تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-05-2014

’’میرا سلطان ‘‘

شاہی خاندانوں کی کہانیاں مختصر سی کبھی نہیں ہوتیں۔ جی ہاں ، پاکستانی سلطان کی داستان بھی فلمائی جا سکتی ہے ،'' میرا سلطان‘‘ سے کہیں زیادہ سنسنی خیز، کہیں زیادہ دلچسپ اور دراز...ایک نئی الف لیلہ!
بھٹو خاندان کی طرح، جس کی جگہ اب زرداری خانوادے نے لے لی ہے ، رائے ونڈ کا شریف خاندان بھی تشکیلِ و تعمیر کی نئی منزلیں سر کرنے میں لگا ہے ۔زیادہ بہتر منصوبہ بندی اورزیادہ عرق ریزی کے ساتھ ۔ اگر وہ کامیاب رہا تو ہماری آئندہ نسلیں اس کے سائے میں پروان چڑھیں گی۔ میر شکیل الرحمن بھی اپنے صاحبزادے کو وزیراعظم بنانے کا خواب دیکھتے ہیں مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی ۔ 
''دربارِ اکبری‘‘کی تصنیف پر دیباچے کی درخواست کے جواب میں اسد اللہ خان غالبؔنے سر سیّد احمد خان کو ماضی پرستی کی بجائے عصرِ نوکا ادراک کرنے کی نصیحت کی تو وہ تلملائے ۔ پھر مگرمان گئے ۔ غالبؔ نے کہا تھا : ریل کی پٹڑیاں بچھ رہی ہیں ، بھاپ سے انجن رواں ہیں ، دریائوں کو زنجیر کیا جا رہا ہے اور ہم عہدِ رفتہ کے اسیر ہیں۔تب علی گڑھ یونیورسٹی وجود میں آئی ،وگرنہ فقط دیوبند ہوتا اور پاکستان ایک دوسرا افغانستان ۔ شاعر ایک نکتہ مگر بھول گیا ۔ فقط جدید تعلیم ہی کافی نہیں ۔ عصرِ رواں میں حکمرانی کے انداز بھی جدا چاہئیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
ہوائیں ان کی، فضائیں ان کی ، سمندر ان کے ، جہاز ان کے 
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر ، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ 
یہ بھی ارشاد کیا تھا : آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا۔ منزل یہی کٹھن ہے ، قوموں کی زندگی میں ۔ زمانہ بدلتا ہے تو حیاتِ اجتماعی کے تقاضے بدلتے ہیں مگر ماضی میں زندہ لوگ!کچھ لوگ ہیں کہ اظہار تو کرتے ہیں مگر دل اور دماغ کی گہرائی سے نہیں ۔ سطحی سا احساس؛چنانچہ میرؔصاحب کے بقول ؎
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی 
ترقی یافتہ معاشروں سے ہمارا فاصلہ بڑھتا چلا جاتاہے ۔ تقریباً ایک صدی کی دوری ہے۔ شاہی خاندان اگر مسلّط رہے تو بے چارگی اور بڑھے گی ۔ تختِ لاہور میں تو بحث تک نہیں ہوتی،جو سیاسی اقتدار کا مرکز اور آزادی ٔصحافت کا قبرستان ہے ، درباریوں کا شہر۔ 
نادرا کے نئے چیئرمین کا انتخاب شاہی خاندان کی تشکیل پذیر کہانی کا ایک چھوٹا سا باب ہے، جس کے مختلف حصے اسلام آباد اور پنجاب کی وسعتوں میں مرتّب ہو رہے ہیں ، اقتدار کی غلام گردشوں میں !
چونتیس سالہ عمر سیف کو ، بظاہر جن کا اعزاز اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک وفادار کے فرزند ہیں ، نادرا کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا جا چکا، جو بعض اعتبار سے دنیا کا بہترین ادارہ ہے ۔عمر سیف نے انتخابی دھاندلی پر احتجاج کے ہنگام صاحبِ ہنر طارق ملک کی برطرفی کے بعد الوداعی دعوت کے عنوان سے اپنا چھوٹا سا دربار لگایا ۔ اعلان کیا کہ وہ اسلام آباد پدھار رہے ہیں ، تب اس منصب کے لیے اشتہار شائع ہونے میں گیارہ ہفتے باقی تھے ۔ یہ اشتہارِ ذاتِ شریف کو ملحوظ رکھ کر ڈیزائن کیا گیا۔
عمر سیف آئی ٹی یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ہیں ، شاید دنیا میں سب سے کم عمر۔ انہیں یہ منصب حبیب جالب کی نظمیں پڑھنے والے پنجاب کے انقلابی خادم نے عطا کیا ہے ،غریبوں کے غم میں جو نڈھال رہتے ہیں۔ یہ جواں سال جینئس پنجاب انفرمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا چیئرمین بھی ہے ۔ پورے پنجاب میں کوئی سپوت نہیں ؛چنانچہ دونوں ادارے ایک کے سپرد!
بارہ عدد سرکاری کمپنیاں خادمِ پنجاب نے تشکیل دی ہیں۔ کسی محکمے سے چند افسر چن کر یہ بنائی جاتی ہیں ، یوں سرکاری نظم و ضبط سے آزاد، براہِ راست شاہی خاندان کی گود میں ۔ ارفع کریم بلڈنگ کی ایک منزل تک محدود آئی ٹی یونیورسٹی ناکام ہو چکی۔ اس کے کتنے ہی طلبہ چند ماہ بعد اسے خیر باد کہہ دیتے ہیں ۔ اس سے مگر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وفاداری بشرط استواری اصلِ ایماں ہے ۔ شریف خاندان کو انتخابی دھاندلی کے خلاف عمران خان کی مہم سے نمٹنا ہے ؛چنانچہ ایک وفادار سپاہی درکار ہے ۔ آئندہ الیکشن بھی جیتنا ہے ، جب شاید شہباز شریف وزیراعظم اور حمزہ شہباز پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بنیں۔میاں شہباز شریف نے اس آرزو میں ایک روحانی پیشوا سے تعویز بھی کرایا۔ وہ کہانی پھر کبھی ۔ راولپنڈی کی میٹرو اسی خواب کا ایک ثمر ہے ۔اس شہر سے شیخ رشید اور عمران خان کی کامیابی ایک المیہ ہے اور اس کا اعادہ نہ ہونا چاہیے ۔
خادمِ پنجاب کا منصوبہ یہ ہے کہ پنجاب کے علاوہ مرکزمیں ان کے پسندیدہ افسر تعینات ہوں ۔ فواد حسین فواد انہی میں سے ایک
ہیں ، جنہیں ڈپٹی پرائم منسٹر کہا جاتاہے ۔ پنجاب کو یہ تحفہ ایک مرحوم چیف سیکرٹری اے کے زیڈ شیر دل خان نے دیا تھا؛ اگرچہ کہوٹہ کے مردم خیز خطے سے تعلق ہے مگر تب بلوچستان کے ویرانے سے لائے گئے ۔ فواد حسین فواد ایک کالم کی تنگنائے میں سما نہیں سکتے ۔ اگر کوئی خطرہ مول لینے پر آمادہ ہو تو یہ کالم نویس ایک فلم کا سکرپٹ لکھنے پر آمادہ ہے ۔فلمی جمالیاتی تقاضوں کو پورا کرنے والا سنسنی خیز سکرپٹ ۔ مشکوک میڈیا گروپ کے سربراہ کی فرمائشیں پوری کرنا ان کے فرائض منصبی میں سے ایک ہے ، جس طرح کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری کو بے بس کر دینے والے وزیرِ اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ جناب حمزہ شہباز کو آسودہ رکھے۔ فواد حسین فواد نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو فالتو بنا رکھا ہے ۔ وہ اس حکومت کے نرگس سیٹھی ہیں ، جو وزیراعظم گیلانی کو کرتب سکھایا کرتیں ۔ اب بھی کیبنٹ سیکرٹری ہیں ۔ سندھ میں بجلی پیدا کرنے والی ایک کمپنی کی چیف ایگزیکٹو بننے کے لیے سمری محترمہ نے بھجوا رکھی ہے ۔ مجوّزہ تنخواہ : 16لاکھ روپے ماہوار۔ اپنے میاں کا غالباًآئی ایم ایف میں انہوں نے تقرر کرا دیا۔ جناب فواد کی طرح ، انہوں نے بھی وقت سے پہلے ترقی پائی ۔ ع
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے 
بتایا جاتاہے کہ اپنے دائرئہ کار کی ایک چیتے کی مانند حفاظت کرنے والے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو یہ فیصلہ خوش نہیں آیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے وزیراعظم سے بات کی ۔ ان کی تشویش یہ بھی ہے کہ شہباز شریف اب پوٹھوہار اور مرکز میں حد سے زیادہ دخیل ہیں ۔ خواجہ سعد رفیق کے بقول کبھی وہ ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے ۔ دوستی اب بھی ہے مگر سیاسی!
کہاں کا رشتہ ٔ جاں ، کیسی دوستی پیارے 
مبالغہ بھی کریں تو نباہنے تک ہے 
کہانی کے مطابق وزیراعظم بھی نا خوش ہوئے کہ صاحبزادے نے تقرر سے پہلے ہی ڈھنڈورا پیٹ دیا۔ یادش بخیر ، جنرل اشفاق پرویز کیانی کی بجائے ، جنرل پرویز مشرف نے ایک دوسرے جنرل کو منصب سونپنے کا فیصلہ کیا تھا۔ روایت یہ تھی کہ اس گراں قدر مقام کا امین زبان اور دل سنبھالے رکھتا ہے ۔ وہ مگر تاب نہ لا سکے اور ع
قرعہ فال بنامِ ''من ‘‘دیوانہ زدند
باقی تاریخ ہے ۔ تو وزیراعظم نے ان کے والدِ گرامی کو یاد کیا ، جو ان دنوں محترمہ مریم نواز شریف کے مشیر ہیں ،نوجوانوں کو 100ارب روپے بانٹنے کے منصوبے میں کہ نئی نسل کو کپتان گمراہ نہ کر سکے۔ ان سے کیا کہا، کچھ معلوم نہیں ۔ وفاداروں کی کوتاہیاں بادشاہ لوگ گاہے معاف بھی کر دیا کرتے ہیں ۔ 
ابھی نادرا کے سبکدوش چیئرمین طارق ملک کا تذکرہ باقی ہے۔ کینیڈا کی شہریت چھپانے پر ایف آئی اے نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے ، درآں حالیکہ وزیر داخلہ چھ ماہ قبل ایوان میں اعلان کر چکے کہ نادرا کے بارہ افسر دہری شہریت رکھتے ہیں ، پھر اخفا کون سا؟ خود وزیر داخلہ کے بیوی بچے بھی امریکی پاسپورٹ کے حامل ہیں ۔ خود وزیراعظم کے خاندان کی دولت بیرونِ ملک پڑی ہے ۔ خودوزیرِ خزانہ کا سرمایہ دبئی میں ریال جنتا ہے ۔ 
ورق تمام ہوا اور داستان باقی ہے ۔ کچھ ابواب لکھے جا چکے ، کچھ لکھے جا رہے ہیں ۔ لاہور ، اسلام آباد، لندن ، دبئی اور جدّہ کے علاوہ نیویارک، پیرس اور جنیوا کی شاہراہوں پر۔ یار زندہ صحبت باقی۔شاہی خاندانوں کی کہانیاں مختصر سی کبھی نہیں ہوتیں۔ جی ہاں ، پاکستانی سلطان کی داستان بھی فلمائی جا سکتی ہے ،''میرا سلطان ‘‘سے کہیں زیادہ سنسنی خیز، کہیں زیادہ دلچسپ اور دراز...ایک نئی الف لیلہ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved