تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     15-05-2014

پولیو کی جنگ…پاکستان کو شکست کیوں؟

اسّی کی دہائی دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کے ممالک بھارت‘پاکستان اور بنگلہ دیش کے لیے پولیو کی بیماری کے حوالے سے بہت چیلنجنگ تھی۔پولیو وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا تھا اور اس کی ویکسین کا انتظام و اہتمام اس سطح کا نہیں تھا ،جیسا ہونا چاہیے۔1988ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پولیو کے خاتمے کے لیے طویل دورانیے کا پروگرام ترتیب دیا۔اس وقت دنیا کے ایک سو پچیس ملکوں میں پولیو وائرس بچوں کی معذوری کا سبب بن رہا تھا۔
ڈبلیو ایچ او نے 1988ء میں یہ اعلان کیا کہ 2000ء تک دنیا کو پولیو فری بنانے کا خواب پورا کیا جائے گا۔اس سلسلے میں ہر ملک کے مقامی ہیلتھ نیٹ ورک کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا ایک پورا سپورٹ سسٹم مہیا کیا ۔یوں پولیو کے خاتمے کے لیے متاثرہ ملکوں کی عالمی ادارہ صحت کے ساتھ ایک مشترکہ منظم کوشش کا آغاز ہوا۔
جنوبی ایشیا کے تین ممالک پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش میں سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل‘کم و بیش ایک ہی جیسے مگر پولیو کے حوالے سے جو کمٹمنٹ بھارت اور بنگلہ دیش کی رہی‘وہ بدقسمتی سے پاکستان میں نظر نہیں آئی ۔حکومتیں آتی جاتی رہیں‘مگر صحت کے حوالے سے‘پولیو فری ملک کا خواب پورا کرنے کے سلسلے میں بھارت اور بنگلہ دیش کے اندر‘ان کے محکمہ صحت کے نیٹ ورک میں‘ہائی لیول ایگزیکٹوز سے لے کر بنیادی اینٹی پولیو ورکرز تک ،جو دیانتداری، لگن اور شدتِ احساس نظر آتی ہے، اسی کی بدولت آج بھارت اور بنگلہ دیش دونوں پولیو فری ملک کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔یاد رہے کہ پولیو فری ملک کا درجہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ متواتر تین سال تک پولیو کا کوئی کیس سامنے نہ آئے۔
بھارت میںپولیو کا آخری کیس 2011ء میں سامنے آیا تھا۔ تب صوبہ بہار سے تعلق رکھنے والی بچی رخسار پولیو کا شکار ہوئی تھی۔ اب مسلسل تین برس سے پولیو کا کوئی نیا مریض سامنے نہیں آیا۔یوں 2014ء میںبھارت کو پولیو فری ملک کا درجہ ملا۔ بنگلہ دیش کو یہ سٹیٹس 2006ء میں مل گیا تھا۔ اس کے برعکس پاکستان میں صورت حال افسوسناک رہی ہے۔دنیا کے تین پولیو زدہ ملکوں میں پاکستان سرفہرست ہے۔افغانستان اور نائیجیریا سے زیادہ پولیو مریض پاکستان میں ہیں۔
پولیو وائرس کے باعث پاکستان پر سفری پابندی لگ چکی ہے۔ بھارت نے پاکستان سے اپنے ہاں جانے والے ہر شخص کے لیے پولیو سرٹیفکیٹ کا حصول لازمی قرار دے دیا ہے۔ہمارا نیشنل ازم اس پر جتنا بھی تکلیف محسوس کرے لیکن یہ ایک زمینی حقیقت ہے، جس کی وجہ سے آج پاکستان کو دنیا بھر میں شرمندگی کا سامنا ہے۔ یہ پابندی لگنا اس لیے ضروری ہے کہ پولیو سے متاثرہ ایک مریض سے مزید 200بچے پولیو کا شکار ہو سکتے ہیں۔بنگلہ دیش کو 2006ء میں پولیو فری ملک قرار دے دیا گیا تھا۔پھربھارت سے پولیو وائرس دوبارہ بنگلہ دیش پہنچ گیا، جس پر وہاں کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے
Extensive Operationکے نام سے پورے ملک میں پولیو ویکسین کے چھ رائونڈ مکمل کیے، جس کے بعد سے اب تک بنگلہ دیش میں کوئی بچہ پولیو سے معذور نہیں ہوا۔بنگلہ دیش کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ایک ایگزیکٹو، جو وہاں اینٹی پولیو مہم کو ہیڈ کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے ‘نے اپنی اس شاندار کامیابی کا راز یہ بتایا کہ یونین کے سب سے چھوٹے وارڈ کو بھی پولیو مہم کے لیے ہم نے آٹھ بلاکس میں تقسیم کر کے ویکسی نیشن مکمل کی، اس طرح کوئی ایک بچہ بھی محروم نہیں رہتا۔دوسری بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے دور درازگائوں میں بھی پولیو ورکرز کے ساتھ ہیلتھ ایگزیکٹو خود گاہے بگاہے ٹیم کا حصہ بنتے رہے۔ 
بھارت کے دو صوبے بہار اور اتر پردیش پولیو سے سب سے زیادہ متاثر تھے۔وہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے، جن میں پولیو ویکسین کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے تھے۔بھارت میں اس مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے‘مساجد کے آئمہ‘ مولویوں اور علماء کو شامل کیا گیا۔
پاکستان میں فاٹا اور شمالی وزیرستان میں پولیو کے 46کیسز موجود ہیں۔وہاں لوگ پولیو کے ڈراپس پلانے میں خود مزاحم ہیں۔ وہ مذہبی حوالوں سے اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ کوئی بتائے کہ آج تک پاکستان میں علماء کرام ‘امام مسجد‘مولوی حضرات کو کیوں منظم طریقے سے اینٹی پولیو مہم کا حصہ نہیں بنایا گیا؟ایسے اشتہارات دیکھنے میں آئے ہیںجن میں ایک مفتی صاحب لوگوں سے استدعا کر رہے ہیں کہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں ،لیکن ایسا محسوس ہوا کہ ان کے پیغام میں بھی مکمل Clartiyموجو د نہیں بلکہ ابہام کی کیفیت ہے۔ایسے تمام ابہام دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک غلط فہمی یہ پھیلائی گئی کہ پولیو ویکسین پینے والوں میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے ۔بنگلہ دیش کی مثال ہی دیکھ لیجیے‘ 80کی دہائی سے وہاں پولیو ویکسی نیشن ہو رہی ہے ، اس کے باوجود بنگلہ دیش اس وقت دنیا کا وہ ملک ہے جہاں کم رقبے پر زیادہ لوگ آباد ہیں۔ایک سروے کے مطابق بنگلہ دیش میں ایک ہزار افراد فی مربع کلو میٹر پر آباد ہیں ۔بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی آباد ی پولیو ویکسین کے حوالے اس ابہام کا خاتمہ کرتی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں خواہ وہ حکومت میں شامل ہو یا پھر اپوزیشن کا حصہ ہوں‘صحت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہیں۔
اس وقت کسی بھی قسم کی احتجاجی سیاست سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ جو جماعتیں جس صوبے میں بھی حکومت کا حصہ ہیں وہ وہاں عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔کے پی کے اس وقت پولیو سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ ہے۔ وہاںتحریک انصاف کو ایک منظم مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں بھی اینٹی پولیو ورکرز کے لیے حالات اتنے سازگار نہیں، جتنے ہونے چاہئیں۔اینٹی پولیو ورکرز گھر گھر جا کر بچوں کو ڈراپس پلاتے ہیں مگر انہیں ان کا وہ معاوضہ، جو ڈھائی سو ،تین سوتک ہے‘ بھی وقت پر نہیں ملتا۔احتجاج کرنے پر انہیں دھمکایا جاتا ہے کہ آپ نوکری چھوڑ دیں ۔بنگلہ دیش اور بھارت کی طرز پر پولیو مہم کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ان کے تجربات سے پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ جب بھارت اوربنگلہ دیش نے خود کو معذوری دینے والی بیماری سے پاک کر لیا ہے تو پھر پولیو کی جنگ میں شکست پاکستان کا مقدر کیوں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved