بھارتی انتخابات کے نتائج نے اعلان کردیا ہے کہ نریندر مودی آئندہ وزیراعظم ہوں گے۔ بھارتی جنتا پارٹی اور اس کے اتحادیوں (نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس) نے 543رکنی لوک سبھا میں 339 نشستیں جیت لی ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ان کے حصے میں159نشستیں آئی تھیں، یوں انہوں نے اپنے بنچوں پر180کا اضافہ کر لیا ہے۔ ان کے ووٹوں کی تعداد 17 کروڑ 14لاکھ 59ہزار286 (171,459,286) ہے اور یوں کل ڈالے جانے والے ووٹوں کا 31فیصد اس اتحاد کو حاصل ہوا ہے۔ کانگریس اور اس کے اتحادی یو پی اے (یونائیٹڈ پروگریسوالائنس) کے نام سے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ ان کے حصے میں صرف 59 نشستیں آئی ہیں۔ 2009ء میں یہ اتحاد 262 حلقوں میں جیتا تھا، ان میں سے 203 اس کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ یو پی اے کو 10کروڑ 67لاکھ 60ہزار ایک (106,760,001) ووٹ پڑے ہیں، یوں اس نے کل ڈالے گئے ووٹوں کا 19.4فیصد حاصل کیا ہے۔ بی جے پی تنہا سادہ اکثریت حاصل کر چکی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کے انتخابی اتحادیوں میں سے ایک بھی کابینہ میں شامل نہ ہو، تو بھی وہ اپنی حکومت بنا اور چلا سکتی ہے۔ کانگریس کی جماعتی طاقت 44حلقوں میں سمٹ گئی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر جے للیتا اور ممتا بینر جی کی جماعتیں مل جائیں تو راہول گاندھی کو اپوزیشن لیڈر بننے سے بھی روکا جا سکتا ہے۔
بھارت میں گزشتہ 30سال میں کسی ایک جماعت کو اتنی واضح اور بھاری کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ 1984ء میں مسز اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے انتخابات میں کانگریس نے ہمدردی کا ووٹ حاصل کرتے ہوئے اپنے جھنڈے گاڑے تھے، لیکن اس کے بعد کے برسوں میں یہ منظر دیکھنے میں نہیں آیا۔ مخلوط حکومتیں قائم ہوتی اور لشٹم پشٹم اپنی مدت پوری کرتی رہیں۔ بی جے پی اور اتحادیوں کے تقریباً 17کروڑ ووٹوں کے مقابلے میں کانگریس اور اس کے ہم نوائوں کو 10کروڑ سے زائد ووٹ حاصل ہوئے، اس تناسب سے ان کی نشستیں زیادہ ہونا چاہئیں تھیں، لیکن برطانیہ کے ایجاد کردہ حلقہ جاتی پارلیمانی انتخابات میں ووٹوں اور نشستوں کے درمیان کوئی تناسب قائم نہیں ہو پاتا، بعض اوقات (مجموعی طور پر) کم ووٹ لینے والے زیادہ نشستیں اور بعض اوقات زیادہ ووٹ لینے والے کم نشستیں حاصل کر گزرتے ہیں۔ بھارتی انتخابات کے نتائج سے بھی واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی اور اس کے رہنما سے اختلاف کرنے والے کم نہیں ہیں اور یہ وہ نکتہ ہے،جو جیتنے والے نظر انداز کر دیں، تو ایسی طاقت کے نشے میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جو فی الحقیقت اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ پاکستان کے عام انتخابات میں بھی یہ حقیقت واضح ہوتی رہتی ہے اور اقتدار سنبھالنے والی جماعت (یا جماعتیں) 30سے 40فیصد ووٹ حاصل کرکے بھی بھاری مینڈیٹ حاصل کرلیتی ہیں، لیکن جب وہ 100فیصد پاکستانیوں کو اپنی مٹھی میں بند سمجھ کر اپنا ڈنکا بجانے کی کوشش کرتی ہیں، تو ان کے مخالفین اسمبلیوں سے باہر یکجا ہو کر ان کے لئے مشکلات پیدا کردیتے ہیں۔بھارت میں چونکہ پاکستان کی طرح جمہوریت ڈانواں ڈول نہیں رہتی اور وہاں ووٹ ہی کے ذریعے تبدیلی کا تصور راسخ ہو چکا ہے، اس لئے اسمبلیوں سے باہر کا ماحول، اس طرح اثر انداز نہیں ہو پاتا، جس طرح پاکستان میں ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود زیرک حکمرانوں کو ہر حلقے اور طبقے کی نبض پر ہاتھ رکھنا پڑتا اور اپنے آپ کو پورے ملک کا نمائندہ ثابت کرنے کے لئے احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔
نریندر مودی کو ایک انتہا پسند ہندو سمجھا جاتا ہے، گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پران کے صوبے میں ہونے والے مسلم کش فسادات نے ایک ہزار سے زیادہ افراد کی جان لے لی تھی۔ مسلمانوں کو اس درندگی کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس پر بھارت کے سیکولر عناصر آج بھی خون کے آنسو بہاتے ہیں۔ اس حوالے سے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی طرف سے ان کے بارے میں شدید خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے، لیکن مودی کے حامی ان کے حق میں یہ دلیل لاتے رہے کہ ان کے خلاف کسی عدالت میں کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اس لئے ان کو ذاتی طور پر کسی گھنائونی واردات میں ملوث قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مودی نے اپنے آپ کو ترقی اور دیانتداری کا سمبل بنا کر پیش کیا۔ ان کے صوبے گجرات میں کئے جانے والے اقدامات اور حاصل ہونے والے نتائج کو وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش کرتے رہے۔ گزشتہ دس سال سے قائم کانگرس کی حکومت کو کرپشن، بیروز گاری اور مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا۔ راہول گاندھی کو وہ ''شہزادے‘‘ کے خطاب سے پکارتے رہے اور یوں ایک ایسے بھارت کا خواب دکھا کر ووٹ لینے میں کامیاب ہو گئے، جو کرپشن اور مہنگائی سے پاک ہو اور جہاں ترقی کا پہیہ تیزی سے گردش کرتا رہے۔
مودی نے اپنے عوام سے جو بھی وعدے کئے ہیں انہیں پورا کرنے کے لئے انہیں اپنے ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔ اگر جنوبی ایشیا پر تصادم کے بادل چھائے رہیں گے ،تو سرمایہ کار یہاں سے بھاگ تو جا ئیں گے، یہاں بھاگ کر نہیں آئیں گے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں پاکستان سے بہتر تعلقات ، بھارت کی ضرورت بھی قرار پاتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے انہیں مبارکباد کا فون کرتے ہوئے پاکستان ''یاترا‘‘ کی دعوت دے بھی ڈالی ہے۔ کئی مبصرین نے اسے عاجلانہ اقدام قرار دیا ہے، لیکن اسے ''پیش قدمی برائے امن‘‘ (Peace Offensive) کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ مودی کے وزیراعظم بننے سے (پاکستان سے زیادہ) بھارت اور خود ان کی آزمائش کا دور شروع ہوا ہے، انہیں دنیا کے سامنے اپنا ''پُرامن چہرہ‘‘ پیش کرنا اور اسے بھارت کی ترقی کے عمل میں شریک کرنا ہو گا۔ اس لئے پاکستان کو گھبرانے کی نہیں، اپنا گھر درست کرنے اور اپنے داخلی تضادات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ سلامتی کا راستہ یہیں سے نکلتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)