تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     16-05-2014

بوکو حرام

افریقہ کی سب سے بڑی زبان ہوسا میں تنظیم کا نام بوکو حرام ہے اور عربی میں وہ اپنے نام کا ترجمہ جماعت اہل سنت و الدعوۃ و الجہاد کرتی ہے ۔اس کے لیڈر ابو بکر شیخو (الشیخ) نے ایک ویڈیو میں تیل کی دولت سے معمور نائیجیریا کے لوگوں کو خبردار کیا ہے: ''مغربی تعلیم کے ایک سکول سے لڑکیوں کو اغوا میں نے کیا ہے اور آپ پریشان ہیں ۔میں کہتا ہوں مغربی تعلیم ختم کی جائے۔ میں نے آپ کی طالبات کو اغوا کر لیا ۔ میں انہیں منڈی میں فروخت کروں گا۔ انسانوں کی منڈی موجود ہے۔ مجھے بیچنے کا حکم ہے۔ میں عورتیں بیچوں گا ۔میں عورتیں بیچتا ہوں‘‘۔ افریقی تنظیم کا ہتھیار بند راہنما پروپیگنڈا کے نئے حربوں سے واقف ہے ۔ ایک ہفتے بعد ایک نئے ویڈیو میں غم زدہ والدین کو انتباہ کرتے ہوئے اس نے کہا ''اگر نائیجیریا کی حکومت نے ان کے ساتھیوں کو جیلوں سے آزاد نہ کیا تو آپ دوبارہ اپنی لڑکیوں کے منہ نہیں دیکھ سکیں گے‘‘۔ والدین کا کہنا ہے کہ اکثر طالبات مسیحی تھیں ۔ویڈیو میں تمام طالبات کو قرآن پاک کی تلاوت کرتے دکھایا گیا اور دو لڑکیاں بظاہر خوف و ہراس کی حالت میں کہتی ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کیوں کیا ؟ 
چودہ اپریل کو دار الحکومت ابوجا میں ایک اور دھماکے کے بعد جو 75افراد کی جان لے گیا‘شمال مشرقی صوبے چیباک میں گورنمنٹ گرلز سیکنڈری سکول کے ہاسٹل سے جو 276 طالبات اغوا کی گئی تھیں‘ اب تک بوکو حرام کی تحویل میں ہیں مگر شیخو ٹیپ کی اشاعت اور باغیوں کی گرفت سے فرار چند لڑکیوں کے بیانات سن کر اُن کی بازیابی میں مقامی حکام کی کوشش میں بین الاقوامی امداد بھی شامل ہو گئی۔ امریکہ کے بعد برطانوی‘ فرانسیسی‘ چینی اور دوسری امدادی ٹیمیں بھی تلاش میں مدد دینے 
کے لیے ابو جا پہنچ گئی ہیں۔ ہر چند کہ صدر گڈلک جوناتھن نے واقعہ کے تین ہفتے بعد اس کا اعتراف کیا تھا اوران ملکوں کا تعاون قبول کرنے میں بوجوہ تاخیر کی۔خاتون اول مشعل اوباما نے ماؤں کی تکریم کے دن جو تقریر کی‘ اس کا موضوع بھی یہی تھا۔ مادام مشعل نے کہا ''صدر اور میں لڑکیوں کے وسیع پیمانے پر اغوا کا سن کر صدمے کی حالت میں ہیں۔ مغویہ لڑکیوں میں ہم اپنی بیٹیوں کے چہرے دیکھتے ہیں‘‘۔ اتفاق سے صدر اوباما کے پیشرو جارج بش اور ان سے پہلے صدر کلنٹن کے ہاں بھی لڑکیاں پیدا ہوئیں جو ماں باپ کے سائے میں پرورش پاکر زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا مقام بنا چکی ہیں۔ امریکہ‘ لڑکیوں کی تلاش میں جاسوسی پروازیں کر رہا ہے اور خطے میں ڈرون طیارے بھی تعینات کر دئے گئے ہیں مگر امریکی کامیابی کا انحصار‘ نائیجیریا کے رویے پر ہے۔ شنید ہے کہ صدر جوناتھن کی حکومت‘ با غیوں کو زر یرغمال ادا کرنا چا ہتی ہے اور مذاکرات کی ایک ''کھڑکی‘‘ کی طرف اشارے کر رہی ہے۔ امریکہ اس خیال پر تنقید کے سوا کیا کر سکتا ہے ؟
بر صغیر کی طرح نائیجیریا بھی بر طانوی راج کا حصہ تھا ۔اس دور میں تیل کی صنعت کے علاوہ ریل‘ سڑک اور نہریں آئیں اور دوسرے ترقیاتی کا م ہوئے‘ مثلاً بجلی اور پانی کی فراہمی کے کئی منصوبے مکمل ہوئے ۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد دنیائے اسلام میں اسلامی ثقافت کی بحالی کے لئے جو تحریکیں ابھریں‘ بد قسمتی سے اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر رہیں کہ نوآبادیاتی دور میں انسان‘ ترقی کی راہ پر کئی قدم اٹھا چکا ہے اور ان تحریکوں کے لیڈر جس وڈیو پر آتے ہیں وہ بھی مغرب کی ایجاد ہے۔ علامہ محمد اقبال نے ایسی ہی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا ''آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا۔ منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں‘‘۔ بوکو حرام‘ شمال مشرقی نائیجیریا اور دو ہمسایہ ملکوں کیمرون اور نیجر میں فعال ہے۔وہ اس خطے میں خالص اسلامی ریا ست کا قیام چاہتی ہے جہاں شریعت کی حکمرانی ہو ۔اس کی شدت پسندی گزشتہ دس سال سے زیادہ عرصے میں دس ہزار اموات کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے؛ تاہم 2013ء میں سرکاری عقوبت خانے میں ساڑھے نو سو مبینہ شدت پسندوں کی موت کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نائیجیریا کی حکومت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر چکی ہے ۔کرپشن کے تعاقب میں آنے والی انتہا پسندی پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے ۔فروری میں نائیجیریا کے سٹیٹ بنک کے گورنر نے شکایت کی کہ تیل کی آمدنی سے کوئی بیس لاکھ ڈالر قومی خزانے میں نہیں آئے تو اسے سرکاری ملازمت سے نکال دیا گیا ۔یہ دولت مندوں اور ناداروں کی لڑائی معلوم ہوتی ہے جس میں فریقین ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں ۔ہیومن رائٹس واچ نے بوکو حرام پر الزام لگایا ہے کہ وہ بچوں کو بھی اپنی مسلح جدو جہد میں استعمال کرتی ہے ۔
13نومبر 2013ء کو امریکی حکومت نے اسے دہشت پسند تنظیم قرار دیا۔ ہلیری کلنٹن وزیر خارجہ تھیں۔ ان پر افریقی دہشت گردوں سے نرم سلوک کا الزام آیا اوردوسرے مبصروں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ایک چھوٹا سا فوجی دستہ‘ لڑکیوں کی بازیافت میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کر سکے گا۔بوکو نے طالبات کے اغوا پر اکتفا نہیں کیا ۔ چند ہفتے بعد اس نے شمال مشرقی نائیجیریا میں ایک پل اڑا دیا اور ایک ریٹائرڈ پولیس آفیسر کی بیوی اور دو بچوں کو اغوا کر لیا ۔پل نائیجیریا کو ہمسایہ ملک چاڈ سے ملاتا تھا جہاں پہاڑیوں میں دہشت گردوں کی کمیں گاہیں ہیں ۔بی بی سی کی ہوسا سروس کو انٹر ویو دیتے ہوئے نائیجیریا کے سابق حکمران جنرل ابراہیم بابا نے ملک کے مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ دہشت پسندوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جو اسلام کا نام‘ بدنام کر رہے ہیں۔ قطر میں علمائے دین کی یونین نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ بوکو حرام کے اقدامات اسلامی تعلیمات سے بہت دور ہیں ۔
نائیجیریا میں مسلما نوں کی آبادی پچاس فیصد سے زیادہ نہیں اور ان میں زیا دہ ترسیدھی سادی زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں مگر بوکوحرام ان کے کئی راہنماؤں کو موت کی سزا دے چکی ہے۔ اس نے پولیس‘ فوج اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کے ملازمین کو بھی موت کے گھاٹ اتارا۔ اس نے بے دریغ غیر مسلموں کا خون بہایا ہے۔ گرجا گھروں پر بم پھینکے ہیں۔ سکولوں کو نشانہ بنایا اور مغربی سیاحوں کو اغوا کیا ہے ۔وہ جدید تعلیم کو مغربی تہذیب کی یلغار کہتی ہے ۔سکول کی طالبات کے اغوا کے بعد جو ممتاز بین الاقوامی خواتین میدان میں نکلیں ان میں مسز اوباما کے علاوہ ملالہ یوسف زئی اور انجلینا جولی شامل ہیں مگر دہشت کار‘ اختلاف کرنے والوں سے بحث مباحثے کی بجائے انہیں قتل کر کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں ۔وہ دلیل و برہان کے قائل نہیں۔ وہ مسلم اکثریت اور مسلم اقلیت‘ غرض ہر جگہ سر گرم عمل ہیں ۔ان کے نام جدا جدا ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسی تقریباً تیس جماعتیں اور گروہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ان گروہوں کے آدمی حکومت میں بھی سرایت کر چکے ہیں‘ اس لئے صدر جاناتھن کی طرح پاکستانی حکمران بھی ان کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کر رہے ہیں اور نظم و نسق کو سیاسی مسئلہ بنا دیا ہے ۔ وہ ان کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں ۔حالانکہ ان میں سے زیادہ تر پاکستان کے آئین کو ہی نہیں مانتے۔ دوسروں پر اپنا نظریہ مسلط کر رہے ہیں ۔ وہ ایک ایسی ریاست کا قیام چاہتے ہیں جس میں شہریوں کی اکثریت ان کے نظرئیے کے تابع ہو ۔ وہ اس خیال کو رد کرتے ہیں کہ جدید جمہوریت‘ قدیم شورائی نظام کی جگہ لے رہی ہے۔ وہ الیکشن کو رد کرتے ہیں؛ کیونکہ وہ اس میں کامیاب ہونے کی امید نہیں کر سکتے ۔اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے کردار کو سراہنا چاہیے جو گزشتہ نصف صدی میں ارتقا کے عمل سے گزری ہے‘ حکمرانی میں شریک ہے‘ پارلیمانی پارٹی ہے اور الیکشن کے قواعد میں اصلاح کے لئے کوشاں ہے ۔نظام میں اصلاح کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اس لئے مرکز اور صوبوں میں بر سر اقتدار دوسری جماعتیں بھی اس کوشش میں شریک ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved