تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     19-05-2014

راہ تکتی شہزاد مائی اور سعدیہ پروین

اگرچہ کالم لکھنے کے لیے بے شمار گرما گرم موضوعات دستیاب تھے، مگر پھر بھی ذہن بار بار ان دو کم وسیلہ بدقسمت خواتین کی طرف چلا جاتا ہے جو چار سال پہلے سیلاب کی لہروں میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھی تھیں۔ 2010ء کے سیلاب متاثرین کی حالت زار پر لکھنا، کچھ آئوٹ ڈیٹڈسا ضرور لگتا ہے، مگر کیا کروں شہزاد مائی اور سعدیہ کے آنسو اور ان کے چہروں پر لکھی کہانی مجبور کرتی ہے کہ ہمارے دکھ کو لفظوں کی زبان دو۔ 
شہزاد مائی کا تعلق بھکر سے تھا۔ وہ بتا رہی تھی کہ سیلاب میں اس کا سارا گھر، مال مویشی‘ جمع پونجی‘ رُڑھ گئی اور وہ اپنی اور بچوں کی جانیں بچا کر گھروں سے نکل آئے۔ یہی کہانی سعدیہ پروین کی تھی۔ پانچ بچوں کی ماں، زرد چہرہ اور جوانی میں بھی مضمحل سا وجود‘ جس سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ بھوک اور بیماری‘ ایک پکی سہیلی کی طرح اس کے ساتھ ساتھ رہتی ہوں گی۔ وہ لیہ کی بستی جمن شاہ سے آئی تھی اور ایسی ہی دلگداز کہانی سناتی تھی۔ 
یہ دونوں خواتین ان بدقسمت متاثرین خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں جن کے پاس کرپشن اور ناانصافی کے منظم نیٹ ورک نے امداد کا ایک پیسہ بھی پہنچنے نہیں دیا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ان دونوں خواتین کو لیہ اور بھکر سے لاہور لائی تھی اور مقصد یہ تھا کہ ریسرچ میں Testimonyکے طور پر مختلف سیمینار زمیں ان کی کہانی خود ان کی زبانی سنی جائے اور میں بھی گفتگو کی ایک ایسی ہی نشست میں ان کے ساتھ موجود تھی۔ قدرتی آفات کے بعد متاثرین خصوصاً عورتوں اور بچوں کی حالت زار کو کئی پہلوئوں سے وہاں ڈسکس کیا گیا۔ 
2010ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں نے اسّی ہزار خاندانوں کو بے گھر اور بے روزگار کردیا۔ گھریلو سامان کے ساتھ مال مویشی بھی سیلاب میں بہہ گئے۔ ان غریب خاندانوں کا ذریعہ معاش یہی مال مویشی تھے۔ یہ اسّی ہزار خاندان آج بھی یعنی سیلاب کے چار سال کے بعد بھی منتظر ہیں کہ سرکار اپنے وعدے کے مطابق انہیں امداد کی دوسری قسط ادا کرے۔ چند ڈونر ملکوں کی طرف سے آنے والی امدادی رقم سے حکومت نے ہر خاندان کو بیس ہزار دیئے اور وعدے کے مطابق امداد کی دوسری قسط 20 ہزار چند ماہ کے بعد ادا کرنی تھی لیکن آج چار سال ہو گئے ہیں۔ دوسری قسط کی ادائیگی کھٹائی میں پڑ چکی ہے۔ 2010ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور آج مسلم لیگ ن وفاق میں حکمران ہے۔ کاغذات میں تو تباہ حال اسّی ہزار خاندانوں کو بیس ہزار فی خاندان ادا کیے گئے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 
بھکر کی شہزاد مائی اور لیہ کی سعدیہ پروین کی طرح‘ بیسیوں خاندان ایسے ہیں جن تک اس امدادی رقم کا ایک روپیہ بھی نہیں پہنچا۔ چند مقامی تنظیموں اور مخیر حضرات کے تعاون سے وہ غریب خاندان اس قابل ہوئے کہ زندگی کے ساتھ ناتا جوڑے رکھیں۔ ڈونر ملکوں کی طرف سے آنے والی امداد کا مکمل آڈٹ نہیں ہوا۔ اسی وجہ سے دوسری قسط کی رقم روک لی گئی ہے۔ جرمنی‘ آسٹریلیا اور برطانیہ ان ڈونر ملکوں میں شامل ہیں۔ کیا یہ ہمارے لیے شرمندگی کا باعث نہیں ہے کہ ہمارے نظام میں کرپشن‘ بددیانتی اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ بیرونی ملکوں سے آنے والی متاثرین کی امداد سے بھی کرتا دھرتا لوگ اپنا حصہ وصول کیے بنا نہیں رہتے؟
لیہ سے آنے والی سعدیہ نے بتایا کہ اس کی گیارہ سالہ بیٹی ہر وقت روتی رہتی ہے اور رات کو جاگتی ہے۔ اس بچپنے میں وہ اپنی نیند سے محروم ہو چکی ہے۔ اسے ڈر لگتا ہے کہ کہیں پھر سے سیلاب نہ آ جائے ۔اسی طرح‘ اس نے بتایا کہ سیلاب کی تباہ کاری کے بعد کئی لوگ اس حادثے سے ہونے والے نقصانات سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے اور اس کی اپنی ساس‘ شدید ذہنی تنائو کا دور ہ پڑنے سے فالج کا شکار ہو گئی۔ تکلیف اور دکھ سے بھری ایسی ایسی کہانیاں ہیں کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ غریب بدقسمت لوگ کس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ادھر حکمران ہیں کہ خوب صورت بیانات اور بلند بانگ دعووں کے ساتھ عوام کو بیوقوف بناتے رہتے ہیں اورشاید بناتے رہیں گے۔ 
وزیراعلیٰ شہباز شریف اکثر اپنی تقاریر میں مظفر گڑھ کے زلزلہ متاثرین کے لیے دوست ملک ترکی کی بے مثال امداد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ چند روز پہلے بھی انہوں نے کہا کہ مظفر گڑھ میں ترکی کی مدد سے جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ایک ہسپتال تعمیر کیا گیا ہے ۔اس کا افتتاح جلد ہی متوقع ہے۔ 
ہماری گزارش یہ ہے کہ چند ماڈل گائوں‘ ماڈل ہسپتال اور ماڈل سکول بنا کر تمام سرمایہ اس کی نذر کرنے کے بعد پیسے کی منصفانہ تقسیم پر توجہ دیں اور ان بدحال ڈسپنسریوں کی بھی خبر لیں جہاں نہ دوائیں ہیں، نہ معالج موجود ہیں۔ مظفرگڑھ میں زلزلہ متاثرین کے لیے آنے والی خوراک‘ امپورٹڈ پاستاکو ہم نے خود وہاں کے خوشحال گھرانوں کی ڈائیننگ ٹیبل پر سجا ہوا دیکھا ہے۔ استفسار پر پتہ چلا کہ جن انتہائی غریب گھرانوں کے لیے یہ امپورٹڈ خوراک امداد کے طور پر آئی تھی‘ وہ زندگی میں خوراک کے نام پر روٹی سالن کے ہی عادی تھے ،سو ایسی چیزیں انہوں نے نہ کبھی دیکھیں نہ سنیں۔ یوں امداد کا ایک بڑا حصہ ضائع چلا گیا۔ ہونا یہ چاہیے کہ سیلاب جو ہر سال پاکستان کے کچھ 
علاقوں میں تباہی پھیلاتے ہیں ،لوگوں کو گھروں سے بے گھر کرتے ہیںاور ہمیں ہر سال ریلیف کا ایک بڑا چیلنج درپیش ہوتا ہے۔ اس کے لیے ہماری حکومتیں سنجیدگی سے Relief and rehabilitation کا ایک ادارہ قائم کریں جو منظم اجتماعی کوششوں کے ساتھ بحالی کا کام کرے۔ امداد میں کرپشن اور بددیانتی کے امکانات روکنے کے لیے سخت نظام بنایا جائے۔ غیر ملکی ڈونرز اور غیر سرکاری تنظیموں سے آنے والی امداد اجتماعی طور پر اس ادارے کے ذریعے منصفانہ انداز میں تقسیم ہو۔ خدمت خلق سے سرشار اور خوفِ خدا رکھنے والے افراد اس ادارے کا حصہ بننے چاہئیں۔ 
جن ملکوں نے آفات سے نمٹنے کے لیے ایسے ادارے بنائے ہیں‘ وہاں ڈیزاسٹر آتے ہیں مگر تباہی کی شرح کم ہوتی ہے ،جبکہ ہمارے یہاں قدرتی آفت آتی ہے تو ہر روز نئے حادثے‘ نئے مسائل اور نئے عذاب جنم لینے لگتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اس کو ''کرنٹ ایشوز‘‘ کی طرح ڈیل کرتے ہیں۔ صرف سیلاب کے دنوں میں متاثرین کی تصاویر اور خبریں‘ اخباروں اور ٹی وی پر دکھائی دیتی ہیں مگر چند روز‘ چند ہفتے گزرنے کے بعد ان خبروں میں سے میڈیا کے لیے ''مصالحہ ‘‘ختم ہو جاتا ہے۔ ان آئوٹ ڈیٹڈ خبروں کی کوریج کے لیے پھر کوئی متاثرین کے پاس نہیں جاتا۔ شہزاد مائی اور سعدیہ پروین جیسے بیسیوں غریب خاندان بے روزگاری اور بے گھری کا عذاب سہتے صرف راہ تکتے رہتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved