تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     15-05-2014

قیامت:سائنس اور مذہب

سائنس خدا پہ یقین نہیں رکھتی یا یوں کہیے کہ بڑے مغربی سائنسدانوں کی اکثریت خدا کا وجود تسلیم نہیں کرتی ۔ قیامت کے بھی وہ اس طرح قائل نہیں، جیسے مذہب بیان کرتاہے ۔ مذہب سے یہاں وہ دین مراد ہے ، آدمؑ سے جس کا آغاز اور حضرت محمدﷺ پہ جس کی تکمیل ہوئی۔ خدا ان سب کو ''مسلم‘‘ قرار دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ مذہب کا حوالہ اب قرآن مجید اور رحمتہ اللعالمینؐ ہی سے لیا جائے گا ۔ باقی کتب اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں اور تمام دوسری شریعتیں منسوخ ہو چکیں۔ 
جہاں تک زمین اور زندگی کے خاتمے کا تعلق ہے ، سائنس حادثات اور خطرات کو دل و جان سے تسلیم کرتی ہے ۔ وہ کائنات اور کرّہ ء ارض کے بڑے سانحات کی تفصیل بھی بڑی حد تک جمع کر چکی اور مستقبل میں ان سے بچنے کے لیے اپنی سی کوشش بھی کر رہی ہے ۔ ان میں کسی دمدار سیارے اور شہابِ ثاقب کے ہم سے ٹکرائو سے لے کر عظیم الشان آتش فشانی (Great Volcanic Eruption)کے نتیجے میں فوری تباہی اور بعد میں راکھ اور دھوئیں سے کرّ ہ ء ارض کی فضا ڈھک جانے سے آب و ہوا کا شدید سرد ہو جانا شامل ہے ۔ آتش فشانی بعض اوقات سونامی کو بھی جنم دیتی ہے ۔ ہمارا سیارہ پھر بھی محفوظ ہے ۔ نظامِ شمسی کے سب سے بڑے بلکہ تمام دوسرے سیاروں کے مجموعی حجم سے بڑے کرّے ''مشتری ‘‘کا چاند ''او‘‘ (io)کا تذکرہ اس ضمن میں بے دلچسپ ہے ۔مشتری اور اس کے دوسرے چاندوں کی کششِ ثقل کے درمیان پھنس جانے کی وجہ سے وہاں بے حد شدید آتش فشانی ہوتی ہے ۔ وہاں مائونٹ ایورسٹ سے اونچی کئی چوٹیاں موجود ہیں جنہیں لاوے نے تقریباً مکمل طور پر ڈھانپ رکھا ہے۔ 
سائنس ہی کی مہلک ایجاد ایٹمی ہتھیار بھی زندگی با آسانی ختم کر سکتے ہیں ۔سو سال قبل پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوا تھا ۔ روس دوبارہ جارحانہ روّیہ اختیار کر رہا ہے ۔سرد جنگ ایک بار پھر باقاعدہ شروع ہو چکی۔یوکرین اس محاذ آرائی کا میدان ہے اور اس کشمکش میں تیزی آرہی ہے ۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ساڑھے چار کروڑ آبادی کی اس ریاست کے لیے سترہ ارب ڈالر کی امداد منظور کی جا چکی۔ عالمی مالیاتی ادارے کا سربراہ اس قدر بڑی رقم کو معمولی قرار دیتے ہوئے مزید کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ بہرحال ،اس سارے پسِ منظر میں جوہری تباہی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ روس اور امریکہ دنیا کے تقریبا 95فیصد ایٹمی ہتھیار وں کے مالک ہیں ۔
کرّہ ارض کئی قسم کے کائناتی المیوں کا شکار ہو سکتا ہے ۔سب سے بڑے ستارے یا سورج اپنا سارا ایندھن جلا چکنے کے بعد جب موت کا شکار ہوتے ہیں تو ان میں سے بعض بلیک ہول میں بدل جاتے ہیں ۔ بلیک ہول ہر چیز کو نگل لیتاہے ؛حتیٰ کہ ہمارے سورج جیسے ستاروں کو بھی ۔ بعض بڑے ستارے اپنے خاتمے پر ایک سیکنڈ میں اس قدر توانائی خارج کرتے ہیں ، جتنی ہمارا سورج اپنی دس ارب سال کی پوری زندگی میں بھی نہیں کرسکتا۔ اسے گیما رے برسٹ (Gamma Ray Burst)کہتے ہیں۔ اگر توانائی کا یہ دھارا ہمارے سیارے پر آپڑے تو اس کی ساری فضا بشمول اوزون اور آکسیجن ختم ہو کر رہ جائے گی ؛لہٰذا موت ہمارا مقدر ہوگی ۔ فی الحال ایسا کوئی ستارہ نظر نہیں آتا، جس سے ہمیں فوری طور پر یہ خطرہ لاحق ہو۔ 
مذہب قیامت کا جو منظر بیان کرتاہے ،مجھے وہ سورج کی طبعی موت سے مشابہہ لگتا ہے ۔ مثلاً یہ کہ سورج اور چاند اکٹھے کر دیے جائیں گے ۔ سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ اپنے اختتام پر ہر ستارے کی طرح سورج بھی پھیلے گا اور اپنے قریبی دو تین سیارے ہضم کر جائے گا۔ اچنبھے کی بات یہ ہے کہ اس صورت میں دو تین ارب سال پہلے ہی گرمی میں اضافے سے کرّہ ء ارض کا پانی خشک اور انسان سمیت سب جانوروں کو ختم ہو جانا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ قرآن جس قیامت کا ذکر کرتا ہے ، وہ صرف نظامِ شمسی تک محدود نہیں ۔وہ ستارے بکھر جانے کا انکشاف کرتاہے ۔ یعنی کم از کم ہماری کہکشاں تو ضرور اس حادثے سے برباد ہوگی۔ مزید جو آیات اس ضمن میں نازل ہوئیں ، ان سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ ہمارا ستارا ، جسے ہم سورج کہتے ہیں، زمین کے بے حد قریب آجائے گا۔ مثلاً یہ کہ پہاڑ دھنکی ہوئی اون سے مشابہ ہوں گے (پگھل جائیں گے ؟ ) زمین میں شدید زلزلے برپا ہوں گے (اس کی ممکنہ وجہ پہاڑوں کا پگھل جانا ہو سکتی ہے کہ وہ زمین کو لرزنے سے بچائے رکھتے ہیں )۔ زمین اپنے اندر کے بوجھ باہر نکال پھینکے گی ۔ یہ سورج کے قریب آنے پر اس کی ہولناک کشش سے بھی ممکن ہے اور زلزلوں سے بھی ۔ زمین گول کی بجائے روٹی کی طرح سیدھی ہو جائے گی ۔یہ غالباً قرآن نہیں ، حدیث میں بتایا گیا ہے ۔ 
کل استاد محترم پروفیسر احمد رفیق اختر سے اس موضوع پر دیر تک گفتگو ہوئی ۔ وہ ایک دو دن قبل ہی برطانیہ سے واپس آئے ہیں۔ لندن والوں نے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کرسی پر بٹھا کر ان کی ہڈی پسلی ایک کر ڈالی ہے ؛لہٰذا یکسوئی مفقود تھی ۔ بہرحال ان کا خیال یہ تھا کہ کششِ ثقل میں نقص پیدا ہوگا اور اس سے پہلے کہ سورج اپنے خاتمے کے دوران پھیل کر چاند کو نگلے ، چاند ہی سورج میں جا گرے گا۔ یہ توجیہ اس لیے بھی درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ ستاروں کے بکھرنے کی وضاحت کرتی ہے ؛لہٰذا نظامِ شمسی تک محدود نہیں ۔ سب سے اہم بات بتانا میں بھول گیا۔ایک خوفناک ترین دھماکہ ، جسے قرآن ''القارعہ‘‘ کہتاہے۔ مزید یہ کہ ان سب آیات کو (آخری تین پارے ) ترتیب سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب جمع کر لی جائیں تو قیامت کی مکمل تصویر بن جائے گی۔ مثلاً یہ کہ ''اس دن آسمان ایسا ہوگا ، جیسے پگھلا ہوا تانبا‘‘۔ جائزہ لینا ہوگا کہ پگھلا ہوا تانبا کیسا ہوتاہے ۔ ایک جگہ یہ درج ہے کہ اس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی ۔ 
قارئین کرام! آج کی تحریر کو کالم کی بجائے باآوا زِ بلند سوچنا (Loud Thinking)سمجھیے ۔انشاء اللہ جلد ہی میں اس موضوع پر ایک مربوط مضمون لکھنے کی کوشش کروں گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved