تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     17-05-2014

آخری زور کے بعد؟

سوچنے کی بات ہے کہ دہشت گردوںاور جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف‘ کراچی میں بقول وزیراعظم ''ٹی ٹوئنٹی‘‘ میچ شروع ہو جاتا ہے ۔ شہر میں معمول کی زندگی پھر بھی بحال نہیں ہوتی۔ اس کے بعد ریاست کے پاس کیا رہ جائے گا؟ ہمارے پاس اس سے زیادہ کوئی ہائی اتھارٹی موجود نہیں‘ جس نے کراچی میں بیٹھ کر فیصلہ کن آپریشن کے احکامات جاری کئے۔ اس خصوصی اجلاس میں ملک کے چیف ایگزیکٹو وزیراعظم نوازشریف‘ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف‘ ڈی جی آئی ایس آئی‘ سابق صدر آصف زرداری‘ گورنر سندھ ‘ وزیراعلیٰ سندھ اور ان کے علاوہ کراچی آپریشن میںمصروف رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل‘ سب موجود تھے۔ گویا صوبے اور مرکز دونوں نے اپنے اپنے تمام وسائل کراچی آپریشن میں جھونک دینے کا فیصلہ کر کے‘ آخری دائو لگا دیا ہے۔ اس کے بعد ہمارے پاس کوئی ایسی طاقت باقی نہیں رہ جاتی‘ جو دہشت گردوں اور مجرموں پر قابو پا سکے۔ کیا یہ آخری دائو لگانے کی ضرورت تھی؟ کسی بھی میٹروپولیٹن شہر کا نظم و نسق اور امن و امان برقرار رکھنے کے لئے شہری اتھارٹی کافی ہوتی ہے۔ اگر معاملات اس کے ہاتھ سے نکل جائیں‘ تو دوسری کوئی اتھارٹی کنٹرول بحال نہیں کر سکتی۔ کراچی اس کی زندہ مثال ہے۔ اس شہر پر برا وقت اسی وقت آ گیا تھا‘ جب پولیس ناکام ہو گئی اور اس نے غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے امن و امان بحال کرنے کی کوشش کی۔ 
یہ کوشش ناکام ہونے کے بعد رینجرز کی مدد لی گئی۔ یوں تو وہ برسوں سے کراچی میں سرگرم ہے‘ لیکن گزشتہ 8مہینے سے تو مکمل چارج اس کے سپرد کردیا گیا۔ پولیس کی ڈیوٹی لگی کہ وہ رینجرز کی معاونت کرے۔ اب اتھارٹی کہاں کہاں تقسیم ہوئی؟ گنتے جایئے۔ پولیس‘ ضلعی انتظامیہ‘ صوبائی حکومت‘ سکیورٹی کے وفاقی ادارے‘ حکمران سیاسی جماعتیں‘ وفاقی وزارت داخلہ‘ صوبائی وزارت داخلہ اور آخر میں رینجرز۔ مجھے دنیا میں کہیں کی مثال بتا دیں‘ جہاں 2کروڑ کی آبادی سے بڑے شہر پر کنٹرول کرنے کے لئے‘ اتنے اداروں کو بیک وقت مامور کیا گیا ہو اور وہ کامیاب رہے ہوں۔ 
50ء کے عشرے میں لاہور میں امن و امان برقرار رکھنا دشوار ہو گیا تھا۔ شہر میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔ مرکزی اتھارٹی جنرل اعظم خان کے پاس چلی گئی اور انہوں نے دنوں کے اندر‘ نہ صرف امن قائم کر دیا بلکہ شہر میںصفائی کا معیار بھی دنیا کے بہترین شہروں کے برابر ہو گیا۔ بے شک آج کے کراچی سے اس زمانے کے لاہورکا موازنہ کرنا درست نہیں۔ یہ مسئلے کا صرف ایک جزو ہے‘ یعنی سنٹرل اتھارٹی۔ ممبئی میں کراچی سے بہت پہلے مافیائوں نے جال بچھا لیا تھا۔ وہاں کے شہریوں کا حال بھی وہی تھا‘ جو ان دنوں کراچی کے شہریوں کا ہے۔ وہاں سب سے بڑا کاروبار فلم سازی کا ہے۔ بھتہ خوروں نے ہر سینما اور ہر ڈسٹری بیوٹر سے بھتہ وصول کرنا شروع کر دیا۔ پھرایکٹروں اور پروڈیوسروں کی باری آئی۔ تاجروں اور صنعت کاروں پر دھاوا بولا گیا۔ غنڈہ عناصر کے پاس اسلحہ بھی اتنا ہی وافر تھا‘ جتنا کراچی میں پایا جاتا ہے۔ ہمارے شہری نظم و نسق کے ذمہ داروں کو ممبئی آپریشن کی تفصیل معلوم کرنا چاہئیں۔ مافیائوں کے کنٹرول میں آئے ہوئے اس بڑے شہر پر صرف پولیس کے ذریعے کیسے قابو پایا گیا؟ یہ کہانی لمبی ہے۔ مگر ایک بات بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ ہے سنٹرل اتھارٹی۔ وہ پولیس کے سپرد کر کے‘ اسے ہر طرح کی مداخلت سے آزاد کر دیا گیا۔ آج 15سال ہونے کو آئے ہیں‘ ممبئی کو کنٹرول کرنے والا مافیاختم ہو چکا ہے۔ کاسموپولیٹن شہروں میں چھوٹے جرائم پر دنیا میں کوئی بھی پوری طرح قابو نہیں پا سکا‘ لیکن کوئی بھی شہری انتظامیہ‘ اپنی اتھارٹی سے دست بردار نہیں ہوئی۔ ہمارے پڑوسی صوبے بھارتی پنجاب میں‘ انتہاپسندوں نے بدامنی پھیلا رکھی تھی۔ وہاں بھی حکومت نے ہر طرح کا جتن کر کے دیکھا۔ نیم فوجی دستے استعمال کئے گئے‘ ہنگامی حالات کا اعلان کر کے خفیہ اداروں سے بھی مدد لی گئی۔ دہشت گردی ختم نہ ہو سکی۔ بھارتی حکومت نے بھی متعدد ناکامیوں کے بعد فیصلہ کیا کہ صوبے میں ایک پولیس چیف لگا کر‘ امن و امان کی بحالی کی ذمہ داریاں اس کے سپرد کر دی جائیں۔ شرط صرف ایک تھی ۔ سنٹرل اتھارٹی پولیس چیف کے پاس ہو گی۔ کوئی صوبائی یا وفاقی حکومت اس پر دبائو نہیں ڈالے گی۔ کوئی سیاسی جماعت یا گروہ کسی کی سفارش نہیں کر سکے گا۔ یہ سب کچھ ہو گیا‘ تو پولیس چیف نے خود ایک منصوبہ بنا کر پورے صوبے میں‘ اس پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ آج بھارتی پنجاب میںمکمل امن و امان ہے۔ ہمارے اور بھارت کے انتظامی ڈھانچے ملتے جلتے ہیں۔ دوسرے ملکوں نے اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق کاسموپولیٹن شہروں کا امن و امان برقرار رکھا۔ مثلاً ٹوکیو میں جرائم بہت بڑھ گئے‘ تو پولیس کو مکمل 
اختیار دے دیا گیا کہ وہ جو چاہے طریقہ کار اختیار کرے‘ اس کے کاموں میں کوئی مداخلت نہیںکرے گا۔ حکومت کو صرف شہر کے اندر امن چاہیے۔ پولیس نے اختیارات ملتے ہی شہر کے مافیائوں کے لیڈرجمع کئے اور کہا کہ ہمارے پاس دو طریقے ہیں۔ تمہیں ختم کر دیں‘ یا جرائم ختم کر دیں۔ پہلا طریقہ اختیار کریں گے‘ تو بے پناہ خون خرابہ ہو گا۔ ہماری جنگ شہر کی گلیوں اور محلوں میں ہو گی۔ نہ تمہارے خاندان محفوظ رہیں گے‘ نہ ہمارے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو حدود میں لے آئو۔ مناسب گزراوقات کے لئے اپنی آمدنی کی حدیں مقرر کر لو اور جواب میں ہمیں پرامن ٹوکیو دے دو۔ مافیائوں کا کام پیسہ بٹورنا ہوتا ہے۔ ٹوکیو پولیس نے پیش کش کر دی کہ ناجائز فروشی‘ جوئے خانوں‘ رقص گاہوںاور ناجائز کاموں کے دیگر مراکز میں‘ تم بھتہ مقرر کر لو۔ ہم کسی شہری سے یہ شکایت نہ سنیں کہ اسے جوئے خانے میں لوٹا گیا یا ناجائز فروشی کے کسی بھی اڈے پر‘ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ کوئی بھی شہری اپنے ساتھ ہونے والے ظلم یا ناانصافی کی شکایت لے کر آیا‘ تو ذمہ دار تم ہو گے۔ ایسی صورت میں یا شہر سے باہر چلے جانا یا جیل کے اندر۔ میرے دوست بتاتے ہیں کہ ٹوکیو میں یہ انتظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ کوئی بھی ناجائز 
فروش یا قماربازی کا اڈہ چلانے والا‘ اگر کسی شہری سے زیادتی کر دے‘ تو مافیا کے لوگ فوراً ہی موقع پر پہنچ کر‘ اس کی مرمت کرتے ہیں۔ پولیس مداخلت نہیں کرتی۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ مافیا والے بھرے بازار میں‘ جس کی پٹائی کر رہے ہیں‘ اس نے یقینی طور پر کسی شہری کو لوٹا یا اس کے ساتھ بددیانتی کی ہے۔ مجرم جانے اور مافیا جانے۔ شہر میں امن رہتا ہے۔ جرمنی نے ایک اور طریقہ اختیار کیا۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ ناجائز فروشی‘ عیاشی اور جوئے کے سارے کاروبار کو حکومت خود سنبھال لے۔ ایک محکمہ بنا۔ تمام مے خانے‘ رقص گاہیں‘ جوئے کے اڈے ‘ حتیٰ کہ قحبہ خانے ‘ سب سرکاری انتظام میں لے لئے گئے۔ ایسے تمام مقامات پر جانے والوں کو حکومتی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ سرکاری عملے میں کسی کی ہمت نہیں کہ وہ جوا کھیلنے والوں سے حصہ پتی مانگے یا ناجائز فروشوں سے بھتہ لے۔ سارے کام حکومت خود کرتی ہے۔ جوئے خانوں سے لے کر مے خانوں تک ‘ ہر کاروبار میں موقع پر ہی مخصوص ٹیکس وصول کر لیا جاتا ہے اور اس کے عوض حکومت‘ شہریوں کو تحفظ بھی فراہم کرتی ہے اوران کے ساتھ زیادتی بھی نہیں ہونے دیتی‘ کیونکہ ان سارے کاموں میں کسی غنڈے کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے فرینکفرٹ میں مافیائوں کا وجود نہیں ہے۔ان تمام مثالوں میں ریاست نے دو طریقے اختیار کئے۔ ہر طرح کی بیرونی مداخلت اور سفارشوں سے محفوظ سنٹرل اتھارٹی یا علاج بالمثل کرتے ہوئے‘ غنڈوں کو گزراوقات کی محدود سہولتیں مہیا کر کے‘ قیام امن میں انہیں مدد گار بنالینا۔ کسی بھی کاسموپولیٹن شہر میں مکمل امن و امان اور قانون کی پابندی نہیں ہوتی۔ لندن میں آپ فٹ پاتھ پر سوٹ کیس رکھ کر گھنٹی کا بٹن دبا کے مڑیں‘ تو آپ کا سوٹ کیس غائب ہوتا ہے۔نیویارک میں پولیس خود بتاتی ہے کہ جیب میں زیادہ پیسے لے کر نہ گھومیں اور خالی جیب بھی نہ جائیں‘ تاکہ کوئی اچکا ‘آپ کو چاقو دکھا کر رقم مانگے‘ تو آپ کے پاس سے دس بیس ڈالر نکلنے چاہئیں۔ ایک پیسہ بھی نہ ملنے پر اچکا‘ آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
میں نے متعدد مثالیں پیش کر کے ‘یہ عرض کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپ نے ایس پی سے شروع ہو کر رینجرز اور آخر میں چیف آف آرمی سٹاف تک ‘کراچی کا امن بحال کرنے کے لئے سب کی مدد لے کر دیکھ لی۔ لیکن ہم نے جو طریقہ بھی اختیار کیا‘ وہ زبردستی کا تھا۔بندے مار دو۔ بندے اٹھا لو۔ گلیوں میں گھس جائو۔ گھروں میں گھس جائو۔ ایسا کر کے‘ لوگوں کو ڈرایا تو جا سکتا ہے‘ ڈسپلن میں نہیں لایا جا سکتا۔ قانون کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔ ایسا کرنے کے لئے تمام اچھے برے عناصر کی رضامندی اور تعاون ضروری ہوتا ہے۔ بکتربند گاڑیوں میں مسلح پولیس کے دستوں کی یلغاریں چند لمحوں کی دہشت تو ضرور پھیلا دیتی ہیں۔ اپنے لئے لوگوں سے عزت نہیںلے سکتیں۔میرے خیال میں کراچی کی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں‘ صرف ایک شخص نے حکمت کی بات کی کہ ''شہر میں بلدیاتی انتخابات کرا کے‘ کنٹرول منتخب نمائندوں کے سپرد کر دیا جائے۔‘‘ حیرت ہے‘ یہ بات ڈی جی رینجرز نے کی۔ دھاگے کا گچھا الجھ جائے‘ تو زور لگانے سے نہیں کھلتا۔ صرف اس کا سرا پکڑنا پڑتا ہے اور وہ خود بخود کھلنے لگتا ہے۔زورآزمائی جتنی بھی کی جائے گی‘ دھاگہ ٹوٹتا رہے گا۔ کھلے گا نہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved