تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     19-05-2014

کالم پناہ

پاکستانی فلم انڈسٹری زبوں حالی کا شکار ہوئی تو سُپر سٹارزکی ایک نئی قسم معرضِ وجود میں آئی جسے ہم '' اینکر پرسنز ‘‘ کہتے ہیں۔ پرائیویٹ چینلزکی بھر مار ہونے پر بعض کالم نگار زندگی بھر کی تپسیا کے بعد یوں اینکر پرسن بنے جیسے افسانوی فلموں میں سو سال کے بعد ''ناگ‘‘ آدمی کا روپ دھار لیتا ہے ؛ تاہم ان کو ہم ''اِچھا دھاری کالم نگار‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ 
عوام ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اس '' ٹاک شو فوبیا ‘‘ کے شکار ہیں؛ تاہم کالم کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ کالم نگاری ایک آرٹ ہے اورکہتے ہیں کہ آرٹسٹ پیدا ہوتا ہے ، بنایا نہیں جاتا لیکن کالم نگاروں کے سٹارڈم سے متاثر ہوکرکچھ لوگ دیدہ دلیری سے کالم نگار بن چکے ہیں ۔ ایسے کالم نگار چونکہ پیدائشی نہیں ہوتے اس لئے ا نہیں '' کالم لوہار‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ ان کا اپنا کوئی وژن اور مخصوص انداز نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ ان کے کالموں سے جذباتی جانبداری یوں چھلک رہی ہوتی ہے جیسے وینا ملک کے بیانات سے سستی شہرت ۔ یہ کالم کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں: بڑے میاں چھوٹے میاں کالم ، تم آگئے ہو نور آگیا ہے کالم، جب تک ہے جاں کالم ، دل تیرے قدماں وچ رکھیا کالم وغیرہ وغیرہ۔ 
گردشی قرضے، مالیاتی خسارہ ، ٹارگٹ کلنگ ، دہشت گردی اور توانائی بحران سمیت حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ اُدھر آئی پی ایل کا سیزن ختم ہونے کو ہے اور اِدھر عمران خان دھرنوں کے نئے سیزن کا افتتاح اسلام آباد سے کر چکے ہیں اور آج کل کالموں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ میاں برادران کو درپیش مشکلات کا ذکرکالموں میں پڑھ کرکچھ اس طرح کے عنوانات خود بخود ذہن میں آجاتے ہیں ۔۔۔۔'' رضیہ پھنس گئی غنڈوں میں کالم ، دم گٹکوں کالم ، مذاکراتی کالم ، منی بدنام ہوئی کالم اور مڈٹرم کالم وغیرہ۔ دوسری طرف عمران خان کا ایجنڈہ دیکھیں تو یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ان کا ٹارگٹ ن لیگ کی بیڈ گورننس ہے، ا لیکشن میں کسی نگران کی طرف سے لگائے گئے 35 پنکچر ہیں یا کسی میڈیا گروپ پر لائی جانے والی سختی ۔ اس موضوع پر لکھے گئے کالم کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں : کولاویری ڈی چوک کالم ، دھرنا فیسٹیول کالم ، تیرے نیناں بڑے دغا بازکالم، دل تو بچہ ہے جی کالم ، ٹمپرنگ اور ماسکنگ کالم ، پیچھا نہیں چھوڑوں گا کالم اور بنارسی ٹھگ کالم ۔
ان دنوں کالم مارکیٹ میں ''شیخ الاسلامیہ کالم ‘‘ بھی کافی اِن ہیں۔ ان کی معروف اقسام میں سیاست نہیں ریاست بچاؤ کالم ، ملکی مفاد کالم ، جان کی قربانی کالم ،دس نکاتی کالم ، ڈیڈلائن کالم، کینیڈین کالم اورکنٹینرکالم شامل ہیں ۔ مستقبل قریب میں ن لیگ حکومت کو ایک کانٹے دار مقابلے کا سامنا ہونے والا ہے اور یہ مقابلہ ہوگا گرینڈالائنس کے ساتھ ۔کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ''سیاسی کانٹسٹ ‘‘ کا یہ ''گرینڈ فنالے‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔
اگرچہ '' گرینڈ الائنس ‘‘ کے نام سے بننے والی اس ملٹی سٹارزفلم کے پریمیئرکی ابھی ڈیٹ اناؤنس نہیں ہوئی تاہم اس کی پروموشن شائقین کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہے۔ اس کی باکس آفس پوزیشن کیسی رہے گی اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ؛ البتہ کالم نگاروں کو ایک نیا موضوعِ گفتگو مل چکا ہے اور کچھ اس طرح کے کالم مارکیٹ میں آرہے ہیں : جہاں چار یار مل جائیں کالم ، ہم ساتھ ساتھ ہیں کالم ، تیرا ساتھ ہے کتنا پیارا کالم، ساتھی تیرا پیار پوجا ہے کالم ، یاری لانی اے تے پکی پکی لا کالم ، سجن پیارا کالم اور تیری میری اک جند کالم ۔ حکومت نے شاید ابھی تک اس کے لئے کوئی لائحہ عمل بھی نہیں بنایا تھا کہ الطاف بھائی کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ والے مسئلے نے ایک ہلچل پیدا کردی ہے ۔
کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ اور ماورائے عدالت گرفتاریوں کی وجہ سے متحدہ پہلے ہی سراپا احتجاج تھی اس پر اس نئے ایشونے سچوایشن کو کلائمیکس پر پہنچا دیا ہے۔ اینٹی کلائمیکس تک روزانہ کوئی نئی پیش گوئی کالموں میں پڑھنے کو ملے گی ۔ اس پر متحدہ کے رہنماؤں کے جذبات پر مبنی کالم کچھ یوں ہوں گے: جگر ما بڑی آگ ہے کالم ،چنگاری کوئی بھڑکے کالم ،گھر کب آؤ گے کالم ،میری آواز سنو کالم ،ساڈا حق ایتھے رکھ کالم ، جینا مرنا تیرے سنگ کالم ، پپو یار تنگ نہ کر کالم ،ڈیجیٹل پاسپورٹ کالم، فنگر پرنٹس کالم ،کون روکے گا مجھے کالم ۔
میرا معمول ہے کہ میںصبح اٹھ کر تمام اخباروں کے کالموںکا بغور مطالعہ کرتا ہوں اور ان میں پائے جانے والی سخت گوئیوں، نرم گوشوں ، جذبات اور تاثرات کو محسوس کرتا ہوں ۔ اکثر کالم نگار تلخ حقائق اور تنبیہات کو ہومیو پیتھی انداز میں اس طرح کہہ جاتے ہیں کہ ان کی بھڑاس بھی نمایاں نہیں ہوتی اور پیغام بھی ڈلیور ہوجاتا ہے، یہ ہوتے ہیں ''جانم سمجھاکروکالم ‘‘۔
کچھ کالم نگاروں کی شخصیت سے قارئین کو لاکھ اختلاف ہو لیکن ان کی شعلہ بیانی ان کی ریڈر شپ پر آنچ نہیں آنے دیتی۔ یہ وہ کالم نگار ہیں کہ اردوکے پیپر میں تلخیص کے سوال میں کسی مضمون یا کہانی کی بجائے ان کے کالم کو شامل کر لیا جائے تو پندرہ بیس گالیوں میں ہی تلخیص مکمل ہوجائے۔ انہیں اپنے جارحانہ انداز پر بہت فخر ہوتا ہے، اسی لئے کالم کے اوپران کے ایک فاتحانہ انداز والی تصویر بھی چھپی ہوتی ہے۔ ان کے کالم کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں : ہوائی فائرنگ کالم ،الٹا لٹکو گے تو سیدھا نظر آئے گا کالم ، رائز آف انڈر ورلڈکالم ،گبر سنگھ کالم ، موگمبو خوش ہوا کالم، وحشی جٹ کالم، مولاجٹ کالم، رگو بھائی کالم، باکسر بھائی 
کالم ،غنی بھائی کالم ،دتا باؤلے کالم ، رادھے موہن کالم اور ریمنڈ ڈیوس کالم۔ ایسا نہیں کہ انہیں ڈر نہیں لگتا، ان کا نام جب کسی کی ہٹ لسٹ میں آجاتا ہے تو یہی کالم اس طرح کے ہوجاتے ہیں : سات سمندر پارکالم ، سندیسے آتے ہیں کالم ،اب لوٹ چلیں کالم ،دل کا کیا قصور کالم اورجینا چاہتا ہوں کالم ۔ 
کچھ کالم نگاروں نے تمام سیاسی معاملات کو پسِ پشت ڈال کر صرف معاشرتی برائیوں اور سماجی رویوں پر کمر کسی ہوتی ہے۔ ان کا ٹارگٹ بھی لیڈرز نہیں بلکہ ایک عام قاری ہی ہوتا ہے ۔ کالم پڑھنے کے بعد انسان اپنے آپ کو شرمندہ شرمندہ سا محسوس کرتا ہے حالانکہ لکھنے والے کی صحت پرکوئی اثر نہیں پڑتا ۔ یہ ہوتے ہیں: آخرکیوں کالم ، انسان بنا حیوان کالم ، سراٹھا کے جیوکالم ،چھپ چھپا کے پیوکالم، عورت راج کالم اور پتھر کے دورکا انسان کالم ۔
بے روزگاروں کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا جوکالم لکھنے کے خواہش مند ہیں۔ اب ایسا ممکن نہیں کہ ان تمام نوزائیدہ لکھاریوں کو اخبارات میں جگہ ملے، لہٰذا ان کے لئے سوشل میڈیا بجلی جیسی نعمت سے کم نہیں ۔ یہ سارا دن سینئر کالم نگاروں کے کالم پڑھتے ہیں اور رات کو ان میں سے ایک نیا کالم تخلیق کرتے ہیں اور آدھی رات کو ایک ٹیسٹ ٹیوب کالم پوسٹ کر دیتے ہیں ۔ پڑھنے والا بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ '' دل کا کالم ، میں کیا بتاؤں تجھے ‘‘۔ میں بھی اکثر یہ کالم پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔کچھ کالم تو واقعتاً اچھے ہوتے ہیں اورکچھ ایسے ہوتے ہیں کہ میں بھی کہہ اٹھتا ہوں ''یہ کالم شوق کا دیکھا نہ جائے‘‘۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved