تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     15-05-2014

زاہدہ حنا کا افسانہ اور فرید مصطفیٰ ارباب

افسانہ میرے نزدیک فریب کاری اور جعلسازی ہے۔ ایسا تماشا جسے واجبی پڑھا لکھا شخص بھی کر کے دکھا سکتا ہے۔ آخر کہانی کا سرچشمۂ اول‘ نانی اماں کتنی پڑھی لکھی خاتون تھیں؟ اس کے لیے بنیادی طور پر کسی خاص مہارت اور ہنرمندی کی بھی ضرورت نہیں ۔ ہاں‘ اس میں آپ اپنی ہنرمندی ڈال ضرور سکتے ہیں۔ دیکھا عام طور سے یہی گیا ہے کہ جو کچھ اور نہیں بن پاتا‘ نقاد یا افسانہ نگار بن جاتا ہے۔ جس کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ بُری بھلی نثر لکھ سکتے ہوں‘ یعنی شاعری کی طرح کسی تکنیکی جان بوجھ کا حامل ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ 
خیر‘ یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا‘ اگر ایک جملۂ معترضہ اتنا طویل ہو سکتا ہے۔ افسانے سے میری مایوسی کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس میں سے کہانی کو ایک بار پھر خارج کیا جا رہا ہے جیسا کہ چند دہائیاں پہلے کیا گیا تھا‘ لیکن آخر خدا خدا کر کے اس میں کہانی کا چلن بحال ہوا یعنی بعداز خرابیٔ بسیار۔ کیونکہ ہر چیز بالآخر اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ چنانچہ اس عمل سے افسانے کو تو جو نقصان پہنچا سو پہنچا ایسا کرنے والے خود بھی اس سے محفوظ نہ رہے۔ ڈاکٹر رشید امجد تو پھر بھی کہیں نہ کہیں نظر آ جاتے ہیں۔ ہمارے دوست‘ ایک اور ڈاکٹر‘ انور سجاد تو مکمل طور پر منظر سے غائب ہیں۔ 
میں افسانے میں ابہام اور ایمائیت کا مخالف نہیں ہوں کیونکہ یہ تلازمہ تو شاعری اور مصوری وغیرہ سمیت فنون لطیفہ کا ایک تسلیم شدہ حصہ ہے؛ تاہم اس کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے کیونکہ قاری، افسانہ، کہانی کی تلاش میں پڑھنے بیٹھتا ہے‘ پہیلی بوجھنے یا کوئی معمہ حل کرنے کے لیے نہیں۔ بے شک اس میں یہ سب کچھ ہو‘ لیکن اگر اس میں کہانی ہی نہ ہو تو قاری کو محض '' بھنبل بھُوسے ‘‘میں ڈالنے کا کیا جواز ہے۔ چلیے اگر یہ بھی نہیں تو تحریر کم از کم اتنی دلچسپ تو ہو کہ پڑھنے والے کو دورانِ مطالعہ اپنے ساتھ رکھ سکے۔ بے شک شاعری کی طرح افسانے کا فیشن بھی تبدیل ہو چکا ہے لیکن صورت حال جیسی بھی ہو‘ افسانے میں کہانی اور شاعری میں شاعری تو ہونی ہی چاہیے۔ آخر ایک چیز کو آپ اس کے اصل سے کتنا دور لے جا سکتے ہیں۔ ویسے‘ یہ جو باتیں میں عرض کر رہا ہوں‘ ان کے حوالے سے میں اپنے آپ کو کوئی سند ہرگز نہیں سمجھتا۔ یہ تو کیا‘ میں تو شاعری سمیت کسی معاملے میں بھی اپنے آپ کو سند نہیں سمجھتا۔ بلکہ میں تو افسانے کا باقاعدہ قاری بھی نہیں ہوں‘ ہاں‘ کبھی کبھی اسے منہ ضرور مار لیتا ہوں، جبکہ شاعری کی طرح آج کل افسانہ بھی بس گزارے موافق ہی لکھا جا رہا ہے۔ اچھا شعر اور اچھا افسانہ تو کہیں سے کھود کھاد کر ہی نکالنا پڑتا ہے بلکہ افسانے کی عمومی حالت تو اس ناول جیسی ہے جس کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کسی ستم ظریف نے لکھا تھا کہ اگر ا س ناول کا کوئی ہیرو ہے تو اسے چاہیے کہ مصنف کو گولی مار دے! 
تاہم‘ ایمانداری کی بات تو یہی ہے کہ ان اصناف میں بہتری اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک موجودہ صورت حال کے خلاف واویلا نہیں مچایا جائے گا۔ اور اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو مصنف حال مست ہی رہے گا اور اپنے آپ کو تبدیل یا بہتر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرے گا۔ کسی زمانے میں ادبی تحریکیں چلا کرتی تھیں۔ کسی چیز کے خلاف یا کسی چیز کے حق میں۔ اب تو دور دور تک ایسی کسی تحریک کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا۔ کہیں نہ کہیں سے ادب پر زوال کی کوئی کمزور سی آواز اٹھتی ہے اور ادب کے اس بے ہنگم شور و غوغا میں دب کر رہ جاتی ہے‘ اور بس۔ 
بہرحال زاہدہ حنا کے افسانے ''زحال مسکیں مکن تغافل ‘‘ کی تعریف و توصیف کے لیے اس قدر لمبی تمہید کی ضرورت نہیں تھی۔ اور‘ وہ بھی اس حد تک کہ کہانیوں کے اس قحط میں مجھے یہ تحریر بطور خاص بہت اچھی لگی ہے۔ میں اس کا کوئی معقول تجزیہ کرنے کے ویسے بھی قابل نہیں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ یہی کافی ہونا چاہیے کہ کسی تحریر سے آپ خوش یا مطمئن ہو جائیں یا وہ کسی بھی طرح سے آپ کو متاثر کردے۔ زاہدہ حنا ہماری ایک سینئر کہانی کار ہیں اور بیان میں جس پختگی کی ہم ان سے توقع کر سکتے ہیں‘ اس کا اظہار وہ بڑی مہارت سے کرتی ہیں۔ مشاہدے کی ان کے ہاں ویسے بھی کمی نہیں ہے۔ 
افسانے کے آخر میں جو المیہ موڑ دیا گیا ہے‘ ایسا موڑ‘ وہ بے شک المیہ نہ ہو‘ یا ایسا ڈرامہ ہر افسانے کے لیے ضروری ہوتا ہے ورنہ افسانہ ایک پھیکا اور بے سود بیانیہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ اس افسانے کو یہ موڑ نہ بھی دیتیں تو بھی اپنی دلچسپی کے حوالے سے یہ ایک نہایت کامیاب اور دلپذیر تحریر ہے۔ خاص طور پر انہوں نے حضرت امیر خسرو ؒکے جابجا جو ٹچ لگائے ہیں انہوں نے افسانے کو چار چاند لگا دیئے ہیں‘ خاص طور پر روئی دُھننے کا آہنگ یعنی ''از پئے جاناں جاں ہم رفت‘ 
ایں ہم رفت و آں ہم رفت‘ ایں ہم رفت‘ آں ہم رفت... اور خاص طور پر وہ مصرع‘ بہ لبم رسیدہ جانم تو بیا کہ زندہ مانم‘ اور‘ سرِ من فدائے راہے کہ سوارخواہی آمد‘‘ اس سیاق و سباق میں دل کو گداز سے کچھ اس طرح بھر دیتے ہیں کہ آپ پر باقاعدہ رقت طاری ہو جاتی ہے۔ 
اور اب آخر میں مصطفی ارباب کی کچھ باقی ماندہ نظمیں: 
بگولا 
میں... ایک بگولے میں رہتا ہوں... مجھے نہیں معلوم... میں اس کے اندر کیسے آ گیا... بہت تیز گھومتا ہے یہ... ایک پل بھی نہیں رُکتا... تنہا کر دیتا ہے... یہ بگولا... کسی کو بُلا بھی نہیں سکتے... اس بگولے کے اندر... ایک چکر میں رہتے ہوئے... کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا... پتا ہی نہیں چلتا... بگولا خوشی کا ہے یا غم کا... ایک طرف ہو جائو... میں... تمہارے قریب سے گزر رہا ہوں۔ 
نفرت 
مجھے... نفرت چاہیے... آدمی... محبت کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے... مگر نفرت کی عدم دستیابی... آدمی کو نہتا کر دیتی ہے... بازار میں... غیر ملکی نفرت کے پیکٹوں پر... میعادی تاریخ ہوتی ہے... چند ہی دنوں بعد... نفرت قابلِ استعمال نہیں رہتی... جستجو نے مجھے پاگل کر دیا ہے... مجھے ایسا برانڈ چاہیے... جس پر میعادی تاریخ نہ ہو... مائی لارڈ... مجھے خود سے کرنے کے لیے... تھوڑی نفرت دے دیجیے۔ 
خوف 
میری رگوں میں... خون کی جگہ... خوف دوڑنے لگا ہے... غیر یقینی کو... میں یقین کے ساتھ دیکھتا ہوں... میرے خیالات ہر پل لرزے میں مبتلا ہوتے ہیں... میری دلیری... ایک داستان کے سوا... کچھ بھی نہیں... میں ایک داستان بننا نہیں چاہتا... ہمارے ساتھ رہ کر... ہمارے خواب بھی... ہم جیسے ہوتے جا رہے ہیں... میرا خواب... میرے دل میں... خودکش حملہ کر سکتا ہے۔ 
آج کا مطلع 
ہے اور فضا‘ آب و ہوا اور ہی کچھ ہے 
یک طرفہ محبت کا مزا اور ہی کچھ ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved