ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ‘ رواں صدی کا دوسرا بڑا سیاسی و سماجی معجزہ رونما ہوا۔ پہلا معجزہ امریکہ میں ہوا، جہاں صدیوں پرانا تعصب ‘ نئی سوچوں کی لہروں میں بہہ گیا۔ وہی امریکہ‘ جہاں کبھی کالوں کو بسوں ٹرینوںمیں علیحدہ بیٹھنا پڑتا اور کوئی کالا‘ گوروں کے حصے میں گھس جاتا‘ تو مار مار کے اس کا بھرکس نکال دیا جاتاتھا۔تیس پینتیس برس پہلے یہ سوچنا بھی محال تھا کہ امریکہ میں کوئی سیاہ فام بھی صدر مملکت بن سکتا ہے۔ باراک اوباما نے جب اپنی انتخابی مہم شروع کی‘ اس پر حیرت کا اظہار کیا گیا۔ بیشتر لوگوں کا خیال تھا کہ اوباما اپنی پارٹی کی طرف سے‘ امیدوار ہی نامزد نہیں ہو سکے گا۔ لیکن اس اکیلے شخص نے اپنی مہم اتنی توانائی‘ ذہانت اور محنت سے چلائی کہ نہ صرف وہ دیکھتے ہی دیکھتے پارٹی کے اندر مقبول ہوا‘ عام امریکی شہریوں کے ذہنوں میں بھی بس گیا۔ اوباما نے جان میکین کو بھاری اکثریت سے انتخابی شکست دے کر‘ امریکہ میں منصب صدارت حاصل کیا۔ کم و بیش ایسا ہی معجزہ بھارت میں ہوا۔ مودی بھی‘ اوباما کی طرح ایسے طبقے سے تعلق رکھتا ہے‘ جسے سماج میں کم تر سمجھتے ہوئے‘ نفرت سے دیکھا جاتا ہے۔ نچلے اور دھتکارے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے والے‘ یہ دونوں افراد اس وقت دنیا کے طاقتور ترین حکمران ہیں۔ ایک دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ جمہوریت کا سربراہ ہے اوردوسرا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا منتخب وزیراعظم ۔ ملک اور کہانیاں الگ الگ ہیں۔ معجزہ ایک سا ہے۔
کسی بھی ملک کے جمہوری مزاج کا اندازہ کرنا ہو‘ تو وہاںاقتدار میں آنے والوں کا پس منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان کہلانے کو تو ایک جمہوری ملک ہے‘ مگر بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد یہاں غریب خاندان سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص‘ وزارت عظمیٰ کا عہدہ حاصل نہیں کر سکا۔ مشرقی پاکستان کے لوگ سیاسی طور پر بیدار تھے۔انہیں جب کبھی مغربی پاکستان کے حکمران طبقوں سے گٹھ جوڑ کر کے وزارت عظمیٰ ملی‘ تو وہاں سے متوسط طبقے کے افراد بھی وزیراعظم بنے۔ وہ ہم سے الگ ہوئے‘ تو ہماری وزارت عظمیٰ پر‘ جاگیرداروں اور رئیسوں کا قبضہ ہو گیا۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں جمہوری نظام قسطوں میں آتا رہا۔ مگر اس نظام کے اندر تمام شہریوں کو برابر کے جو حقوق حاصل ہوتے ہیں‘ وہ میسر نہیں ہیں۔ اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ متوسط طبقے کا آدمی‘ اسمبلیوں میں بھی داخل نہیں ہو سکتا۔ بھارتی معاشرہ ‘رشتوں کو غیرانسانی رویوں کی بنیاد پر استوار کرنے میں سرفہرست ہے۔ وہاں صرف امیر غریب کی تقسیم نہیں، رنگ‘ نسل‘ ذات اور پیشوں کی تقسیم بھی انسانوں کے درجات کا تعین کرتی ہے۔ یوں سماجی عصبیت تہہ در تہہ پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں کسی کو آگے بڑھنا ہو‘ توبے شمار رکاوٹیں عبور کرنا پڑتی ہیں۔ غریبی کی چھت توڑ کر کوئی اپنا سر اوپر نکال لے‘ تو ذات پات کے رسوم و رواج اسے روک دیتے ہیں۔ سب سے نچلی ذات رکھنے والا‘ سب سے کم تر سمجھا جاتا ہے۔
مودی کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس کا تعلق نچلی ذات سے ہے اور پیشے کے اعتبار سے بھی وہ انسانی وقار سے محروم‘ محنت کش خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی ماں دوسروں کے گھروں میں کام کرتی تھی۔ باپ چائے بیچتا تھا اور مودی ریلوے سٹیشن پر مسافروں کوچائے پلایا کرتا تھا۔ اس طرح کی سماجی حیثیت رکھنے والا‘ یورپ اور امریکہ میں تو اچھے خواب دیکھ سکتا ہے، برصغیر میں نہیں اور خصوصاً بھارت میں تو بالکل نہیں۔ ایسے تنگ نظر اور غیر انسانی رسومات میں جکڑے ہوئے معاشرے کے اندر‘ کچلے ہوئے طبقوں سے نکل کر‘ اگر کوئی ملک کے ممتازترین عہدے تک جا پہنچے‘ تو بھارت جیسے ملک میںاس کا یہ کارنامہ ‘ تعصبات کے مونٹ ایورسٹ کو تسخیر کرنے کے مترادف ہے۔ مودی نے نہ صرف وزارت عظمیٰ حاصل کی بلکہ نہرو خاندان کے بعدوہ‘ سب سے زیادہ پارلیمانی اکثریت لے کر ‘ مضبوط ترین وزیراعظم کی حیثیت میں سامنے آئے۔
نریندر مودی کی سیاسی ترقی بھی دلچسپ ہے۔ وہ درمیانے درجے کی تعلیمی اہلیت حاصل کر کے‘ آر ایس ایس سے وابستہ ہوا۔ یہ بھارت کی فاشسٹ تنظیم ہے، جسے قائم کرنے والے کھلم کھلا ہٹلر اور مسولینی سے متاثر تھے۔ آر ایس ایس انتہائی متعصب اور جارحیت پسند پارٹی ہے‘ جو اچھوتوں اور مسلمانوں سے شدید نفرت رکھتی ہے۔ مودی کی سیاسی تربیت اسی پارٹی کے اندر ہوئی۔ یہ پارٹی چونکہ اپنے نظریات کی بنا پر تمام طبقوں کے ووٹ حاصل نہیں کر سکتی تھی، اس لئے مختلف جماعتوں کے پردے میں چھپ کر انتخابی سیاست کرتی رہی۔ پہلے یہ جن سنگھ کے پردے میں رہی۔ وہ زمانہ سیکولرازم اور آزاد خیالی کا تھا۔ جن سنگھ پر انتہاپسندی کا لیبل اتنے نمایاں طور سے لگا کہ اس کے لئے سیاست کرنا مشکل ہو گیا۔ 1980 ء میں مختلف جماعتوں کے ساتھ مل کر‘ بھارتیہ جنتا پارٹی بنائی گئی اور اتحادی جماعتوں کے پردے میں جن سنگھ کا اصلی چہرہ چھپا لیا گیا۔ بی جے پی نے عام بھارتیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے‘ سیکولرازم کا نعرہ اپنا لیا، لیکن اندر سے وہ ہندوازم کی سیاست کو فروغ دیتی رہی۔ رام مندر کا تنازعہ کھڑا کر کے‘ اس نے اپنے چہرے سے نقاب اٹھا دیا، لیکن اس کے لیڈر مذہبی تنگ نظری سے انکار کرتے رہے۔ بابری مسجد کو شہید کرنے کے بعد‘ بی جے پی کا اصل روپ سامنے آ گیا، مگر اس کی قیادت ڈھٹائی سے اپنے سیکولر ہونے کے دعوے پر قائم رہی۔ اسی دعوے کے تحت اس نے پہلی مرتبہ ایک مخلوط حکومت میںوزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کیا۔ اٹل بہاری واجپائی ملک کے وزیراعظم بنے۔ ان کے دور اقتدار میں ہندوتوا کا نعرہ پس منظر میں چلا گیا۔ واجپائی ایک مقبول وزیر اعظم بننے میں کامیاب رہے۔
نریندر مودی نے آر ایس ایس کے کارکن کی حیثیت سے دلی میں قدم رکھا اور ایل کے ایڈوانی کے قریب ہو گئے۔ وہیں سے انہوں نے ٹیلیویژن پر ٹاک شوز میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کر دیا۔ وہ بی جے پی کے نمائندے کی حیثیت سے بیٹھتے۔ تھوڑے ہی عرصے میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت ان کی صلاحیتوں سے متاثر ہوئی اور انہیں پارٹی ہیڈکوارٹر میں بڑے لیڈروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھے کے مواقع ملنے لگے۔ ایڈوانی‘ ان پر زیادہ مہربان ہو گئے اور انہیں اچانک گجرات کے صوبائی انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا۔ بی جے پی صوبائی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی۔ وزارت اعلیٰ کا قرعہ مودی کے نام نکلا۔ اس کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ وہ ایک انتھک اور مضبوط قوت ارادی کے انسان ہیں۔ وقت سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں کرتے۔ جہاں بھی ان کاذاتی مفاد ہو‘ اسے حاصل کرنے کے لئے جائز ‘ ناجائز کا فرق بھول کر‘ ہر قیمت پر کامیابی چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے گجراتی مسلمانوں کو مسلسل تختہ مشق بنایا۔ گودھرا کا ڈرامہ رچا کر‘ اس کی آڑ میں ہندو انتہاپسندوں کو گجراتی مسلمانوں پر ظلم و ستم کی کھلی آزادی مہیا کی۔ پولیس اور صوبائی انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ فسادیوں کو روکنے کی کوشش نہ کریں۔ جہاں پر مسلمانوں کی طرف سے مزاحمت ہوتی نظر آئے‘ وہاںآگے بڑھ کر فسادیوں کی مدد کریں۔ ان وحشیانہ فسادات میں اڑھائی تین ہزار مسلمان بچے‘ عورتیں اور مرد شہید ہوئے۔ ان کے کاروبار اور مکانات تباہ کر دیئے گئے۔بے گھر ہونے والوں کی بڑی تعداد آج بھی کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے ،لیکن مسلمانوں کے خلاف اس کارروائی سے مودی کو متعصب ہندوئوں میں مقبولیت حاصل ہو گئی۔ مودی نے اپنے آپ کو آر ایس ایس کا وفادار کارکن ثابت کر کے‘ اس کے لیڈروں کو ہمنوا بنا لیا۔ آر ایس ایس نے ‘ بی جے پی میں مودی کی پشت پناہی شروع کر دی۔ بی جے پی میں بہت سینئر اور
بڑا سیاسی قد کاٹھ رکھنے والے لیڈر موجود تھے۔ ایل کے ایڈوانی‘ رام منوھر جوشی‘ راج ناتھ‘ ارون جیٹلی‘ سشما سوراج اور درجنوں صف اول کے لیڈر موجود تھے ۔ ان کے ہوتے ہوئے نریندر مودی‘ قومی سطح کے قائدین میں نہیں جا سکتے تھے۔مودی نے دو طاقتوں پر انحصار کرتے ہوئے سارا دائو ان پر لگا دیا۔ ایک آر ایس ایس کی قیادت اور دوسرے بھارت کے بڑے سرمایہ دار۔ سرمایہ داروں کو خوش کرنے کے لئے مودی نے گجرات کے ریاستی وسائل ان کے قدموںمیں ڈھیر کر دیئے۔ بے تحاشا سہولتیں فراہم کیں اور جو زمین انہوں نے مانگی‘ مودی نے اس کے مالکان کو اونے پونے دام دے کر زبردستی بے دخل کیا اور پولیس کی سرپرستی میں سرمایہ داروں کو قبضے دلائے۔ مودی گجرات کی جس ترقی کا کریڈٹ لیتے ہیں‘ وہ درحقیقت سرمایہ داروں کی مہربانیاںہیں ‘ جنہوں نے اندھا دھند نفع اور سستی لیبر سے فائدہ اٹھانے کے لئے‘ کھل کر سرمایہ کاری کی۔ سیاسی طور پر آر ایس ایس نے پارٹی کے اندر مودی کی مدد کی اور سماجی طاقتوں میںبھارتی سرمایہ دار مودی کے سرپرست بن گئے۔پارٹی میں کوئی ایسا سینئر لیڈر نہیں تھا جو مودی کی پشت پناہی کرنے والی ان دو بڑی طاقتوں کے دبائو سے نکل سکے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ‘ یکے بعد دیگرے مودی کی تاجپوشی کے فیصلے ہوتے گئے۔ پہلا فیصلہ یہ ہوا کہ روایت سے ہٹ کر انتخابی مہم کی ابتدا میں ہی وزارت عظمیٰ کا امیدوار سامنے لایا جائے۔ یہ فیصلہ ہو گیا‘ تو تمام سینئر لیڈروں کو پھلانگتے ہوئے مودی وزارت عظمیٰ کے امیدوار بن گئے۔ آر ایس ایس کی مضبوط تنظیمی طاقت گلی گلی برسرعمل ہو گئی اور سرمائے کی طاقت اپنے جوہر دکھانے لگی۔ جلسے جلوسوں کے انتظامات پر روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا اور میڈیا پورے کا پورا خرید کرمودی کے لئے وقف کر دیا گیا۔ اس کے خلاف لکھنے اور بولنے والے تمام صحافیوں کو یا تو خرید لیا گیا‘ یا ان کے تبادلے غیرموثر شعبوں میں کر دیئے گئے۔ کانگریس حکومت میں ہونے کے باوجود‘ دونوں میدانوں میں مودی کا مقابلہ نہ کر پائی۔ مودی کی میڈیا مہم پر ایک ہزار کروڑ روپے خرچ کئے گئے اور وہ‘ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے پہلے آلہ کار کی حیثیت سے ‘ وز ارت عظمیٰ کے حق دار ٹھہرے۔ٹاک شو سے لے کر ایک ہزار کروڑ روپے کی میڈیا مہم تک‘ مودی نے ترقی کی ہرمنزل میڈیا کی مدد سے حاصل کی۔ اسی وجہ سے میں انہیں میڈیا میڈ سیاستدان سمجھتا ہوں۔مودی کا عہد اقتدار برصغیر اور خصوصاً بھارت پر ہمہ جہت اور گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ان اثرات کا احاطہ کرنے کے لئے‘ ایک دو نہیں سینکڑوں کالم لکھنا پڑیں گے۔ حسب توفیق اور بشرط زندگی لکھنے کی کوشش کروں گا۔