جمہوری حکومت غیر مستحکم کرنے والوں
کو قوم مسترد کردے... صدر ممنون
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''جمہوری حکومت غیر مستحکم کرنے والوں کو قوم مسترد کردے‘‘ اور اگر قوم میرا اتنا سا کہا بھی نہ مانے تو پھر میرے صدر بننے کا فائدہ ہی کیا ہے کیونکہ مجھے صدر بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ قوم اگر وزیراعظم کا کہا نہ مانے تو اُسے میرے سپرد کردیا جائے‘ حالانکہ حکومت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے تھا کہ قوم اگر میرا کہا بھی نہ مانے تو اسے خدا کے سپرد کردیا جائے یا اس کے لیے کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''ماضی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کشکول توڑنے میں مشکل کا سامنا ہے‘‘ اور جب الیکشن سے پہلے کشکول توڑنے کا وعدہ کیا گیا تھا تو ماضی کا خیال ہی نہ رہا کیونکہ ہم ہمیشہ مستقبل پر نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پرانے قرضے اتارنے کے لیے نئے قرضے لے رہے ہیں‘‘ اور‘ ہمارے لیے ہوئے قرضے اگلی حکومت اتارے گی جبکہ اس کے قرضے ہم آ کر اتاریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''سب مل کر دعا کریں کہ مذاکراتی عمل کامیاب ہو جائے‘‘ جبکہ ہر معاملے پر اب ہمارا انحصار دعائوں پر ہی رہ گیا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک کانووکیشن سے خطاب کر رہے تھے۔
احتجاجی سیاست کرنے والے کامیاب
نہیں ہوں گے... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''احتجاجی سیاست کرنے والے کامیاب نہیں ہوں گے‘‘ کیونکہ ہم اگر غیر احتجاجی سیاست کر کے ناکام ہو گئے ہیں تو احتجاجی سیاست کرنے والے کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''ہم عوام کی خدمت کرتے رہیں گے‘‘ اور ساری دنیا جانتی ہے کہ ہم عوام کی خدمت کس طرح کرتے ہیں کیونکہ ہم اپنے آپ کو بھی عوام ہی سمجھتے ہیں جو ہمارے رہن سہن‘ بُودو باش اور کھانے پینے سے صاف ظاہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پی ٹی آئی کی تحریک سے سیاسی طور پر نمٹیں گے‘‘ کیونکہ ہم عوام کے ساتھ بھی سیاسی طور پر ہی نمٹ رہے ہیں اور ان کے ساتھ ہر روز ایک نیا وعدہ کرتے ہیں اور پچھلے وعدے بھول جانے کی درخواست کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''وفاقی اور صوبائی حکومت کی کارکردگی کو عوام کے سامنے لایا جائے گا‘‘ کیونکہ فی الحال تو عوام کو ہی حکومت کے سامنے لایا گیا ہے بلکہ حکومت نے انہیں آگے لگا رکھا ہے جو ہمیں دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے ملاقات کر رہے تھے۔
پنجاب میں میرٹ‘ شفافیت اور اچھی
حکمرانی کو فروغ دیا... شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پنجاب میں ہم نے میرٹ‘ شفافیت اور اچھی حکمرانی کو فروغ دیا‘‘ اگرچہ لوگ اسے نہیں مانتے تاہم ان کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں البتہ اپنی رائے کا احترام کچھ زیادہ ہی کرتے ہیں کہ ہم نے واقعی ایسا کر کے دکھا دیا ہے اور جہاں تک حکمرانی کا تعلق ہے تو ہم نے اسے غیروں کے سپرد کرنے کی بجائے سارا بوجھ اپنے اور اپنے عزیزو اقارب کے کندھے پر اٹھا رکھا ہے اور اپنے بزرگوں یعنی خاندانِ مغلیہ کے طرزِ حکمرانی کا احیاء کر کے دکھا دیا ہے جبکہ اب کسر تو صرف اتنی رہ گئی ہے کہ کسی نہ کسی طرح بھائی صاحب امیر المومنین بن جائیں تاکہ عوام کی خدمت زیادہ لگن اور یکسوئی سے کی جا سکے جبکہ اس سلسلے میں طالبان کے ساتھ بھی سلسلہ جنبانی شروع ہے کیونکہ ہم اگر ان کی کچھ شرطیں مان لیں تو انہیں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں کچھ خلیفے ان میں سے بھی لیے جا سکتے ہیں کہ آخر سب کچھ مل جل کر ہی کرنا چاہیے جبکہ ہم تو شروع سے ہی طالبان سمیت سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر راشد بن مسعود سے گفتگو کر رہے تھے۔
ریلوے پولیس میں کوئی جیالا یا متوالا
بھرتی نہیں ہوگا... خواجہ سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''ریلوے پولیس میں کوئی جیالا یا متوالا بھرتی نہیں کیا جائے گا‘‘ کیونکہ سارے متوالے اسلام آباد پولیس میں پہلے ہی بھرتی کیے جا چکے ہیں جبکہ ان کی مساعی جمیلہ کے باوجود چوریاں اور ڈکیتیاں عروج پر ہیں کیونکہ ہر پولیس والے کا ماشاء اللہ اپنا اپنا پاوا ہے جس کے زور پر وہ موجیں مان رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''وزراء کا کام نہ ریوڑیاں بانٹنا ہے نہ بھرتیاں کرنا‘‘ چنانچہ اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ وزرائے کرام ریوڑیاں کافی بانٹ چکے ہیں اور محاورے کے مطابق وہ انہوں نے اندھوں کی طرح ہی بانٹی ہیں‘ اب انہیں اپنا کوئی اصلی کام بھی کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کو آگے بڑھانا ہے تو شفافیت لانا ہوگی‘‘ جبکہ پوری کی پوری شفافیت کا مظاہرہ تو انتخابات کے دوران ہی کیا جا چکا ہے جسے سیٹھی صاحب نے خوب پروان چڑھایا تھا لیکن تازہ سانحہ یہ ہوا ہے کہ ایک بار پھر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے حالانکہ ابھی تک وہ اپنی خدمات کے ثمرات سے پوری طرح بہرہ ور بھی نہیں ہوئے تھے اور یہ سانحہ ہمارے لیے بھی کچھ کم نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں نئے چینی انجن کے ساتھ جعفر ایکسپریس کا افتتاح کر رہے تھے۔
مارشل لاء کا راستہ ہمیشہ کے لیے
بند ہو چکا ہے... افتخار چودھری
سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار چودھری نے کہا ہے کہ ''مارشل لاء کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے‘‘ اور‘ میں نے جو جنرل مشرف کے مارشل لاء کی توثیق کی تھی تو اس میں بھی یہی راز پنہاں تھا کہ ایک بار وہ جی بھر کے اس کے مزے لوٹ لیں تاکہ جب ان کا جی بھر جائے تو وہ اس سے خود ہی متنفر ہو جائیں بلکہ اگر سچ پوچھیں تو میں نے انہیں شرمندہ کرنے کے لیے ہی آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا تھا جو خود میرے پاس بھی نہیں تھا اور ان کی سادہ دلی دیکھیے کہ انہوں نے اسے قبول بھی کر لیا تھا ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
انہوں نے کہا کہ ''اب پیچھے نہیں‘ آگے کی طرف دیکھنا ہوگا‘‘ کیونکہ ماضی کچھ ایسا خوشگوار دکھائی نہیں دیتا۔ آپ اگلے روز نیویارک کے دورہ کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
ماندگی میں ترے پتھر پہ جبیں رکھ سکتا
یا یہ سامانِ سفر اور کہیں رکھ سکتا