تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-05-2014

لاٹھی سے کشکول باندھ کر بھیک مانگنے والے

شاعر شہزاد نیئر کی نظموں کے دو مجموعے موصول ہوئے ہیں جن میں سے ''برفاب‘‘ کا دیباچہ ہی اس کا طرہ امتیاز ہے جو اسلم سراج الدین نے لکھا ہے جس میں بغیر کسی موقع و محل‘سیاق و سباق یا حوالے کے‘انہوں نے میری عیب جوئی کرنا بھی ضروری سمجھا ہے‘مثلاً یقینا آپ ظفر اقبال کی حالیہ شاعری سے واقف ہیں ، اس لیے وضاحت کی ضرورت نہیں کہ Versificationکیا ہوتی ہے یا مثال:ظفر اقبال کے پہلے دو مجموعوں کے بعد کی غزلیات‘یا ظفر اقبال ایسے غزل گوئوں کے ایک ہی ہتھیار۔موزوں طبعی کے برعکس۔‘‘وغیرہ۔بلکہ ان فرمودات کے ساتھ ہی انہوں نے حاشیے میں یہ ٹکڑا لگانا بھی ضروری سمجھا:
''ظفر اقبال جس انداز میں اور جس معیار کی شاعری کر رہے ہیں، اسے قافیہ پیمائی کے سوا کوئی اور نام دینا ممکن ہی نہیں۔یہ وہی پست اور بے مایہ شاعری ہے جو موزوں طبعی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور قافیوں کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے طویل سفر کے دوران ہوائی جہازوں کے پائلٹ طیارے کو آٹو پائلٹ کے حوالے کر کے دیگر ضروری کاموں کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ظفر اقبال نے بھی ایسا ہی Auto Pilotایجاد کر لیا ہے۔وہ کھانے پینے کے دوران‘کالم نگاری کے دوران‘سفر کے دوران‘ملاقاتوں کے دوران اور حد تو یہ ہے کہ مشاعروں کی صدارتوں کے دوران بھی مختلف قوافی کو کسی ایک ردیف کے ساتھ نتھی کرنے کے کار بے مصرف میں مصروف رہتے ہیں اور بے چارے شعراء کا کلام سننا تو درکنار ‘انہیں شعر خوانی کے لیے رسمی اجازت دینے کا ہوش بھی نہیں رہتا‘‘
ظفر اقبال۔ایک قضیہ نا مرضیہ/عباس رضوی/کتابی سلسلہ اجمال ، کراچی ،شمارہ:1مارچ 2011ء )
میں اسلم سراج الدین سے کبھی نہیں ملا‘نہ ہی میرا کبھی ان سے تعارف یا کوئی معاملہ رہا ہے ۔کچھ عرصہ پہلے ان کے انتقال کی خبر پڑھ کر معلوم ہوا کہ گوجرانوالہ کے افسانہ نویس ہیں۔عباس رضوی کے جس مضمون سے اقتباس دیا گیا ہے ،اس کے آغاز ہی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ مضمون نگار کا مسئلہ کیا ہے۔لکھتے ہیں:لیجیے‘پھر وہی ظفر اقبال ۔کیا ہمارے ادبی موضوعات ختم ہو گئے؟کیا شاعروں اور ادیبوں میں کوئی اور قابل ذکر شخص باقی نہیں رہ گیا؟کیا ظفر اقبال کے سوا کوئی اور کچھ لکھ ہی نہیں رہا؟کیا ظفر اقبال سے مفرہی نہیں ہے؟کیا سراج‘ولی‘میر‘مومن‘ غالب و اقبال کو بھول کر ظفر اقبال کو ہی یاد رکھیں گے؟ ع
ایک ہی شخص ہے جہان میں کیا
واضح رہے کہ عباس رضوی اس رسالے کے شریک مدیر بھی تھے‘اگرچہ اب یہ سعادت اس پرچے کو حاصل نہیں رہی۔اس کے چیف ایڈیٹر نے معذرت اس طرح سے کی کہ یہ مضمون ان کی نظروں سے گزرے بغیر ہی شائع ہو گیا ۔موصوف ایک مضمون میرے خلاف ناصر بغدادی کے رسالے میں بھی لکھ چکے تھے۔میں نے ایڈیٹر کو بتایا کہ جن دنوں پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل تھے تو ایک بار ان کے ایک کولیگ نے آ کر انہیں بتایا کہ کالج کا چپڑاسی ان کے خلاف باتیں کرتا رہتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ پرنسپل میرا کیا بگاڑ سکتا ہے۔پطرس نے تھوڑی دیر سوچا اور بولے‘''وہ ٹھیک کہتا ہے‘اس کے پاس عزت ہے ،نہ دولت ہے ،نہ شہرت‘میں اگر چاہوں بھی تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ عباس رضوی بے شک یہ کام جاری رکھیں،میں ان کا کیا بگاڑ سکتا ہوں۔موصوف نے اپنے مضمون کے آغاز میں جو دہائی دی ہے اس کا سوائے اس کے اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ اے خدا کے بندو!کیا تمہیں عباس رضوی نظر نہیں آتا؟کبھی بھولے سے اس کا بھی ذکر کردیا کرو!
دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے یااپنے ہونے کا احساس دلانے کے لیے مثبت کام کرکے دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے‘کسی کی ٹانگ کھینچنے کی نہیں۔شعر و ادب پر رائے دینا ہر شخص کا حق ہے لیکن یہ رائے اپنی حیثیت کے مطابق دینی چاہیے۔عباس رضوی ایسے گداگر ہیں جو لاٹھی کے ساتھ کشکول باندھ کربھیک مانگتے ہیں کہ اس میں کچھ ڈالو ‘ورنہ یہ لاٹھی دیکھ رہے ہو؟موصوف اس کے علاوہ بھی رسائل کے ایڈیٹروں کے نام خطوط میں یہ کام کرتے رہتے ہیں ۔مجھے کسی کے اعصاب پر سوار ہونے کا کوئی شوق نہیں ہے لیکن اگر کسی نے خود ہی اپنے اعصاب پر زین کس رکھی ہو تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔
محبی اقتدار جاوید نے فون پر بتایا ہے کہ ماہنامہ''الحمرا‘‘ لاہورکے تازہ شمارے میں چھپنے والے ایک خط کے مطابق جمیل
یوسف نے پچھلے مکتوب میں عباس رضوی کے ایک مصرعے''ہجر کی رات گزر گئی مرحلہ وصال میں‘‘ کے بارے میں لکھا تھا کہ اگر عباس رضوی صاحب گزر کی جگہ پنجابی لفظ ''لنگھ‘‘ لکھ دیتے تو مصرعہ وزن میں ہو تا‘‘ اس پر عباس رضوی نے عجیب سے ردعمل کا اظہار کیا ہے کہ ''جہاں تک جمیل یوسف کے تجویز کردہ لفظ ''لنگھ‘‘ کا تعلق ہے تو اسے لکھنے کے لیے مجھے ایک شاعر کی حیثیت سے کم از کم ستر(70)جنم کی مشقت اور ریاضت درکار ہو گی۔یوں بھی مجھ جیسا معمولی سے بھی کم درجے کا شاعر ان لفظوں سے بچنے کی کوشش کرتا رہتا ہے جس کے ساتھ وہ بو لپٹی ہوتی ہے جو ...(مردہ خانے) کے لیے مخصوص ہے۔‘‘اس کے بعد مکتوب نگار (ڈاکٹر خالق تنویر،بہاولنگر) لکھتے ہیں کہ کوئی فاضل دوست رہنمائی فرمائیں کہ لفظ ''لنگھ‘‘ اور مردہ خانے کی مخصوص بو کا کیا تعلق ہے؟اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ ان زعماء کو پنجابی زبان سے مردہ خانے کی بو مسلسل آتی رہتی ہے۔ اس تعصب کو انہوں نے چھپایا بھی کبھی نہیں ہے۔یہ اور کریں بھی کیا کہ ان کے اپنے پلے تو ہے کچھ نہیں۔یہ بے برکت اور بددعائے ہوئے لوگ ہیں اور نہیں دیکھتے کہ پنجابی ہونے کے باوجود ہم نے اردو کو سینے سے لگا رکھا ہے۔پھر یہ اردو کے مالک اور اجارہ دار کس طرح بنے بیٹھے ہیں کہ اردو تو پھلی پھولی ہی پنجاب میں ہے۔بہرحال اس بدبودار زبان کا حسدکے بارے ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کہ ہنڈیا اُبلتی ہے تو اپنے ہی کنارے جلاتی ہے ،اور حسد آپ اسی سے کرتے ہیں جو آپ سے بہتر ہو۔اور‘اب شہزاد نیر کی نظموں پر بات چیت سے پہلے یہ بات ریکارڈ کرنا ضروری ہے کہ شاعر نے اپنے تبصرہ نگار کی وہ تحریر چوم چاٹ کر اپنی کتاب میں شامل کر لی جو یکطرفہ‘بلا جواز ‘ غیر متوازن اور مضحکہ خیز بھی ہے۔انہوں نے دیباچہ نگار سے اس 
کی وضاحت بھی طلب نہیں کی ہو گی اور جو اس کی ملکیت میں باقاعدہ حصہ دار بھی ہیں۔اور لطف یہ ہے کہ کتاب پیش کرتے وقت مجھے واحد‘وحید اور غزل کا امام بھی گردانتے ہیں۔ہو سکتا ہے مرحوم نے یہ دیباچہ لکھ کر اپنی بخشش کا کوئی سامان کر لیا ہو ورنہ عباس رضوی سمیت اگر میرے خلاف لکھنے سے کسی کو شہرت یا اہمیت حاصل ہوتی ہے تو میدان کھلا ہے۔نظم کوئی معمولی چیز نہیں ہوتی۔یہ اگر آپ کے اندر کوئی کہرام نہ بھی مچائے تو کم از کم آپ کے ساتھ کچھ کرے تو سہی‘جبکہ یہ مرنجاں مرنج اور روٹین کی نظمیں ہیں جو اچھے بچے کی طرح بغیر آپ کو تنگ یا پریشان کیے شرافت سے گزر جاتی ہیں۔نظم کے حوالے سے میرا لٹمس ٹیسٹ یہ ہے کہ ہر اچھی نظم خود کو نہ صرف پڑھواتی ہے بلکہ اپنے آپ پر کچھ لکھنے پر اکساتی بھی ہے۔یہ نظمیں بری نہ ہونے کے باوجود اتنی اچھی بھی نہیں ہیں کہ ان پر ضرور ہی خیال آرائی کی جائے۔جن نظم گوئوں کی میں تعریف کرتا ہوں وہ ہرگز میرے رشتے دار نہیں ہیں،بلکہ ان چھ میں سے تین تو ایسے ہیں جو اپنی تحریر و تقریر میں مجھے کبھی نہیں بخشتے تھے ۔لیکن ان کی نظمیں جب میرے سامنے آئیں تو میں ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا‘کیونکہ میری کمٹ منٹ شاعری کے ساتھ ہوتی ہے‘شاعر کے ساتھ نہیں۔لکھتے وقت میری سلیٹ صاف ہوتی ہے ۔جو لوگ میری تحریروں سے واقف ہیں وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔حتیٰ کہ عباس رضوی بھی اگر کبھی اچھا شعر کہیں تو اس کی تعریف کرنا بھی میرے مذہبی فریضے میں شامل ہو گا۔آزمائش شرط ہے!
آج کا مقطع
موجِ ہوس اُبھر کے وہیں رہ گئی‘ ظفرؔ
دیوارِ دوستی تھی مرے اُس کے درمیاں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved