تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     16-05-2014

زلیخا کی آنکھوں میں روشنی کس کی ہے؟

چودہ سو سال سے اسلام کے دشمن جو خواب دیکھ رہے تھے‘ وہ خواب اب انہیں جیتی جاگتی شکل میں نظر آنے لگا ہے۔ 
چودہ صدیوں سے پروپیگنڈہ ہو رہا تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ اسلام قتل و غارت کا مذہب ہے۔ اسلام میں عورتوں کا کوئی مقام نہیں۔ مسلمان عورتوں کی تعلیم کے دشمن ہیں۔ اسلام میں غلامی ایک باقاعدہ ادارہ ہے۔ لونڈیوں کی ریل پیل ہوتی ہے۔ ہر بات کا فیصلہ تلوار کرتی ہے۔ اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ اقلیتوں کو مار دیا جاتا ہے۔ 
چودہ صدیوں سے اسلام کے سکالر ان اعتراضات کا جواب دے رہے تھے۔ تقریروں‘ خطبوں‘ کتابوں کے ذریعے پروپیگنڈے کا توڑ کر رہے تھے۔ ثابت کر رہے تھے کہ اسلام میں قتل و غارت کیسے جائز ہو سکتی ہے جب کہ لشکروں کو اجازت ہی نہیں کہ بچوں‘ عورتوں اور لڑائی میں شریک نہ ہونے والے دشمنوں کو قتل کریں۔ انسانوں کا قتل تو دور کی بات ہے‘ درختوں‘ فصلوں اور روئیدگی تک کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ کھیت سے خوشہ توڑنے والے لشکری کا کان شیر شاہ سوری نے کاٹ کر‘ کان کٹے لشکری کو پورے پڑائو میں پھرایا تھا۔ ترک سلطان نے بغیر اجازت شلغم نکالنے والے سپاہی کو پھانسی دے دی تھی اور پھر صدیوں تک کسی لشکری کو ہمت نہ ہوئی کہ کسی کے کھیت پر بُری نظر ڈالے۔ سکالر رات دن بتاتے رہے کہ عورتوں کی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی مردوں کی۔ ''علم کی طلب ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے‘‘۔ اور یہ کہ علم علم ہے‘ اسلام میں دینی اور غیر دینی علوم کی تفریق کا کوئی ثبوت نہیں۔ علم جہاں بھی ہے اور جس قبیل کا بھی ہے‘ مومن کی میراث ہے۔ سکالر حوالوں سے‘ حقائق سے اور مثالوں سے ثابت کرتے رہے کہ اسلام جس برداشت کی تلقین کرتا ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں۔ وہ تو غیر مسلموں کے عبادت خانوں کی حفاظت کی گارنٹی دیتا ہے اور ان کے طرزِ زندگی‘ طرزِ عبادت سے کوئی تعرض نہیں کرتا۔ 
اس سارے عرصہ میں اسلام کے دشمنوں کا پروپیگنڈہ مجموعی طور پر کامیاب نہ ہو سکا۔ اس لیے کہ یہ محض کتابوں میں تھا اور محض تقریروں کے ذریعے پھیلایا جاتا تھا۔ کتابیں پڑھنے والے دنیا میں ہمیشہ اقلیت میں رہے ہیں۔ تقریریں صرف وہی سنتے تھے جو موجود ہوتے تھے؛ چنانچہ یہ پروپیگنڈہ اپنی موت آپ مرتا رہا۔ جس کسی نے کوئی کتاب پڑھی‘ دشمنانِ اسلام کی خرافات سے آگاہ ہوا۔ جو کسی آگ اگلنے والے مقرر کے دائرۂ سماعت میں ہوا‘ اس نے تقریر سنی اور بس۔ 
قتل و غارت کرنے والا اور قتل و غارت کو جائز سمجھنے والا پہلا گروہ خارجیوں کا تھا۔ نہروان کی لڑائی میں امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کا خاتمہ کیا۔ اٹھارہ سو میں سے صرف نو بچ پائے۔ یہ اور بات کہ مدتوں کہیں نہ کہیں ظاہر ہوتے رہے اور عقائد تو مرتے ہی نہیں‘ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں اور کوئی بھی‘ کسی بھی وقت‘ ان عقائد کو اپنا سکتا ہے! 
دوسرا بڑا گروہ قتل و غارت کو اپنا اسلوبِ زندگی بنانے والا حسن بن صباح کے فدائیوں کا تھا۔ البرز کے پہاڑوں میں‘ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ‘ وہ الموت کے قلعہ ہی میں رہا اور اس کے فدائی مسلمانوں کو قتل کرتے رہے۔ پھر وہ تاریخ کے آرکائیو میں چلے گئے۔ 
بیسویں صدی کا آخری ربع۔ مواصلات میں ایسا انقلاب لایا کہ دنیا ششدر رہ گئی۔ اخبارات‘ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن اور موبائل فون نے دنیا کے ہر حصے کو دوسرے سے ملا دیا۔ اوقیانوس کے اُس پار سی این این‘ پردۂ سیمیں پر جو کچھ دکھاتا تھا‘ ہزاروں میل دور‘ ڈِش کی مدد سے لوگ دیکھ لیتے تھے۔ لیکن اصل میں زمین اس وقت سُکڑی جب انٹرنیٹ آیا۔ زمین کیا سکڑی‘ بچے کی ہتھیلی سے بھی زیادہ چھوٹی ہو گئی۔ ای میل‘ کرۂ ارض کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ثانیوں میں پہنچنے لگی۔ ویب سائٹس نے ایک ایک فرد اور ایک ایک گروہ کو اتنی قوت بخشی کہ پوری پوری سلطنتیں سینکڑوں برسوں تک اتنی قوت نہ مہیا کر سکیں۔ اس قوت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ ایک فرد‘ صرف ایک فرد نے وکی لیکس کے ذریعے کرۂ ارض کی عظیم ترین طاقت کو ہلا کر رکھ دیا۔ چھوٹی سی کوٹھری کیا‘ غار میں بیٹھ کر دنیا بھر کو اپنی مٹھی میں لپیٹا جا سکتا ہے! 
مسلمانوں کی بدقسمتی کہ ایک بار پھر وہ گروہ پیدا ہو گئے جو خارجیوں اور فدائیوں کے نقشِ قدم پر چل کر مسلمانوں کو قتل کرنے لگے۔ ان کی تبلیغ بھی بندوق سے ہے‘ فقہ بھی بندوق سے‘ تعلیم بھی بندوق سے اور مجوزہ حکومت بھی بندوق سے۔ سکولوں‘ مدرسوں‘ بازاروں‘ مزاروں کو انہوں نے قتل و غارت کا نشانہ بنایا۔ ہزاروں سکول جلا کر خاکستر کردیے۔ عورتوں کو تعلیم کیا‘ ان کا گھر سے نکلنا بند کردیا۔ صحافیوں اور صحافتی اداروں پر حملے کیے۔ گویا یہ سب کچھ ناکافی تھا۔ سینکڑوں طالبات کو قید کر کے لونڈیاں قرار دیا اور فروخت کرنا شروع کردیا! 
چودہ سو سال سے اسلام کے دشمن جو خواب دیکھ رہے تھے‘ وہ خواب اب انہیں جیتی جاگتی شکل میں نظر آنے لگا ہے۔ اب ان کا انحصار لائبریریوں میں دھری کتابوں پر ہے‘ نہ محدود دائروں میں سنی جانے والی تقریروں پر۔ اب وہ پوری دنیا کو یوٹیوب کے ذریعے‘ فیس بک کے ذریعے‘ ٹوئٹر کے ذریعے اور لاکھوں کروڑوں ویب سائٹوں کے ذریعے بتا رہے ہیں کہ اسلام قتل و غارت کا مذہب ہے۔ مسلمان مسلمانوں ہی کے پرخچے اڑا رہے ہیں۔ قبروں سے لاشیں نکال کر چوراہوں پر لٹکا رہے ہیں۔ عورتوں کو مار رہے ہیں۔ چرچ جلا کر اعلان کرتے ہیں کہ یہ شریعت کے مطابق ہے۔ 
غیر مسلم ٹیلی ویژن چینلوں اور ویب سائٹوں کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہیں۔ ان کی چاندی ہو گئی ہے۔ وہ قتل و غارت کرنے والی اِن ''مسلمان‘‘ تنظیموں کے سربراہوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ ان کے انٹرویو لے کر سینکڑوں بار نشر کرتے ہیں۔ ان کی فلاسفی کی تشہیر کرتے ہیں۔ وہ غاروں میں ہیں یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر‘ نشرواشاعت کے غیر مسلم ادارے ان تک پہنچ جاتے ہیں اور خوب خوب کوریج دیتے ہیں۔ صرف ایک مثال اس سارے تماشے کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ نائیجیریا کی تشدد پسند تنظیم ''بوکوحرام‘‘ کے سرغنہ محمد یوسف کا بی بی سی نے 2009ء میں انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو میں محمد یوسف نے کہا کہ زمین گول ہونے کا تصور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس نے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ سورج کی حرارت سے پانی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور پھر بارش کی صورت میں برستا ہے‘ ہم اس سے بھی انکار کرتے ہیں کیونکہ یہ اسلام کے خلاف ہے۔ یہ انٹرویو کروڑوں اربوں افراد کو دکھایا اور سنایا گیا۔ پھر ویب سائٹس پر چڑھایا گیا۔ ہر روز اسے کروڑوں لوگ آج بھی دیکھتے ہیں اور مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں ایسی رائے قائم کرتے ہیں جو مرتے دم تک تبدیل نہیں ہوتی۔ آسٹریلیا کی صرف ایک ویب سائٹ پر کروڑوں لوگ یہ خبر‘ مع تصاویر‘ پڑھ چکے ہیں کہ ''بوکو حرام نے جن طالبات کو اغوا کر رکھا ہے‘ انہیں بارہ بارہ ڈالر میں بوکو حرام کی بجائے عسکریت پسند خرید رہے ہیں‘‘! 
اسلام کے دشمنوں کا اب ایک اور مزا بھی ہے۔ اس سے پہلے جب بھی تشدد پسند گروہ مسلمانوں میں اٹھتے تھے تو مسلمان سکالر بیک آواز انہیں رد کرتے تھے۔ اب کے یہ ہوا کہ تشدد پسند گروہوں کی پشت پر ایک طاقت ور مکتب فکر ہے جو ان کی تردید تو کیا کرے گا‘ ان کی تائید کر رہا ہے۔ یہ تائید ''خاموشی نیم رضا‘‘ کی صورت میں بھی ہے اور ببانگِ دہل بھی! اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جب چرچ جلا کر اسے شریعت کے مطابق قرار دیا گیا تو مخصوص مکتبِ فکر کے کسی ایک عالم نے بھی اس کی تردید نہیں کی۔ اسی طرح جب لاشیں قبروں سے نکالی گئیں تو ہم نوائی کرنے والے علما خاموش رہے! ان میں سے کچھ تو جان کے خوف سے منقار زیر پر ہیں لیکن اکثریت تشدد پسندوں کے عقائد‘ حکمت عملی اور قتل و غارت سے اتفاق کرتی ہے! 
غنی کاشمیری کا شعر خون کے آنسو رلاتا ہے ؎ 
غنیؔ روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کن 
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را 
کنعان کے بوڑھے شخص کی بھی عجیب قسمت تھی! 
روشنی اس کی آنکھوں کی تھی‘ نورِ چشم اُس کا تھا لیکن تابندگی اُس سے زلیخا کی آنکھیں حاصل کر رہی تھیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved