تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     15-05-2014

کارگل کی کہانی ‘بھارت کی زبانی

وی پی ملک نے مزید لکھا تھا ''دوسری طرف ہمارے پاس موسم کی بے پناہ سختی سے نمٹنے کا مکمل بندو بست نہیں تھا ‘‘ اور جب بھارتی ہائی کمانڈ نے ناردرن ایریا میں یہ توپیں تقسیم کر دیں تو دو دن بعد ہی ان کے لیے ایک انتہائی خطرناک صورت حال پیدا ہو گئی جس پر بھارتی آرمی چیف ان الفاظ میں بلبلا اٹھا '' ہر گزرتا دن ہمارے لیے پریشانیاں لے کر آ رہا تھا ۔یہ بوفورس توپیں ہم نے منگوا تو لیں لیکن ان کے استعمال کے چند روز بعد ہی ان کے فاضل پرزے ناپید ہو گئے‘‘آپ اندازہ کریں کہ جس جنگ میں دشمن کی یہ حالت ہو ،اسے دیکھتے ہوئے ایک عام آدمی بھی بے ساختہ پکار اٹھے گا کہ پاکستانی فوج نے اس وقت اپنے دشمن کی شہ رگ کو قبضہ میں لیا جب اس کے پاس اپنے دشمن کی تمام کمزوریاں تھیں...اوپر میں نے کارگل جنگ کے وقت بھارتی فوج کی کمزوریاں بیان کی ہیں۔ اب آتے ہیں کارگل اور اس سے ملحقہ علاقوں کی اندرونی سیاسی صورت حال کی طرف، جہاں،مسلم آبادی اور بدھ مذہب کے پیرو کاروں میں انتظامی اختیارات کی جنگ انتہا کو پہنچنے کے بعد ہمیشہ امن ہوگیا تھا ۔ بھارتی فوج کے میجر جنرل اشوک کرشنا اور بھارت کے ''انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلیکٹ سٹڈیز‘‘ کے ڈائریکٹر پی ر چری اپنی کتابKargil-turns the Table کے صفحہ17 پر پاکستانی فوج کی اس کارکردگی پر لکھتے ہیں'' لداخ میںمسلمانوں اور بدھوئوں میں بڑھنے والی تلخی اور خلیج کو شاید جی ایچ کیو نے نئی دہلی سے سب سے پہلے اور درست مانیٹر
کیا۔دلی حکومت کی طرف سے کارگل کی لیہہ کے بندو بستی حلقے سے علیحدگی مقامی آبادیوں میں شورش پیدا کر رہی تھی‘‘۔ کارگل کی مقامی آبادی میں بھارت کی مرکزی اور سری نگر حکومت کے خلاف بے چینی اور عدم اعتماد پیدا ہو چکا تھا کیونکہ بھارت نے لداخ کی اکثریتی آبادی کے عرصہ سے جاری شدید مظاہروں اور احتجاج کے با وجود پورے لداخ کو خود مختاری دینے کی بجائے صرف لیہ ضلع کو جو بدھ اکثریت پر مشتل ہے اسے''Titular Autonomous'' کونسل کا درجہ دے دیا ۔اس فیصلہ سے اکثریتی شیعہ مسلم آبادی پر مشتمل کارگل لداخ سے کٹ کر رہ گیا۔ 1999ء کے اوائل میں لداخ کے مسلمانوں اور بدھ مذہب کے پیروکاروں میں اختلافات کی خلیج اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ جب نئی دہلی نے لداخ کے بدھ اکثریتی علا قہ کو سیا سی وانتظامی طور پر خود مختاری دے دی تو کارگل اور اس سے ملحقہ دراس کی مسلم اکثریتی آبادی اس فیصلہ کے خلاف بھڑک اٹھی اور یہ خطہ دو متحارب گروپوں میں بٹ گیا۔ کارگل، بٹالک ترتوک کی کل آبادی تقریبا ایک لاکھ کے قریب ہے جس میں اسی فیصد سے زائد شیعہ مسلم ہیں۔ دراس جو سکردو سے ملتا ہے، وہاں کی آبادی دس ہزار سے زائد ہے جن میں95% سنی اور پانچ فیصد شیعہ ہیں جبکہ لداخ
میں بدھ مت انتہائی اکثریت میں ہیں۔۔۔ واجپائی کے بس کے ذریعہ دورئہ لاہور اور مشہور زمانہ لاہور ڈیکلریشن کی بھارتی فوج کی نظر میں اصل حقیقت کیا تھی، اس کے بارے میں اس وقت بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل وی پی ملک نے 3مئی1999 ء کو بھارت کے مشہور انگریزی اخبار دی ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ''حالیہ لاہور ڈیکلریشن سے کشمیر کی صورت حال پر کوئی اثر نہیں پڑا۔۔ ۔ اور بھارتی فوج کے اس وقت کے کمانڈر انچیف اپنی کتاب میں بڑے فخر سے تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ان کا ارینجڈاور '' پلانٹڈ ‘‘انٹرویو تھا۔
ہندوستان کی کارگل ریویو کمیٹی کی رپورٹ کے پیرا 8.20 پر ایک نظر ڈالیں'' Strategic surprise was achieved by Pakistan because this area had been free of LOC violations over a long period of time and was considered unsuitable for military operations, espacially during winter. کارگل پر معرکہ حق و با طل زوروں پر تھا تو بھارت کو کسی بڑی جنگ سے روکنے کیلئے پاکستان کے مخلص دوست جمہوریہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے کارگل سے ملحقہ بھارتی صوبہ لداخ میں'' ٹرگ ہائٹس‘‘ کے اس علاقہ میں سڑک کی تعمیر شروع کر دی جسے بھارت متنازع علا قہ سمجھتا تھا ۔ بھارتی صوبہ ارونا چل پردیش کے مغرب میں کیمنگ ضلع میں جمہوریہ چین کی طرف سے Provocative Force تعینات کر دی گئی اور کارگل تنازع کے چند دن بعد ہی چین کی افواج نے بھارتی صوبے ارونا چل پردیش کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود نفری میں کئی گنا اضافہ کر دیا جب بھارتی فوج نے 6 جون کو کارگل کی طرف بڑھنے کی ابتدا کی تو چین نے مشرقی لداخ میں دمچوک پر اپنی فوجوں کو پھیلا دیا ۔
جو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس آپریشن کے بارے میں سوائے چند لوگوں کے کسی کو کوئی اطلاع نہیں تھی ان کی خدمت میں جنرل وی پی ملک کے یہ الفاظ پیش خدمت ہیں '' میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کارگل کو اس حد تک خفیہ رکھنے میں اس لیے کامیاب ہوا کہ اس کے چند ایک افسران کو ہی اس آپریشن کا علم تھا‘‘۔
کارگل کیا تھا؟ اس کی کیااہمیت تھی؟ اسے بھارت کی ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کی اس رپورٹ کی آنکھ سے دیکھ لیا جائے جس میں لکھا ہے'' On The Indian Side, The Srinagar- Kargil-Leh road is the only surface communication link between Ladakh and the Kashmir valley. ۔ جنرل شاہد عزیز صاحب !کسی بھی ملک کی فوج کیا ہوتی ہے اس پر سر ونسٹن چرچل کے کہے ہوئے چند الفاظ یاد کرانا چاہتا ہوں..... 
''The Army is not like a limited liability company, to be reconstructed, remodelled, liquidated and refloated from week to week as the money market fluctuates. It is not an inanimate thing, like a house, to be pulled down or enlarged or structurally altered at the caprice of the tenant or owner; it is a living thing. If it is bullied, it sulks; if it is unhappy it pines; if it is harried it gets feverish; if it is sufficiently disturbed, it will wither and dwindle and almost die; and when it comes to this last serious condition, it is only revived
by lots of time and lots of money.''

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved