تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     18-05-2014

پاکستان، ایک غیر ملکی کی نظرسے

آپ ایک ایسے ملک میں رہنے کاتصورکیسے کرسکتے ہیں جہاں طالبان کے بڑھتے ہوئے قدموں کی دھمک بندکمروں میں بھی کانوں کو سنائی دے رہی ہو ؟ یہ کیسا ملک ہے جو دنیا کے بدعنوان ترین ممالک میں سے ایک ہے ؟ آپ ملاوٹ زدہ خوراک کھا کر کیسے زندہ ہیں ؟ اور ہاں بجلی اورگیس کے بغیر بھی زندہ رہناشاید آپ نے سیکھ لیا ہے۔ یہ چند وہ سوالات ہیں جن کا ہم پاکستانیوں کو دیارغیر میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غیر ملکی حیران ہیں کہ یہ کیسا ملک ہے اور مزید حیرت زدہ اس بات پر کہ ہم یہاں کیسے زندگی بسر کررہے ہیں۔ سچ پوچھیں توگزشتہ کئی عشروںسے ہم یہ سوال پیہم سن رہے ہیں لیکن ہمارے جواب سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ اس لیے میںنے چند امریکی دوستوںکو دعوت دی ہے کہ جب بھی میں اگلی مرتبہ پاکستان جائوں ، وہ میرے ساتھ جانے کی کوشش کریں ، میں اُنہیں اپنے ملک کا اصلی چہرہ دکھادوںگی۔
قارئین بھی سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ غیر ملکی احباب کے سوالات تو بجا ہیں اور ان سے صرف ِ نظر کرتے ہوئے انہیں ملک اور معاشرے کی کوئی خوشنما تصویر دکھانا دشواربھی ہے، لیکن ٹھہریں ! ایسا نہیںہے۔ دراصل یہ سوالات مسائل کے انبارسے لیے گئے ہیں اوران کا سرچشمہ میڈیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ مسائل موجود نہیں ہیں، یقیناً یہ اور بہت سے دوسرے مسائل اس معاشرے کا حصہ ہیں لیکن میڈیا کامسئلہ یہ ہے کہ اُسے خبر چاہیے اورخبرکی صف میں عام واقعات کھڑے نہیںہوسکتے۔ خبرکے لیے ہنگامہ آرائی درکار ہوتی ہے اورہنگامہ متوازن زندگی سے کشید نہیں کیا جاسکتا۔ پس چہ باید کرد ؟کیا خبرکے علاوہ سماج کوئی وجود نہیں رکھتا۔ 
اگر آپ امریکی یا یورپی میڈیا پر نظر رکھتے ہیں تو آپ جانتے ہوں گے کہ وہ اپنا دامن بریکنگ نیوز سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ خبری کہانیاں نشر یا شائع کرتے ہیں ، عام حادثات اور جرائم کو بریکنگ نیوز بنا کر پیش نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں میڈیا پنڈت عام واقعے کو ہی مرچ مصالحہ لگا کر چٹ پٹا بنادیتے ہیں جس کے نتیجے میں عوام ذہنی خلجان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اب واپس بنیادی سوالات کی طرف آتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اس کے سوا اورہے کیا ؟ کیا ہم غیر ملکیوںکے سامنے اپنے ملک کی کوئی اچھی تصویر رکھ سکتے ہیں؟ اس پر میرا جواب اثبات میںہے کیونکہ مجھے کوئی شک نہیں کہ اگرہم ان مسائل کے ہوتے ہوئے بھی زندہ ہیں تو پھر ہمارے اندر کچھ تو پوٹینشل موجود ہے۔ آئیے میں آپ کو اس پوٹینشل کی ایک جھلک دکھائوں۔ 
چلچلاتی دھوپ میں گندم کی فصل کاٹتا ہوا کسان، ورکشاپ میں انتہائی جدید موٹرکاروں کے انجن کو آسانی سے ٹھیک کرلینے والے بائیس سالہ مکینک، گلی میں کرکٹ کھیلتے ہوئے ٹیپ بال سے زبردست سیدھے شاٹ کھیلتا ہوا پندرہ سالہ بلے باز، روزانہ اٹھارہ سے بیس گھنٹے تک پرائیویٹ اکیڈمیوں میں پڑھانے والے نوجوان اساتذہ، مختلف بیماریوںکی شکار لیکن ہمہ وقت کام میں مصروف خاتونِ خانہ، ننگے پائوں تپتی سڑک پر اپنی گدھا گاڑی کے ساتھ ساتھ چلنے والا لڑکا اوردس گھنٹے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ٹرک چلانے والے ڈرائیور ہمارا ٹیلنٹ ہی تو ہیں ! لیکن انہیں معمولی سمجھ نظر اندازکر دیا جاتا ہے۔ اگر ہمارا نظام درست ہوتا تو انہی میںسے بہت سے عالمی سطح پر خودکو منوانے والے بن سکتے تھے ، لیکن چونکہ ایسا نہیںہے، اس لیے یہ لوگ گمنامی کی زندگی بسر کرکے اس جہاں سے رخصت ہوجائیںگے۔ 
کیا یہ لوگ نظام کی خرابی کے ذمہ دار ہیں ؟ دیکھا جائے تو سیاست دانوںکو ووٹ تو اُنہوںنے ہی دیے ہیں ، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ۔ پاکستان کے عام لوگ اپنی اجتماعی قوت کو بروئے کار لانے کا ہنر نہیں جانتے۔ جس دن ان کو اندازہ ہوگیا کہ وہ سماجی دبائو پیدا کرکے اپنی بات منوا سکتے ہیں تو اس دن پاکستان میں تبدیلی کے آثار پیدا ہونا شروع جائیںگے۔ سماجی دبائو پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کوئی سماج رکھتے ہوں۔ آبادی سے بھرے شہروںکا مطلب سماج نہیں ، یہ ایک سوچ ، رویے اور ردِ عمل کا نام ہے۔ کیا ہم ملک کو درپیش مسائل پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں؟ دراصل ہمیں جمہوریت کے متوازی سماجی دبائو پیدا کرنے کا طریقہ اور عوام کی اجتماعی سوچ کو حکمرانوں تک منتقل کرنے کا ہنر سیکھنا ہوگا ۔ اس سے مراد دھرنے اور احتجاج نہیں جن کے ہم ماہر ہوچکے ہیں ۔ اگر آپ کے نمائندوں کو کسی طرح احساس ہوجائے کہ آپ کے علاقے میں ایک سکول یا ہسپتال یا کھیل کے میدان کی ضرورت ہے تو ہوسکتا ہے وہ اس کا اہتمام نہ کرسکیں لیکن وہ اس مسئلے کو اپنے باس تک ضرور پہنچائیں گے۔
ایسا سماجی دبائو پیدا کرنے کے لیے ایک کالونی یا ایک محلے میں مختلف ذوق اور صلاحیتیں رکھنے والے افردکی فہرست مرتب کی جانی چاہیے۔ مثال کے طور پرکرکٹ کھیلنے،کتابیں پڑھنے ، گلوکاری کا شوق رکھنے والے یا کاراور بائیک ریس میں حصہ لینے کے شوقین افراد کا اس فہرست میں اندراج کرلینا چاہیے ۔ اس کے بعد ان افراد کی ہر ہفتے ایک میٹنگ ہو اور اس میں کوشش کی جائے کہ آپ کا کوئی مقامی نمائندہ بھی اس میں شرکت کرے ۔ میٹنگ میں اس نمائندے کو مخاطب کئے بغیر اپنے معاملات اور امکانات کا جائزہ لیا جائے۔ اس کے لیے مستقل مزاجی اورخلوص کی ضرورت ہے۔کچھ عرصہ بعد آپ کی گفتگو سیاسی مکالمے میں ڈھلنا شروع ہوجائے گی۔ 
اس وقت پاکستان میں دوامورکی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ ہر معاملے کو سیاسی رنگ دینے اور ہر پیش رفت کو مذہب کے پسِ منظر میں دیکھنے سے اجتناب کرناچاہیے۔ اس پر ایک مرتبہ پھر میڈیا کوموردِ الزام ٹھہرایا جانا چاہیے کہ اس نے ملائوں اور سیاست دانوں کو تقویت دیتے ہوئے عوام کو دیوارسے لگا دیا ہے۔ آج ہم عوامی مسائل کے بجائے سیاسی مسائل میں الجھ گئے ہیں۔ سیاسی مسائل کو حل ہونے سے بچانے کے لیے کچھ نادیدہ ہاتھ اُنہیں مذہبی رنگ دے دیتے ہیں اور اس پر نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہوجاتی ہے ۔ غٖیر ملکی افراد پاکستان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے،وہ کم از کم نوے فیصد عوام کے بارے میںلاعلم ہیں۔ وہ صرف ہمارے بارے میں منفی تاثر رکھتے ہیں۔ آج کل پاکستان میں سیاسی موسم پھر گرم ہورہا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ سماجی مضبوطی کی طرف بڑھیں تاکہ سیاست دان اُنہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکیں۔ ملک کی مضبوطی کے لیے جمہوریت اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے سماج کی ضرورت ہے۔ اس میں میڈیا کی بریکنگ نیوزکاکوئی کردار نہیں بنتا۔چھوٹی چھوٹی کالونیوں میں رہنے والے افراد اپنے درمیان مکالمے کی عادت ڈالیں۔ بہت عرصہ پہلے یہ کام مسجدکے پلیٹ فارم سے کیا جاسکتا تھا، لیکن لائوڈسپیکرکی ایجاد اور مولوی کی بے پناہ طاقت نے معاملہ خراب کردیا ہے۔ اب یہ کام شہریوںکو اپنے طور پر کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے کو توانا کرسکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved