے بعد‘ حکومتی ترجمانوں کے بیانات سے اندازہ ہوا کہ وہ 11مئی کا دن گزار کے مطمئن ہیں۔ ان کے نزدیک عمران خان کو اپنی خواہشات کے مطابق کامیابی نہیں ملی اور جو مطالبات انہوں نے پیش کئے ہیں‘ انہیں عوامی تائید حاصل نہیں۔ اس کے باوجود مظاہروں میںاضافہ ہونے لگا تو حکومت مطالبات پر بات چیت شروع کر کے‘ ہوا نکال دے گی۔ مطالبات ایسے نہیں ہیں‘ جو عوامی خواہشات اور جذبات کے مطابق ہوں۔انتخابی اصلاحات کا مسئلہ ہے۔ اس پر بات چیت ہو جائے گی۔عمران خان کے پاس کوئی نعرہ نہیں رہ جائے گا۔ باقی 4برس اطمینان سے حکومت کریں گے۔
نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں۔ تیسرا سال پورا نہیں کر سکے۔خیال تھا‘ اس بار وہ ٹھان کر آئے ہوں گے کہ تیسرے سال کی حد پوری کر کے‘ اقتدار کی بقیہ مدت سکون سے گزاریں گے۔لگتا ہے کہ انہوں نے سابقہ تجربات کے باوجود‘ اپنی مدت اقتدار پوری کرنے کا نہیں سوچا۔ اپنی تیسری باری کا ایک ہی سال گزار کے‘ وہ اسی حالت میں آ چکے ہیں‘ جس میں پہلی دو باریوں کے دوران آتے رہے۔ ان کی رفتار پہلے سے بھی تیز ہے۔ ماضی کی دونوں باریوں میں عوام‘ حکومت سے اتنا تنگ نہیں آئے تھے‘ جتنا گزشتہ ایک سال میں آ چکے ہیں۔ حکومت کے ترجمان ایک ہی بات پہ زور دیتے ہیں کہ حکومت کو صرف ایک سال ہوا ہے‘ اتنی جلدی احتجاجی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ عوام کے تجربے اور مشاہدے کا جائزہ لے کر دیکھیں‘ تو حقیقت میں حکومت 6سال پورے کر چکی ہے۔ 5سال پیپلزپارٹی
کے اور چھٹا سال نوازشریف کا۔ حکومت ضرور بدلی۔ عوام کی حالت نہیں بدلی۔عوام‘ حکومتوں کے چہرے نہیں دیکھتے‘ اپنی زندگی دیکھتے ہیں۔ اگر تکلیفیں بڑھنے کا سلسلہ جاری رہے اور پچھلے 5سال سے بڑھتی ہوئی مہنگائی چھلانگیں لگانا شروع کر دے۔ بیروزگاری میں اضافے کی رفتار تیز ہو جائے۔ کرپشن پہلے سے بڑھ جائے۔ روزمرہ زندگی کی تکلیفیں دوچند ہو جائیں‘ تو کوئی یہ نہیں دیکھتاکہ حکومت کا صرف ایک سال گزرا ہے۔ گزشتہ 5 سال سے‘ اس ایک سال کو علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ نئی حکومت کا سال بھی پچھلے 5 سالوں کا تسلسل ہی لگتا ہے۔ عمران خان کی احتجاجی تحریک نئی ہو سکتی ہے۔ عوام کی تکلیفیں نئی نہیں۔ عوام صرف ایک سال کی تکلیفوں کی وجہ سے تنگ نہیں۔ ان کے لئے گزرا ہوا ایک سال‘ پہلے گزارے گئے 5 سالوں سے علیحدہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 11مئی کو عوام کا موڈ‘ موجودہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا ردعمل نہیں بلکہ سابقہ حکومت کی 5 سالہ کارکردگی کا بوجھ بھی اس میں شامل ہے اور مزید پیچھے کی طرف جائیں‘ تو 10سالہ آمریت کا دور اذیت بھی‘ انہی 6 سالوں سے جڑا ہوا ہے۔
11 مئی کو عوامی جذبات کی شدت دیکھ کرظاہر ہو رہا تھا کہ یہ ایک سال کی تکالیف کا ردعمل نہیں‘ 16 سال کے دکھوں سے ابھرنے والا احتجاج ہے۔حکومتیں ضرور بدلیں‘ عوام کے حالات نہیں بدلے۔بد سے بدتر ہوتے گئے۔ حکومتی ترجمانوںنے یہ سمجھ کر‘ مظاہروں کو اہمیت نہیں دی کہ ایک سال میں عوام ‘ ان سے اتنا تنگ نہیں آئے ہوں گے کہ حکومت کو مظاہروں سے ڈرنا پڑے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوا۔ مظاہروں کی طاقت دیکھنا ہو‘ تو ان لوگوں کو مت دیکھئے جو عمران خان کے جلسے میں پہنچ گئے۔ دیکھنا ان کی طرف چاہیے‘ جو گھروں سے احتجاج کے ارادے سے نکلے اور انہیں حکومت کے مزاحمتی اقدامات ‘ رکاوٹوں‘ لاٹھیوں اور ٹرانسپورٹ سے محرومیوں کی بنا پر گھروں کو واپس جانا پڑا۔ میری اطلاعات کے مطابق پورے پنجاب سے لوگ ‘ڈی چوک پہنچنا چاہتے تھے۔ حکومت کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی نہ کی جاتیں‘ تو یہ اسلام آباد کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہو سکتا تھا۔ حکومت کو ظاہر ہے اس کا اندازہ نہیں ہو گا۔ لیکن عوامی جذبات کے کرنٹ کی رو‘ تمام حساس اور نباض قوتوں تک پہنچ گئی ہو گی۔ بے شک آنے والے طوفان کی پہلی لہر میں صرف چند پارٹیوں نے‘ حصہ ڈالا۔ مگر اس لہر کے ابھار میں‘ وقت کے ساتھ ساتھ پھیلائو اور شدت بڑھتی جائے گی۔ یہی مطالبے جو فی الحال انتخابی اصلاحات تک محدود ہیں‘ ان کا دائرہ پھیلتا جائے گا۔ موجودہ حکومت میں حصے دار‘ نعرے لگا رہے ہیں کہ ہم جمہوریت کو پٹری سے نہیں اترنے دیں گے۔ مظاہرے کرنے والے جمہوریت کے مخالف ہیں۔ وہ جواب میں کہتے ہیں‘ ہم جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔ دونوں کو پتہ نہیں کہ تاریخ بنانے کے عمل میں‘ حکومتوں اور ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کا کردار برائے نام ہوتا ہے۔ تاریخ بنانے کا اصل کام‘ عوام کرتے ہیں۔ اگر عوام کی خواہشوں اور امنگوں کو نہ سمجھا جائے‘ حکومتیں مزاحمت کریں اور ان کی مخالف سیاسی جماعتیں‘ ان کے حقیقی جذبات کی ترجمانی سے قاصر رہیں‘ تو عوامی ابھار کے سامنے دونوں بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں۔ عوامی جذبات اپنے اظہار کے لئے دوسری راہیں تلاش کر کے‘ آگے نکل جاتے ہیں۔ جیسے پنجاب میں لاتعداد مقامات پر ‘ جوشیلے نوجوان ناکے توڑ کر اور پولیس مقابلے کرتے ہوئے‘ بڑھتے چلے گئے۔ عوامی طاقت گنتی میں نہیں‘ جذبوں اور ارادوں میں ہوتی ہے۔ 11مئی کو جو جوش و جذبہ دیکھنے میں آیا‘ وہ صرف عمران خان کی کال پر نہیں تھا۔ عوام کے اضطراب اور غیظ و غضب کے نتیجے میں تھا۔ عمران کی کال نے محض راستہ دکھایا۔ امیدوں اور ارادوںکے سفر میں‘ عمران خان کہاں تک عوام کا ساتھ دیتے ہیں؟ انہیں سمجھتے بھی ہیں یا نہیں؟ اس کا اندازہ تھوڑے ہی عرصے میں ہو جائے گا۔ اگر وہ مذاکرات‘ مفاہمت اور مصالحت کی طرف چلے گئے‘ تو سب کا انجام ایوب خان کی گول میز کانفرنس کے شرکا جیسا ہو گا۔وہ آپس میں سمجھوتے کرتے رہ گئے اور وقت انہیں پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گیا۔ عمران کے لئے
آگے بڑھنے کا واحد راستہ وہ بنیادی نعرہ ہے‘ جسے لے کر وہ عوام کے سامنے آئے تھے۔ تبدیلی۔ یہی نعرہ تھا جس کی کشش نے 11 مئی کے انتخابات میں عوام کو غیرمعمولی جوش و خروش کے ساتھ پولنگ سٹیشنوں پر پہنچایا۔ اس وقت عوام کی مزاحمتی قوتیں عروج پر تھیں۔ صحت نے انہیں احتجاجی تحریک کی قیادت کی اجازت نہ دی۔ ان کے سوا کوئی دوسرا اتنی بڑی اور ملک گیر تحریک کو قیادت مہیا نہیں کر سکتا تھا۔ اسی وجہ سے عمران کو رعایتی نمبر مل گئے۔ ورنہ صحت مند ہوتے ہوئے اگر عمران عوامی غیظ و غضب کے اظہار میں قیادت کرنے سے گریز کرتے‘ تو ان کا حال بھی ایئرمارشل اصغرخان جیسا ہو جانا تھا۔ جو کراچی کے جلوس میں قیادت کی بلندیوں پر پہنچنے کے بعد‘ اچانک جوڑتوڑ میں شامل ہو گئے۔ تمام سیاسی لیڈروں کی جدوجہد کے ثمرات پر‘ ضیاالحق نے قبضہ کر لیا اور بھٹو کے تمام مخالف لیڈر‘ پلیٹیں لے کر ضیاالحق کے دسترخوان کے سامنے قطار میں کھڑے ہو گئے۔ کسی کی پلیٹ بھر گئی اور خالی پلیٹ واپس آنے والے ‘ پچھتاوے کی صف ماتم پر بیٹھ کر قسمت کو کوسنے لگے۔ آج کا بحران اپنی خاصیت میں 1969ء کے مشابہ ہے۔ جب انتخابات کے فوراً بعد احتجاجی تحریک چلی۔ نتیجے میں حکومت بدلی اور معاملات سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل گئے اور پھر فوج بھی فیڈریشن کو سنبھال نہ سکی۔ آج بظاہرفیڈریشن کو خطرہ نظر نہیں آ رہا۔ ہمہ جہتی بحران کا بڑھتا ہوا دبائو‘ سرجری کے ذریعے تبدیلی کا متقاضی ہے۔ جس جمہوریت کو بچانے کے نعرے لگ رہے ہیں‘ وہ کینسر کے آخری درجے پر آ چکی ہے۔ اس کی فوری سرجری کر کے‘ بحال نہ کیا گیا‘ توسارے سیاستدان مل کر بھی جمہوریت کو نہیں بچا سکیں گے۔1969ء میں بنگالی‘ پنجاب کی حکمرانی سے تنگ تھے۔ آج پھر پنجاب کی حکمرانی ہے۔ پنجاب کے عوام نے خود آگے بڑھ کرتبدیلی برپا نہ کی‘ تومنطقی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پیپلزپارٹی پر نگاہ رکھئے۔ وہ جمہوریت کے نام پر پنجاب کی حکمرانی کو تحفظ دے کر‘گہری چال چل رہی ہے۔ عابد شیر علی کیا بیج بو رہے ہیں؟ اس کے ثمرات جو نتائج پیدا کر رہے ہیں‘ وہی نتائج جماعت اسلامی کے پالیسی بیانات نے مشرقی پاکستان میں پیدا کیے تھے۔
وینا ملک سیاست میں حصہ لینے کو تیار ۔ جلدی کریں۔ کشتی میں ایک ہی سواری کی کمی تھی‘ جو ان سے پوری ہو جائے گی۔