تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     16-05-2014

ایک سلیوٹ کا فاصلہ

پاکستانی جمہوریت کا چھابہ اسی دن الٹ گیا تھا‘ جب وزیردفاع کی حیثیت میں فوج کے سربراہ ایوب خان‘ مرکزی کابینہ کے اجلاسوں میں بیٹھنے لگے۔ جمہوری حکمرانی کا بھرم ہی ہوتا ہے‘ یہ کھل جائے تو نہ اس کی اتھارٹی باقی رہتی ہے اور نہ دبدبہ۔ اس وقت کے سیاستدانوں کی ایک غلطی کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس کے باوجودباربار وہی غلطی دہراتے ہیں۔ باربار بھگتتے ہیں۔ باز نہیں آتے۔ 1958ء میں آئی ہوئی فوجی حکومت1972ء میں اس وقت گئی‘ جب مشرقی پاکستان الگ ہوا۔ہم نے ''ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا‘‘ کہتے ہوئے ملک کو ایک نیا آئین دیا اور اس کے تحت ایک دیسی ٹائپ کی نیم قبائلی جمہوریت چلاتے ہوئے‘ حقیقی جمہوریت کی جستجو میں آگے بڑھنے لگے۔ سچی بات ہے ‘ ہمیں جمہوریت کا ہرگز کوئی تجربہ نہیں تھا۔انگریز کی حکومت نے رخصت ہوتے ہوئے جو نوآبادیاتی نظام حکومت ہمیں ورثے میں دیا‘ اسی کو جمہوریت قرار دے کر ہم نے انہی کا طرز حکومت جاری رکھا‘ جو انگریز نے 1935ء میںتیار کر کے ہمارے سپرد کیا تھا۔ ہم پاکستان لے کر علیحدہ ہو گئے۔ بھارتی حکمرانوں نے اپنے ملک میں نئی بورژوا جمہوری روایات اپناتے ہوئے قومی سرمایہ داری کی بنیاد رکھ دی اور ہم نے اپنے سے زیادہ مشرقی پاکستانیوں کو ان کی اکثریت کے حقوق دینے کے بجائے‘ کالونی بنانے پر زور لگا دیا۔ 1972ء میں انہوں نے دوبارہ ''آزادی‘‘ حاصل کی اور ہمیں پہلی بار آئین بنا کر‘ جمہوریت کا تجربہ شروع کرنا پڑا۔ ابھی ہم گرتے پڑتے‘ پیروں پر کھڑے ہونے کا طریقہ سیکھ رہے تھے کہ باہم دست و گریباں ہو گئے۔ لااینڈآرڈر کنٹرول کرنے کے لئے فوج بلائی تاکہ وہ‘ ہمارے ہاتھوں سے ایک دوسرے کا گریبان چھڑا کر‘ ہمیں تمیز سے رہنا سکھائے۔ 
شہروں میں امن بحال کرنے کے لئے ہم نے پھر فوج کو خود بلایا۔ وہ آ گئی۔ ہم ایک دوسرے کا گریبان چھوڑ کر‘ بندے بن گئے اور جنرل ضیا نے ہمیں جمہوریت سکھانے کے لئے پھر سے ابتدائی تعلیم دینا شروع کر دی۔ پہلے بلدیاتی انتخابات کرائے۔ پھر غیرجماعتی مجلس شوریٰ بنائی۔ غیرجماعتی انتخابات کرا کے پرہیزی قسم کی جمہوریت کھڑی کی اور اسی حالت میں حادثے کا شکار ہو کر‘ ہمیں چھوڑ گئے۔ان کی جگہ چیف آف آرمی سٹاف کی ذمہ داریاں مرزا اسلم بیگ نے سنبھالیں۔ انہوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کئے بغیر‘ ہمیں جمہوریت کی فل ڈوز دے دی۔ جنرل حضرات نے انتظامی امور سے پیچھا چھڑانا چاہا۔ لیکن ہم انہیں کھینچ کھینچ کے واپس لانے کی کوشش کرتے رہے۔ بی بی کی حکومت بنی‘ تو نوازشریف نے اسے فوج کے ہاتھوں برخاست کراکے‘ اپنی حکومت بنا لی۔ بی بی نے فوج کے ہاتھوں نوازشریف کو فارغ کرا دیا۔ جنرل حضرات نے انتخابی کاری گری سے‘ اقتدار دوبارہ بی بی کے حوالے کیا۔ اب نوازشریف نے جنرل حضرات سے مدد مانگنا شروع کی۔ جنرلوں نے بی بی کو فارغ کر کے‘ پھر نوازشریف کو لا بٹھایا۔ اس مرتبہ نوازشریف نے عوام کے ساتھ‘ فوج میں اپنی حمایت پیدا کرنے کی سوچی۔ پنجاب میں گھوسٹ سکول ڈھونڈنے کے لئے فوجیوں کو گائوں گائوں بھیج دیا۔ واپڈا فوج کے سپرد کر دیا گیا۔ریلوے کے لئے بھی فوج کی خدمات طلب کر لیں اور آخر میں نظام عدل کو موثر بنانے کے لئے بھی فوج کی مدد مانگ لی۔ پھر وہی ہو گیا‘ جو ہمارے ساتھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ 
جمہوریت کی قسمت تھی کہ جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد جمہوریت کو ایک بار پھر پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع دیا گیا۔ آصف زرداری چالاک ثابت ہوئے۔ انہوں نے حکومت اپنے پاس رکھی۔ شروع میں ایک دو ٹیسٹ فائر کر کے‘ اپنی طاقت پرکھی۔ فوراً سمجھ گئے کہ ان کا دائرہ اختیار کتنا ہے؟ اس میں سمٹ کر بیٹھ گئے۔ طوفانی یلغاروں کا سامنا کرتے ہوئے دو سہاروں پر تکیہ کیا۔ نوازشریف کی مدد لے کر احتجاجی تحریکوں سے بچتے رہے۔ جنرل کیانی نے جو کچھ کہا‘ وہی کیا۔ آصف زرداری کو جمہوریت جس حال میں ملی تھی‘ اسی حال میںنوازشریف کے حوالے کر کے‘ گھر جا بیٹھے۔ جمہوریت کو اپنی نشوونما کے لئے مزید چند برس سہاروں کی ضرورت تھی۔ جیسے کسی نرم و نازک پودے کو سہارا دینے کے لئے‘ اس کے گرد حفاظتی باڑ کھڑی کی جاتی ہے۔ ہماری جمہوریت کو بھی مزید چند سال ایسی حفاظتی باڑ کی ضرورت تھی۔ زرداری نے اس باڑ کو اپنی حد میں رکھا اور روزمرہ کے انتظامی معاملات میں مداخلت نہیں ہونے دی۔ 
اس مرتبہ اقتدار سنبھالنے کے بعد‘ نوازشریف بظاہر توجمہوریت کی بالادستی کے ارادے لے کر آئے‘ مگر ایک ہی سال میں‘ وہ اس حالت کو پہنچ گئے‘ جس میں ہماری لاغر اور اپاہج جمہوری حکومتیں‘ اپنے آخری وقت میں پہنچتی ہیں۔ پنجابی کا محاورہ ہے ''اے خود پھنسنے والی‘ تجھے کون بچائے؟‘‘ (آپے پھسدی ایں تینوں کون بچائے؟)پرویز مشرف جلاوطنی میں بے یارومددگار پڑے تھے۔ الیکشن کا بھوت چڑھا‘ تو پاکستان آ گئے۔ عوامی مقبولیت کا بڑا زعم تھا۔ اس کا بھرم اہل کراچی نے کھول دیا۔ صاف ظاہر ہو گیا کہ پاکستانی عوام نے انہیں قومی سیاست میں کوئی کردار دینے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ انتخابات میں حصہ لے بھی لیتے‘ تو اپنی شکست کی آواز بن کردیہات اور شہروں میں گھومتے۔ چند کروڑروپیہ‘ مزید خرچ کر کے اور اپنے بالوں میں سفید بال بڑھا کر‘ گھر بیٹھ جاتے یا بیرون ملک عیش کرتے۔ بادشاہوں کی لڑائی میں وہی کامیاب کہلاتا ہے‘ جو دوسرے کا تخت و تاج چھین کر‘ اسے دربدر کر دے۔ اس سے زیادہ تکلیف دینا بادشاہوں کو زیب نہیں دیتا۔ پورس نے سکندر سے ہارنے کے بعد بہت پتے کی بات کہی تھی کہ ''میرے ساتھ وہ سلوک کرو‘ جو بادشاہ بادشاہوں سے کرتے ہیں۔‘‘ حکمت و دانائی کی صدیوں پرانی یہ بات‘ نوازشریف کو یاد نہ آئی اور وہ شکست خوردہ پرویزمشرف کو مزید شکست دینے پر تل گئے۔ فوج کے زیرسایہ سیاست سیکھنے اور دوبار حکومتیں کرنے کے بعد‘ انہیں علم ہو جانا چاہیے تھا کہ اس ادارے کے ساتھ چلنے کا طریقہ کیا ہے؟ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ فوج کے موجودہ افسر‘ کتنے عرصے کے بعد اقتدار کی عادت اور سیاسی اختیارات کے اثرات سے نکل سکتے ہیں؟ سیاسی حکمت و شعور سے کام لیا جائے‘ تو یہ کم از کم 30 سال کا عرصہ بنتا ہے۔ ہم آج اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ فوج اور منتخب حکومت کے درمیان تقسیم کار کا جو ''نظام‘‘ وجود میں آیا تھا اور جسے آصف زرداری نے بڑی کامیابی سے چلاتے ہوئے‘ اقتدار کی امانت نئی منتخب حکومت تک پہنچائی۔ اس طرح کا ایک طویل زمانہ‘ کسی ابتری کے بغیر گزر جائے‘ تو ہم مکمل جمہوریت کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔ ہم میں اتنا صبر نہیں۔ فوج بار بار اقتدار سے باہر ہوئی اور منتخب حکومتوں نے بار بار اسے واپس بلایا۔ کہنے کو سب یہ کہتے ہیں کہ ہم مکمل جمہوریت بحال کریں گے۔ مگر تمام سیاستدانوں نے جمہوریت بحال کرنے کی طویل مدتی منصوبہ بندی کبھی نہیں کی۔ اگر ایوب خان کے10سالہ دور اقتدار کے دوران سیاستدان طے کر لیتے کہ ہم آنے والے 30برسوں میں فوج
کو مکمل طور پر اس کے پیشہ ورانہ کردار تک محدود کر دیں گے‘ تو آج مکمل جمہوریت بحال ہو چکی ہوتی۔ یہ سب کہانیاں ہیںکہ ''زمانہ بدل گیا۔ فوج بدل گئی۔ اب فوج کبھی نہیں آ سکتی۔‘‘1999ء میں وزیراعظم نوازشریف کو یقین دلایا گیا تھا کہ اب فوج نہیں آ سکتی۔ وہ آ گئی۔ آ کے 10سال رہ بھی گئی۔ شاید آج بھی وہ‘ اسی خیال میں ہیں‘ مگر کراچی کی اعلیٰ سطحی میٹنگ دیکھ کر‘ میں نے تو سب کچھ دیکھ لیا۔ اقتدار اعلیٰ پر فائز تمام ممتاز شخصیات کے ساتھ‘ اعلیٰ فوجی قیادت کی ممتاز شخصیات ‘ اپنی اپنی وردی اور رینکس کے ساتھ‘ ایک ہی میز کے گرد تشریف فرما تھیں۔ فوجی افسر ایک سلیوٹ کے فاصلے پر رہے‘ تو وہ اپنے ادارے کا نمائندہ ہوتا ہے۔ سلیوٹ کا فاصلہ مٹ جائے‘ تو طاقت کی میکنزم بروئے کار آ جاتی ہے۔ جب بھی کسی منتخب حکومت نے سلیوٹ کا فاصلہ مٹایا‘ اپنی آئینی بالادستی گنوا دی۔ کاش! کوئی موجودہ سیاستدانوں کو یہ بتانے والا ہوتا کہ 50ء کے عشرے میں جمہوری حکومت نے ایوب خان کو وردی میں وزیربنا کے‘ کابینہ میں اپنے ساتھ نہ بٹھایا ہوتا۔ سلیوٹ کا فاصلہ برقرار رکھا جاتا اور جان لیتے کہ فوج کے تربیت یافتہ اور ڈسپلن کے پابند افسران‘ سیاستدانوں کی بے مغز‘ غیرمنطقی اور کھلی کھلی گفتگو سن کر کیا محسوس کرتے ہیں؟ کاش! انہیں کوئی بتاتا کہ اقتدار کے اعلیٰ ترین ایوانوں کی میٹنگوں سے واپس آ کر‘ جنرل حضرات کی آپس میں کیا گفتگو ہوتی ہے؟ ملک و ملت کے نام نہاد نجات دہندوں کے ذاتی کردار کی تمام کہانیاں‘ فوجیوں کے علم میں ہوتی ہیں۔ اعلیٰ قیادت کا کردار ہی فوج کو سلیوٹ کے فاصلے پر رکھتا ہے۔ فوج بھی ایسا کر کے مطمئن رہتی ہے۔ بھارت میں چرن سنگھ‘ دیوی گوڑا‘ آئی کے گجرال‘ لال بہادر شاستری‘ اندراگاندھی‘ راجیوگاندھی اور نرسیما رائو‘ دبدبے والی شخصیات نہیں تھے‘ لیکن کردار ہر ایک کا بے داغ تھا۔ فوج ان میں ہر ایک سے ‘ ایک سلیوٹ کے فاصلے پر رہی۔ جس دن ہمارے سیاسی حکمرانوں میں کوئی ایک بھی بے داغ اور مثالی کردار کے ساتھ وزیراعظم بن گیا‘ فوج اسی وقت سے اقتدار کے خواب دیکھنا چھوڑ دے گی۔مجھے نہیں پتہ کل کی میٹنگ میں کیا ہوا؟ لیکن میں تصور کر سکتا ہوں کہ اندر کی باتیں سننے کے بعد جنرل حضرات میٹنگ سے نکلتے ہوئے کیا سوچ رہے ہوں گے؟''جو لوگ اپنے معاملات چلانے کے لئے ہمیں مانیٹر بنا کر‘ ہمارے سامنے اپنی اپنی کارروائی پیش کرتے ہیں‘ کل ہم انہیں کس جذبے کے ساتھ سلیوٹ کریں گے؟‘‘ ماضی کی ہر کہانی نے اسی طرح نئی ٹرن لی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved